سوال
کیا یہ بات درست ہے کہ اگر کوئی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو سیاسی طور پر پہلا خلیفہ مانے تو کوئی مسئلہ نہیں؟
کیا واقعی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کچھ لوگ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ اول سمجھتے تھے؟
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے باہمی اختلافات پر ایک عام مسلمان کا مؤقف کیا ہونا چاہیے؟
کیا یہ کہنا جائز ہے کہ اگر ہم اس وقت ہوتے تو فلاں صحابی کے لشکر میں ہوتے؟
جواب از فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ ، فضیلۃ الباحث حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ
پہلا جواب: فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو پہلا خلیفہ ماننے کی گنجائش صرف اس حد تک نکل سکتی ہے کہ
یہ بات سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت سے پہلے بعض افراد کے ذہنوں میں ہو،
مثلاً سیدنا علی رضی اللہ عنہ یا سیدنا عباس رضی اللہ عنہ یہ سوچ رکھتے ہوں،
مگر بیعت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد اس بات کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
عوامی سطح پر اس مسئلے کو نہ اچھالا جائے اور نہ ہی منبر و محراب یا تقریر و تحریر میں اس کا چرچا کیا جائے، کیونکہ:
❀ ہمیں خیر القرون (بہترین ادوار) کے افراد کے بارے میں لب کشائی نہیں کرنی چاہیے،
❀ اگر کسی کے دل میں کوئی خیال ہو بھی، تو وہ اپنے دل میں رکھے۔
یہ کہنا کہ "اگر ہم اس دور میں ہوتے تو فلاں صحابی کے لشکر میں ہوتے”
سراسر نامناسب ہے، کیونکہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے منتخب کردہ تھے،
ان کا مقابلہ بعد والوں سے نہیں کیا جا سکتا۔
جو وہ کر چکے، امت کا کوئی فرد اس کے برابر نہیں ہو سکتا۔
اس موضوع پر شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ کی کتاب
"مشاجرات صحابہ میں سلف کا موقف”
ایک مرتبہ ضرور پڑھنی چاہیے۔
دوسرا جواب: فضیلۃ الباحث حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ
یہ بات بالکل غلط ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ اول مانتے تھے، کیونکہ:
➊ اولاً:
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کے بعد
کسی صحابی کا یہ کہنا ثابت نہیں کہ وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ اول سمجھتا تھا،
یا اس نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت نہیں کی۔
➋ ثانياً:
اگر صحابہ کے درمیان کسی بات میں اختلاف ہوا بھی ہو،
تو جب وہ بالآخر متفق ہو جائیں، تو اُس ابتدائی اختلاف کو دلیل بنا کر کوئی مستقل عقیدہ اخذ کرنا جائز نہیں۔
جیسے کہ سقيفہ بنی ساعدہ میں انصار نے کہا تھا کہ ہمارا اور مہاجرین کا الگ الگ امیر ہو،
تو اگر ہر ابتدائی اختلاف کو بنیاد بنایا جائے تو خلافت کے نظام کا شیرازہ بکھر جائے گا۔
➌ ثالثاً:
اگر کسی معاملے میں پہلے اختلاف ہو جائے لیکن بعد میں اس پر امت کا اجماع ہو جائے
تو پھر اس اجماع سے انحراف کرنا سخت قابل مذمت عمل ہے۔
خلاصہ کلام:
❀ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ اول ماننا بیعتِ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد قطعاً درست نہیں۔
❀ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے باہمی اختلافات کو عقائد اور فرقہ واریت کی بنیاد بنانا غلط ہے۔
❀ ایک عام مسلمان کو چاہیے کہ وہ ان اختلافات میں دخل نہ دے اور خاموشی اختیار کرے۔
❀ کسی ایک صحابی کے لشکر میں ہونے کا دعویٰ کرنا فتنہ انگیزی کا سبب بن سکتا ہے،
جبکہ ان کا مرتبہ، علم اور تقویٰ امت کے باقی افراد سے بلند تر ہے۔
واللہ اعلم بالصواب