سیدنا علی رض سے اخوت کے متعلق 34 روایات کی تحقیق
اصل مضمون غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کا تحریر کردہ ہے، اسے پڑھنے میں آسانی کے لیے عنوانات، اور اضافی ترتیب کے ساتھ بہتر بنایا گیا ہے۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے رتبہ اور اسلامی اخوت

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا شمار جلیل القدر صحابہ میں ہوتا ہے اور وہ اسلام کے چوتھے خلیفہ راشد بھی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کے کئی قریبی رشتے تھے، جن میں اسلامی اخوت، چچازاد بھائی ہونے کا رشتہ، اور دامادی کا رشتہ شامل ہیں۔ اسلامی اخوت کا رشتہ، جس نے تمام رشتوں پر فوقیت حاصل کی، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا ایک بڑا سبب تھا۔

اسلامی رشتے کی حقیقت

بعض روایات میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخصوص اخوت کے رشتے کا ذکر ملتا ہے، جسے علمی دیانتداری کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ تمام صحابہ کرام کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسلامی اخوت کا رشتہ موجود تھا، لیکن کچھ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خصوصی طور پر ہجرت کے بعد اخوت کا رشتہ قائم کیا تھا۔ اس دعوے کے دلائل کا جائزہ لیتے ہیں:

دلیل نمبر 1: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت

روایت کے مطابق، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کے درمیان اخوت قائم کی تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ آنسو بہاتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا کہ آپ نے مجھے کسی کا بھائی نہیں بنایا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’أَنْتَ أَخِي فِي الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ‘
(سنن الترمذي: 3720، وقال: حسنٌ)

روایت کی تحقیق

یہ روایت سند کے اعتبار سے ’’ضعیف‘‘ ہے، کیونکہ:

➊ حکیم بن جبیر اسدی، جو اس روایت کے راوی ہیں، جمہور محدثین کے نزدیک ’’ضعیف‘‘ اور ’’متروک‘‘ ہیں۔ امام احمد بن حنبل، امام یحییٰ بن معین، امام نسائی اور دیگر محدثین نے انہیں ضعیف قرار دیا ہے۔
(السنن: 122/2، مجمع الزوائد: 320/5، 299/7)

➋ مستدرک حاکم میں حکیم بن جبیر کی متابعت سالم بن ابو حفصہ نے کی ہے، لیکن یہ سند بھی جھوٹی ہے کیونکہ اس میں اسحاق بن بشر کاہلی ’’متروک‘‘ اور ’’وضاع‘‘ راوی ہے، جسے امام ابن عدی نے حدیث گھڑنے والوں میں شمار کیا ہے۔
(الکامل في ضعفاء الرجال: 342/1)

دلیل نمبر 2: سیدنا زید بن ابو اوفی رضی اللہ عنہ سے منسوب روایت

روایت کے مطابق، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے درمیان ایک مکالمہ ہوا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آپ کی میرے نزدیک وہی حیثیت ہے جو ہارون کی موسیٰ علیہ السلام کے نزدیک تھی۔ اس مکالمے کے دوران سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے وراثت سے متعلق سوال کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرمائی کہ انبیاء کی وراثت میں کتاب اللہ اور سنت شامل ہوتی ہے، اور جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا مقام ہو گا۔

روایت کی تحقیق

یہ روایت سند کے لحاظ سے باطل ہے اور اس کی متعدد وجوہات ہیں:

➊ عبدالمومن بن عباد عبدی، جو اس روایت کے راوی ہیں، کے بارے میں محدثین کا متفقہ فیصلہ ہے کہ یہ راوی قابل اعتماد نہیں۔

➋ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ منکر روایات بیان کرتا ہے”
(التاریخ الکبیر: 117/6)۔

➌ امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ نے بھی اسے "ضعیف” قرار دیا ہے
(الجرح والتعدیل: 66/6)۔

➍ امام عقیلی رحمہ اللہ نے اس کی ایک روایت کو کمزور کہا ہے
(الضعفاء الکبیر: 91/3)۔

➎ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اسے ضعیف راویوں میں شمار کیا ہے
(لسان المیزان: 75/4)۔

➏ یزید بن معن کے حالات زندگی کا کوئی ذکر نہیں ملتا، جو کہ اس روایت کی سند کو مزید مشکوک بناتا ہے۔

➐ روایت میں ایک مبہم راوی بھی موجود ہے، جس کی شناخت معلوم نہیں ہو سکی۔

سند کی مزید خامیاں:

➊ تاریخ کبیر
(386/3)
میں اس روایت کے راوی ابراہیم بن بشیر ازدی اور یحییٰ بن معین مدنی دونوں "مجہول” ہیں
(الجرح والتعدیل: 90/2)۔

➋ سعد بن شرحبیل کی توثیق بھی نہیں ملی۔

محدثین کی آراء

➊ حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ "بلاشبہ اس کی سند میں ضعف ہے”
(الاستیعاب: 159/1)۔

➋ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سند کو "مجہول” قرار دیا ہے اور کہا کہ یہ منکر روایت ہے اور اس کے راویوں کا سماع بھی معلوم نہیں
(التاریخ الصغیر: 250/1، 251)۔

➌ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے "سخت منکر” روایت کہا ہے
(سیر اعلام النبلاء: 141/1)
اور مزید لکھتے ہیں کہ زید نامی راوی اس من گھڑت روایت کے علاوہ کسی اور جگہ معروف نہیں
(سیر اعلام النبلاء: 142/1)۔

دلیل نمبر 3: سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت

روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
‘أَنْتَ أَخِي وَصَاحِبِي’
(آپ میرے بھائی اور ساتھی ہیں)۔
(مسند الإمام أحمد: 230/1)

روایت کی تحقیق

یہ روایت ضعیف ہے اور اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:

➊ حجاج بن ارطاۃ، جو اس روایت کے راوی ہیں، جمہور محدثین کے نزدیک "ضعیف” اور "مدلس” ہیں۔

➋ تاریخ دمشق
(53/42)
میں حجاج کی متابعت شعبہ نے کی ہے، تاہم یہ بھی سند کو مضبوط کرنے کے لیے ناکافی ہے۔

➌ اس روایت میں حکم بن عتیبہ کی تدلیس بھی شامل ہے۔ حکم نے مقسم سے صرف چار یا پانچ احادیث سنی ہیں اور یہ روایت ان میں شامل نہیں ہے، جس کی وجہ سے یہ روایت منقطع ہے۔

دلیل نمبر 4: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت

روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں ایک باغ میں تلاش کر رہے تھے، جہاں آپ نے انہیں غبار آلود حالت میں زمین پر سوتے ہوئے پایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ابو تراب کہنے والوں کو ملامت نہ کرتے ہوئے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خوش کرنے کے لیے فرمایا کہ آپ میرے بھائی، وزیر، میرے قرض ادا کرنے والے، اور وعدوں کو پورا کرنے والے ہیں۔

روایت کی تحقیق

یہ روایت سخت ضعیف ہے اور اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:

➊ لیث بن ابو سلیم، جو اس روایت کا راوی ہے، جمہور محدثین کے نزدیک "ضعیف” ہے اور وہ حافظے کی خرابی کا شکار تھا۔

➋ عبداللہ بن محمد طہوی بھی اس روایت کا راوی ہے، جو مجہول ہے اور اس کے بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں۔

➌ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس روایت کی سند میں ایک راوی ہے جسے وہ نہیں پہچانتے
(مجمع الزوائد: 121/9)۔

دلیل نمبر 5: سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منسوب روایت

روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ایک نالے میں سوتا ہوا پایا اور انہیں جگایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ان لوگوں کو ملامت نہیں کرتا جو آپ کو ابو تراب کہتے ہیں اور پھر آپ کو خوش کرنے کے لیے فرمایا کہ آپ میرے بھائی ہیں، میرے نواسوں کے والد ہیں، اور میری سنت کی حفاظت کرتے ہیں۔ جو آپ سے محبت کرے گا، وہ امن و ایمان کے ساتھ مرے گا، اور جو بغض رکھے گا، وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔

روایت کی تحقیق

یہ روایت ضعیف ہے، اور اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:

➊ عبدالمومن نامی راوی کی توثیق اور حالات معلوم نہیں ہیں، جس کی وجہ سے اس کی سند کمزور ہے۔

➋ سوید بن سعید راوی کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ صدوق تھے، مگر نابینا ہونے کے بعد وہ تلقین قبول کر لیتے تھے، جس سے ان کی روایات پر اعتماد کرنا مشکل ہے
(تقریب التہذیب: 2690)۔

دلیل نمبر 6: سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منسوب روایت

اس روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
‘یَا عَلِيُّ، أَنْتَ أَخِي، وَصَاحِبِي، وَرَفِیقِي، فِي الْجَنَّۃِ’
(علی! آپ میرے بھائی، ساتھی اور جنت میں میرے رفیق ہیں)۔
(تاریخ بغداد: 268/12، تاریخ دمشق: 61/42)

روایت کی تحقیق

یہ روایت موضوع (جھوٹی) ہے، اور اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:

➊ عثمان بن عبدالرحمن وقاصی، جو اس روایت کا راوی ہے، محدثین کے اتفاق کے مطابق "ضعیف” اور "متروک” ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ محدثین کا اس کے متروک ہونے پر اتفاق ہے
(سیر اعلام النبلاء: 167/1)۔

➋ عمران بن سوار بغدادی کی توثیق نہیں ملتی۔

➌ علی بن حسین نے اپنے دادا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا، جس سے یہ روایت مزید کمزور ہو جاتی ہے۔

دلیل نمبر 7: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب روایت

اس روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
‘أَنْتَ أَخِي، وَأَنَا أَخُوکَ’
(آپ میرے بھائی ہیں، اور میں آپ کا بھائی ہوں)۔
(تاریخ دمشق: 18/42)

روایت کی تحقیق

یہ روایت سخت ضعیف ہے، اور اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:

➊ حفص بن جمیع کوفی راوی جمہور محدثین کے نزدیک "ضعیف” ہے
(تقریب التہذیب: 1401)۔

➋ سماک بن حرب کا حافظہ آخری عمر میں خراب ہو گیا تھا، جس سے ان کی روایات پر اعتماد کرنا مشکل ہے۔

➌ عمر بن عبید اللہ تیمی کی توثیق صرف امام ابن حبان نے کی ہے، جبکہ دیگر محدثین نے ان کی توثیق نہیں کی، جس کی وجہ سے وہ "مجہول الحال” ہیں۔

دلیل نمبر 8: سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی روایت

روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے یہ فرماتے ہوئے سنا:
‘أَنْتَ أَخِي فِي الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ’
(آپ دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہیں)۔
(تاریخ دمشق للحافظ ابن عساکر: 52/42)

روایت کی تحقیق

یہ روایت باطل سند کے ساتھ آئی ہے اور اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:

➊ عمرو بن ابو مقدام بن ثابت، جو اس روایت کا راوی ہے، جمہور محدثین کے نزدیک "ضعیف” اور "متروک” ہے۔

➋ امام عبداللہ بن مبارک، امام یحییٰ بن معین، امام بخاری، امام دارقطنی، امام ابو حاتم رازی، امام ابو زرعہ رازی، امام نسائی اور امام ابن عدی رحمہم اللہ نے اسے "ضعیف” اور "متروک” قرار دیا ہے۔

➌ حسن بن حسین عرنی راوی کو مجروح قرار دیا گیا ہے۔

➍ عمر بن حسن قاضی کو بھی غیر معتبر قرار دیا گیا ہے۔

➎ حسن بصری کو محدثین نے "مدلس” کہا ہے، جو روایت کی مزید کمزوری کا سبب بنتا ہے۔

دلیل نمبر 9: سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی ایک اور روایت

اس روایت کے مطابق، سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے یہ فرماتے ہوئے سنا:
‘أَنْتَ أَخِي، وَأَنَا أَخُوکَ’
(آپ میرے بھائی ہیں، اور میں آپ کا بھائی ہوں)۔
(تاریخ دمشق للحافظ ابن عساکر: 52/42)

روایت کی تحقیق

یہ روایت موضوع (من گھڑت) ہے، اور اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:

➊ مطر بن میمون محاربی کو محدثین نے "متروک” اور "وضاع” (حدیث گھڑنے والا) قرار دیا ہے۔

➋ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے "متروک” کہا ہے
(تقریب التہذیب: 6703)۔

➌ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ راوی سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ایسی روایتیں بیان کرتا تھا جو انہوں نے کبھی بیان ہی نہیں کیں۔ اس سے روایت لینا حرام ہے
(المجروحین: 5/3)۔

➍ اس حدیث کو حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ
(الموضوعات: 347/1)
اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ
(میزان الاعتدال: 127/4)
نے "موضوع” (من گھڑت) قرار دیا ہے۔

دلیل نمبر 10: سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کی روایت

اس روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اسی طرح کہتا ہوں جیسے میرے بھائی موسیٰ علیہ السلام نے کہا تھا:
‘رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي’، {وَاجْعَلْ لِي وَزِيرًا مِنْ أَهْلِي} عَلِيًّا أَخِي اشْدُدْ بِهِ أَزْرِي’
(میرے رب، میرے لئے میرا کام آسان فرما، اور میرے بھائی علی کے ذریعے مجھے قوت عطا فرما)۔
(تاریخ دمشق لابن عساکر: 52/42)

روایت کی تحقیق

یہ روایت ضعیف ہے اور اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:

➊ حصین بن یزید ثعلبی کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا: "فیہ نظر” (یہ قابل اعتماد نہیں)
(التاریخ الکبیر: 7/3)۔

➋ سوائے امام ابن حبان رحمہ اللہ
(الثقات: 158/4)
کے، کسی نے اس کی توثیق نہیں کی، جس سے یہ راوی "مجہول الحال” ہے۔

➌ احمد بن عبدالملک اودی کی توثیق بھی درکار ہے، جس کی عدم موجودگی اس روایت کی سند کو مزید کمزور بناتی ہے۔

دلیل نمبر 11: محدوج بن زید ذہلی کی روایت

اس روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے درمیان اخوت قائم کی، اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے سینے پر رکھا اور فرمایا:
‘یَا عَلِيُّ، أَنْتَ أَخِي’
(علی، آپ میرے بھائی ہیں)۔
(تاریخ دمشق لابن عساکر: 53/42)

روایت کی تحقیق

یہ روایت جھوٹی ہے، اور اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:

➊ سعد بن طریف اسکاف کو جمہور محدثین نے "متروک” اور "وضاع” (حدیث گھڑنے والا) قرار دیا ہے۔

➋ یحییٰ بن عبدالحمید حمانی جمہور محدثین کے نزدیک "ضعیف” ہے۔

➌ قیس بن ربیع کو بھی محدثین نے "ضعیف” قرار دیا ہے۔

➍ عطیہ عوفی جمہور محدثین کے نزدیک "ضعیف” ہے۔

➎ محدوج بن زید کے صحابی ہونے میں اختلاف ہے۔

دلیل نمبر 12: سیدنا ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ کی روایت

روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے درمیان اخوت قائم کی، تو انہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اپنا بھائی بنایا۔
(تاریخ دمشق لابن عساکر: 51/42)

روایت کی تحقیق

یہ روایت صریح جھوٹ ہے، اور اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:

➊ ایوب بن مدرک حنفی کو جمہور محدثین نے "متروک” اور "کذاب” قرار دیا ہے۔

➋ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایوب بن مدرک نے امام مکحول سے من گھڑت نسخہ روایت کیا ہے، حالانکہ اس نے مکحول کو کبھی دیکھا بھی نہیں
(میزان الاعتدال: 293/1)۔

➌ علاء بن عمرو حنفی بھی جھوٹی حدیثیں گھڑنے میں ماہر تھا۔

➍ مکحول کا سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں ہے۔

دلیل نمبر 13: سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی روایت

اس روایت کے مطابق، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا:
‘وَاللّٰہِ إِنِّي لَـأَخُوہُ وَوَلِیُّہٗ وَابْنُ عَمِّہٖ’
(اللہ کی قسم، میں آپ کا بھائی، وارث اور چچازاد ہوں)۔
(تاریخ دمشق لابن عساکر: 56/42)

روایت کی تحقیق

یہ روایت ضعیف ہے، اور اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:

➊ سماک بن حرب، اگرچہ جمہور محدثین کے نزدیک "حسن الحدیث” ہے، لیکن عکرمہ سے اس کی روایت "مضطرب” ہوتی ہے۔

➋ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ سچا راوی تھا، لیکن عکرمہ سے اس کی روایت خاص طور پر مضطرب ہوتی ہے، اور آخر عمر میں اس کا حافظہ خراب ہو گیا تھا
(تقریب التہذیب: 2624)۔

دلیل نمبر 14: سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ایک اور روایت

اس روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو دس باتیں فرمائیں، ان میں سے ایک یہ تھی:
‘یَا عَلِيُّ، أَنْتَ أَخِي فِي الدُّنْیَا وَالْـآخِرَۃِ’
(اے علی! آپ دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہیں)۔
(أمالي الشجري: 141/1)

روایت کی تحقیق

یہ روایت جھوٹی ہے، اور اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:

➊ نصر بن مزاحم کوفی کو محدثین نے "متروک” اور "کذاب” قرار دیا ہے
(لسان المیزان لابن حجر: 267/8)۔

➋ اس روایت میں دیگر راویوں کے حالات زندگی معلوم نہیں ہو سکے۔

دلیل نمبر 15: سیدنا یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ کی روایت

روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے درمیان اخوت قائم کی، لیکن سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دیا، جس پر انہوں نے کہا کہ آپ نے مجھے چھوڑ دیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے آپ کو اپنی ذات کے لیے چھوڑا ہے، آپ میرے بھائی ہیں، اور آپ کے بعد کوئی جھوٹا ہی اس بات کا دعویٰ کرے گا۔
(الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 66/6)

روایت کی تحقیق

یہ روایت سخت ضعیف ہے، اور اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:

➊ عمربن عبداللہ بن یعلیٰ کو جمہور محدثین نے "ضعیف” اور "مجروح” قرار دیا ہے۔

➋ امام احمد بن حنبل، امام یحییٰ بن معین، امام ابو حاتم رازی، امام ابو زرعہ رازی، امام بخاری، امام نسائی، اور امام یعقوب بن سفیان فسوی رحمہم اللہ نے اسے "ضعیف” قرار دیا ہے۔

➌ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے "متروک” قرار دیا ہے
(الضعفاء والمتروکون: 376)۔

➍ روح بن عبدالمجیب بلدی کے حالات زندگی معلوم نہیں ہو سکے۔

دلیل نمبر 16: سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت

اس روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کے درمیان اخوت قائم کی اور فرمایا:
‘علی میرے بھائی ہیں اور میں ان کا بھائی ہوں اور میں ان سے محبت کرتا ہوں’۔
(الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 132/7)

روایت کی تحقیق

یہ روایت سخت ضعیف ہے، اور اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:

➊ ہیاج بن بسطام ہروی کو جمہور محدثین نے "ضعیف” قرار دیا ہے۔

➋ امام یحییٰ بن معین، امام نسائی، امام ابو حاتم رازی، امام ابن حبان، اور امام ابن عدی رحمہم اللہ نے اسے "ضعیف” قرار دیا ہے۔

➌ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ ضعیف راوی ہے اور اس کا بیٹا خالد اس سے شدید منکر روایات بیان کرتا تھا
(تقریب التہذیب: 7300)۔

دلیل نمبر 17: سیدنا ابو طفیل رضی اللہ عنہ کی روایت

روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات کے وقت مجلس شوریٰ قائم کی، تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سوا کسی اور کے ساتھ اخوت قائم نہیں کی۔
(الاستیعاب في معرفۃ الأصحاب لابن عبد البر: 338/1)

روایت کی تحقیق

یہ روایت جھوٹی کہانی ہے، اور اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:

➊ ابو جارود زیاد بن منذر "کذاب”، "متروک” اور رافضی ہے۔

➋ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ جھوٹا اور اللہ کا دشمن ہے
(الکامل في ضعفاء الرجال: 189/3)۔

➌ سعید بن محمد ازدی کی توثیق نہیں مل سکی۔

➍ اسحاق بن ابراہیم ازدی کی بھی محدثین سے توثیق ثابت نہیں ہوئی۔

دلیل نمبر 18: سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت

اس روایت کے مطابق، سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے یہ فرماتے ہوئے سنا:
‘أَنْتَ أَخِي’
(آپ میرے بھائی ہیں)۔
(الضعفاء الکبیر للعقیلي: 179/2)

روایت کی تحقیق

یہ روایت باطل ہے، اور اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:

➊ مالک بن عطیہ جہنی کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔

➋ حسن بن محبوب بن وہب زراد کی توثیق ثابت نہیں ہو سکی۔

➌ امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابو جعفر محمد بن علی کی روایت سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے متصل نہیں ہوتی
(الضعفاء الکبیر للعقیلي: 179/2)۔

دلیل نمبر 19: سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ کی روایت

اس روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ کعبہ کے ساتھ ٹیک لگائے فرما رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا:
‘اے اللہ! ان کی نصرت فرما، یقینا یہ تیرے بندے اور تیرے رسول کے بھائی ہیں’۔
(تاریخ دمشق لابن عساکر: 54/42)

روایت کی تحقیق

یہ روایت ضعیف اور غیر ثابت ہے، اور اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:

➊ امام جعفر صادق رحمہ اللہ کا کسی صحابی سے سماع ثابت نہیں ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے انہیں طبقہ سادسہ میں ذکر کیا ہے، جن کے صحابہ سے ملاقات ثابت نہیں ہوتی۔

➋ جعفر بن ابراہیم جعفری "مجہول الحال” ہے، اور امام ابن حبان فرماتے ہیں کہ اس کی روایتوں کو متابعات و شواہد میں ذکر کیا جا سکتا ہے
(لسان المیزان لابن حجر: 106/2)۔

➌ اس سند میں بہت سے راویوں کی توثیق نہیں مل سکی۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا تبصرہ

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مہاجرین کی آپس میں اور انصار کی آپس میں مواخات کے متعلق تمام احادیث جھوٹی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ، نہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مواخات قائم کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اور انصار کے مابین مواخات قائم کی تھی، جیسا کہ سیدنا عبدالرحمن بن عوف اور سیدنا سعد بن ربیع، سیدنا سلمان فارسی اور سیدنا ابو دردا، اور سیدنا علی اور سیدنا سہل بن حنیف رضی اللہ عنہم کے مابین بھائی چارہ قائم کیا تھا۔
(منہاج السنّۃ النبویّۃ: 279/7)

خلاصۃ التحقیق:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سیدنا علی رضی اللہ عنہ سمیت تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اسلامی اخوت کا رشتہ موجود تھا، تاہم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص طور پر کسی اخوت کا تعلق ثابت نہیں ہے۔ جو روایات اس بارے میں بیان کی گئی ہیں، جن میں ہجرت کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ اخوت قائم کرنے کا ذکر ہے، وہ تمام کی تمام "ضعیف” اور ناقابل اعتبار ہیں۔

محدثین کے اصولوں کی روشنی میں ایسی کوئی بھی روایت نہیں ہے جو "حسن” یا "صحیح” سند کے ساتھ اس دعوے کو ثابت کرتی ہو۔ اگر کوئی شخص ایسی صحیح یا حسن سند کے ساتھ روایت پیش کر سکتا ہے، تو محدثین کے اصولوں کے مطابق اس کا جائزہ لیا جائے گا۔ فی الوقت ہمارے علم میں ایسی کوئی روایت نہیں جو اصول محدثین کے مطابق ثابت ہو۔

ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اخوت کی روایات:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طور پر سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اپنا بھائی کہا، جس کے کچھ مستند حوالے درج ذیل ہیں:

➊ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو خلیل بناتا، تو ابوبکر کو خلیل بناتا، لیکن وہ میرے بھائی اور دوست ہیں۔”
(صحیح البخاری: 3656، صحیح مسلم: 2383)

➋ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"لوگوں میں سے سب سے زیادہ مجھ پر مال اور صحبت میں احسان کرنے والے ابو بکر ہیں۔ اگر میں اپنے رب کے علاوہ کسی کو خلیل بناتا، تو ابوبکر کو خلیل بناتا، لیکن اسلامی بھائی چارہ اور محبت ہی کافی ہے۔”
(صحیح البخاری: 3654، صحیح مسلم: 2382)

➌ جب سیدہ خولہ بنت حکیم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا رشتہ مانگا، تو سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

"یہ عائشہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بھائی ابو بکر کی بیٹی ہے، رشتہ کیسے ہو سکتا ہے؟”
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:
"آپ میرے اسلامی بھائی ہیں اور میں آپ کا، لیکن آپ کی بیٹی میرے لیے جائز ہے۔”
اس پر سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے سیدہ عائشہ کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کر دیا۔
(المعجم الکبیر للطبراني: 23/23، حدیث: 57، وسندہ حسن)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے