آپ ہی کے بار ے میں نبی کریمﷺ نے غزوۂ اُحد کے دن فرمایا تھا :”ارم فداک أبي و أمي” تیر پھینکو، میرے ماں بات تم پر قربان ہوں (صحیح بخاری : ۴۰۵۵ و صحیح مسلم: ۲۴۱۴/۱۲ و ترقیم دارالسلام : ۶۲۳۷)
ایک رات کو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”لیت رجلاً صالحاً من أصحابي یحرسني اللیلۃ” کاش میرے صحابہ میں سے ایک نیک آدمی میرا پہرا دے ۔ پھر سعد بن ابی وقاصؓ اسلحے کی جھنکار کے ساتھ تشریف لائے اور آپ کا پہرا دیا۔ آپ بے غم ہو کر سو گئے ۔ (صحیح بخاری: ۷۲۳۱ و صحیح مسلم : ۲۴۱۰و دارالسلام: ۶۲۳۰)
یہ حدیث اس دور کی ہے جس وقت آیت مبارکہ ﴿وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ط﴾ اور اللہ آپ کو لوگوں سے بچائے گا (المآئدۃ: ۶۷) نازل ہوئی تھی۔ دیکھئے سنن الترمذی (۳۰۴۶ و إسنادہ حسن و صححہ الحاکم ۳۱۳/۲ و وافقہ الذہبی) و صحیح ابن حبان (موارد الظمآن: ۱۷۳۹ و سندہ حسن ، مؤمل بن اسماعیل حسن الحدیث)
بعد میں آپﷺ کے لئے پہرے دار کی کوئی ضرورت نہ رہی۔
سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ فرماتے ہیں کہ :”عربوں میں، اللہ کے راستے میں سب سے پہلا تیر چلانے والا میں ہوں” (صحیح البخاری : ۳۷۲۸)
آپ کے بارے میں قرآن کی بعض آیات مبارکہ نازل ہوئیں (دیکھئے صحیح مسلم : ۱۷۴۸ و دارالسلام: ۶۲۳۸)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:”وسعد بن أبی وقاص فی الجنۃ” اور سعد بن ابی وقاص جنت میں ہیں۔
(سنن الترمذی : ۳۷۴۷ و إسنادہ صحیح ، الحدیث : ۱۹ص ۵۶)
سیدنا عمرؓ نے آپ کو ان چھ صحابہ میں شمار کیا جو ان کے خیال میں خلافت کے مستحق تھے (دیکھئے صحیح البخاری : ۳۷۰۰، الحدیث : ۲۱ ص ۴۷) غزوۂ احد کے موقع میں سعدؓ نے سیدنا رسول اللہ ﷺ کے دائیں اور بائیں سفید کپڑوں میں جبریل اور میکائیل (علیہما السلام ، دو فرشتوں) کو دیکھا (صحیح مسلم : ۲۳۰۶ ودارالسلام : ۶۰۰۴)
حافظ ذہبی فرماتے ہیں کہ:”أحد العشرۃ، وأحد السابقین الأولین، وأحد ،من شھد بدراً و الحدیبیۃ و أحد الستۃ أھل الشوریٰ” آپ عشرہ مبشرہ میں سے ایک اور سابق اولین میں سے تھے۔ آپ بدر اور حدیبیہ میں شامل تھے اور مجلس شوریٰ کے چھ ارکان میں سے ایک تھے (سیر اعلام النبلاء ۹۳/۱)
آپ فاتح ایران ہیں ۔ قادسیہ آپ کے ہاتھ پر فتح ہوا اور اللہ تعالیٰ نے کِسریٰ کو نیست و نابود کردیا۔ دیکھئے سر اعلام النبلاء (۱۱۵/۱)
سیدنا سعدؓ مستجاب الدعوات تھے۔ ایک دفعہ ایک شخص نے آپ کے بارے میں جھوٹ بولا تو آپ نے اسے بددعا دی۔ یہ بددعا اس شخص کو لگ گئی اور وہ ذلیل و رسوا ہو کر مرا (دیکھئے صحیح بخاری: ۷۵۵ و صحیح مسلم : ۴۵۳)
ایک دفعہ سیدنا سعدؓ نے کوفہ میں خطبہ دیا پھر پوچھا: اے کوفے والو! میں تمہارا کیسا امیر ہوں؟ تو ایک آدمی نے جواب دیا:”اللہ جانتا ہے کہ آپ میرے علم کے مطابق رعیت سے انصاف نہیں کرتے ، مال صحیح تقسیم نہیں کرتے اور نہ جہاد میں شریک ہوتے ہیں "۔ سعد ؓ نے فرمایا:اے اللہ ! اگر یہ شخص جھوٹا ہے تو اسے اندھا کردے ، اسے فقیر کرد ےاور اس کی عمر لمبی کردے ، اسے فتنوں کا شکار کردے۔ (مصعب بن سعد) نے کہا، وہ پھر آدمی اندھا ہوگیا ، وہ دیواریں پکڑ کر چلتاتھا ، وہ اتنا فقیر ہوا کہ پیسے مانگتا تھا اور وہ مختار (ثقفی کذاب ) کے فتنے میں مبتلا ہو کر مارا گیا ۔( تاریخ دمشق ج ۲۲ ص ۲۳۳،۲۳۴ و سندہ صحیح، و سیر اعلام النبلاء ۱۱۳،۱۱۴/۱ والاصلاح منہ فی الأصل : "للعین، والصواب ، للفتن” وفی الأصل :”الحوادث”والصواب :الجدرات)
ایک دفعہ نبی کریم ﷺ نے دعا فرمائی:”اللھم ادخل من ھذا الباب عبداً یحبک و تحبہ” اے اللہ ! اس دروازے سے اس شخص کو داخل کر جو تجھ سے محبت کرتا ہے اور تو اس سے محبت کرتا ہے ۔ تو اس دروازے سے سعد (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) داخل ہوئے۔(المستدرک للحاکم ۴۹۹/۳ ح ۶۱۱۷ و سندہ حسن، تاریخ دمشق ۲۲۳،۲۲۴/۲۲ و صححہ الحاکم ووافقہ الذہبی)
تنبیہ: مستدرک میں "عبدۃ بن وائل” چھپ گیا ہے جبکہ صحیح "عبیدۃ بنت وائل” ہے والحمدللہ
سیدنا سعدؓ مسلمانوں کے باہمی اختلافات ناپسند کرتے تھے اور فتنوں سے اپنے آپ کو بہت دور رکھتے تھے۔ آپ جنگ جمل اور جنگ صفین میں بالکل غیر جانبدار ہو کر دور بیٹھے رہےآپ (ایک دن ) اپنے اونٹوں کے درمیان موجود تھے، آپ نے دیکھا کہ آپ کا بیٹا عمر آرہا ہے (عمر بن سعد اس لشکر میں تھا جنہوں نے سیدنا حسینؓ کو شہید کیا تھا، یہ سخت فتنہ پرور اور مبغوض شخص تھا)آپؓ نے فرمایا: اے اللہ ! میں اس آنے والے (عمر بن سعد) کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔عمر بن سعد نے آکر کہا : آپ یہاں اونٹوں بکریوں میں بیٹھے ہوئے ہیں اور لوگ حکومت کے لئے لڑ رہے ہیں؟سیدنا سعدؓ نے اس کے سینے پر مکا مارا اور فرمایا: خاموش ہو جا ! (صحیح مسلم : ۲۹۶۵، دارالسلام : ۷۴۳۲) نیز دیکھئے سیر اعلام النبلاء (۱۲۲/۱)
معلوم ہواکہ مسلمانوں کے درمیان باہمی اختلاف کی صورت میں تمام فرقوں اور جماعتوں سے علیحدہ ہو کر کتاب و سنت پر عمل کرنا چاہئے ۔ سیدنا سعدؓ سے پوچھا گیا کہ آپ کس گروہ کے ساتھ ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا:”ما أنا مع واحدۃ منھما” میں کسی ایک کے ساتھ بھی نہیں ہوں ۔(المستدرک ۵۰۱،۵۰۲/۳ ح ۶۱۲۶ و سندہ حسن، حسین بن خارجۃ و ثقہ ابن حبان ۱۵۵/۴ و ذکرہ عبد ان فی الصحابۃ فحدیثہ لاینزل عن درجۃ الحسن)
سیدنا سعدؓ سے ایک رکعت وتر کا پڑھنا ثابت ہے (دیکھئے صحیح البخاری : ۶۳۵۶ و معرفۃ السنن و الآثار للبیہقی ۳۱۴/۲ ح ۱۳۹ وقال النیموی فی آثار السنن: ۶۰۶: "وإسنادہ صحیح”)
سیدنا سعدؓ جب مکہ میں بیمار ہوئے تو نبی کریم ﷺ نے انہیں فرمایا: ہوسکتا ہے کہ اللہ تجھے باقی رکھے ، کچھ لوگوں (مسلمانوں) کو تجھ سے فائدہ ہوگا اور کچھ لوگوں (کافروں ) کو تجھ سے نقصان ہوگا (صحیح بخاری : ۱۲۹۵ و صحیح مسلم : ۱۶۲۸)
مشہور قول کے مطابق آپ ۵۵ ہجری میں عقیق کے مقام پر فوت ہوئے (تقریب التہذیب : ۲۲۵۹) رضی اللہ عنہ