حدیث:
سیدنا جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے دریافت فرمایا:
"جابر! کیا نکاح کر لیا؟”
انہوں نے عرض کیا: "جی ہاں۔”
آپ ﷺ نے پوچھا:
"کنواری سے یا بیوہ سے؟”
انہوں نے عرض کیا: "بیوہ سے۔”
آپ ﷺ نے فرمایا:
"کسی کنواری لڑکی سے کیوں نہیں کیا؟ جو آپ کے ساتھ کھیلا کرتی۔”
انہوں نے جواب دیا:
"اللہ کے رسول! میرے والد احد کی لڑائی میں شہید ہوگئے اور نو بہنیں چھوڑ گئے۔ اسی لیے میں نے مناسب سمجھا کہ ایسی عورت لاؤں جو ان کی دیکھ بھال کر سکے اور ان کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھے۔”
آپ ﷺ نے فرمایا:
"آپ نے بالکل درست کیا ہے۔”
(صحیح بخاری: 4052)
اس حدیث کے اہم نکات:
➊ خاوند کے اہل خانہ کی خدمت کا اصول:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر خاوند کے والدین یا چھوٹے بہن بھائیوں کو دیکھ بھال کی ضرورت ہو تو بیوی کو یہ ذمہ داری صرف اس بنیاد پر نہیں چھوڑنی چاہیے کہ یہ اس کا فرض نہیں۔
حسنِ معاشرت کا تقاضا ہے کہ بیوی ان خدمات کو بخوشی انجام دے اور اپنے خاوند کا ساتھ دے۔
➋ شادی سے قبل وضاحت کی اہمیت:
اگر شوہر کو اپنی ہونے والی بیوی سے کسی خاص خدمت کی توقع ہو تو اسے نکاح سے قبل واضح کرنا چاہیے۔
اسی طرح، اگر کسی معاشرے میں یہ عمومی عرف ہو کہ بہو سسرال کی ذمہ داریوں کو سنبھالے گی، تو شادی کے بعد اس پر اعتراض کرنا درست نہیں ہوگا۔
➌ عرف یا معاہدے کی پابندی:
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے اپنی شادی کا مقصد اپنی بہنوں کی دیکھ بھال بیان کیا۔
ممکن ہے کہ ان کے ہاں یہ عرف ہو یا انہوں نے شادی سے پہلے بیوی پر یہ شرط عائد کی ہو۔
نبی کریم ﷺ نے ان کے عمل کی تائید کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ بالکل درست تھا۔
➍ بیوی کی ذمہ داریاں: ایک اعتدال پسند رویہ:
اگر معاشرے میں بہو سے سسرال کی خدمت کا رواج نہ ہو یا عورت شادی سے پہلے انکار کر دے، تو شوہر اسے مجبور نہیں کر سکتا۔
نکاح کے بعد کسی معاہدے کی خلاف ورزی جائز نہیں۔
بیوی اور خاوند کی مشترکہ ذمہ داریاں
➊ رضاکارانہ خدمت کا رویہ:
جس طرح خاوند معاشرتی ذمہ داریوں کو نبھاتا ہے، بیوی کو بھی حسنِ سلوک کے تحت رضاکارانہ طور پر ذمہ داریاں ادا کرنی چاہئیں۔
صرف یہ کہنا کہ "یہ میرا فرض نہیں”، ایک غیر مناسب رویہ ہے۔
➋ اسلامی اصول: خدمت اور حسنِ معاشرت:
مغربی معاشرتی اثرات یا فلموں و ناولز کی بنیاد پر فرض اور ذمہ داریوں سے انکار ایک غیر ذمہ دارانہ عمل ہے۔
سسرال کی ضروری خدمت کو بالکل ترک کر دینا یا والدین کو تنہا چھوڑ دینا اسلامی اقدار کے خلاف ہے۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا عملی نمونہ
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اپنے خاوند سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے گھر میں کام کرتی تھیں، یہاں تک کہ ان کے ہاتھوں پر چھالے پڑ گئے۔
(صحیح بخاری: 5361)
نبی کریم ﷺ نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ ان کے لیے خاوند کے گھر کا کام فرض نہیں یا انہیں اس سے مستثنیٰ کیا جائے۔
علماء کا موقف:
نبی کریم ﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو گھریلو کام کاج کے بارے میں کوئی خصوصی حکم نہیں دیا، بلکہ یہ حسنِ معاشرت اور عمدہ اخلاق کا نتیجہ تھا۔
(فتح الباری لابن حجر)
بچوں کی دیکھ بھال:
علماء لکھتے ہیں کہ بچوں کی دیکھ بھال میں عورت کا اپنے خاوند کی مدد کرنا اگرچہ واجب نہیں، لیکن یہ حسنِ معاشرت اور نیک عورتوں کے خصائل میں شامل ہے۔
اعتدال کی اہمیت: بہو اور سسرال
➊ ذمہ داری کی حد بندی:
آنے والی بہو پر صرف وہی ذمہ داری ڈالنی چاہیے جو ضروری ہو، جیسا کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے واقعے میں دیکھا گیا۔
بلاوجہ بہو کو ضرورت سے زیادہ کاموں میں الجھانا یا اس پر ناجائز دباؤ ڈالنا غیر اسلامی رویہ ہے۔
➋ ظلم سے اجتناب:
نندوں کا بہو پر رعب جھاڑنا یا اسے غلام سمجھ کر کام کروانا ناجائز ہے۔
شوہر کو چاہیے کہ بیوی پر اتنی ہی ذمہ داری ڈالے جو ضروری ہو اور مناسب ہو۔
➌ الگ رہائش کا وعدہ:
اگر شوہر نے شادی سے پہلے الگ رہائش کا وعدہ کیا ہو، تو اسے پورا کرنا ضروری ہے۔ شادی کے بعد معاہدے کی خلاف ورزی درست نہیں۔
خلاصہ
اس حدیث میں خاوند اور بیوی کی ذمہ داریوں کے حوالے سے ایک معتدل اور متوازن رویہ اپنانے کی تلقین کی گئی ہے۔
بیوی کو حسنِ معاشرت کے تحت خاوند کے اہل خانہ کی ضروری خدمت انجام دینی چاہیے، جبکہ شوہر کو بھی بیوی کی آسانی کا خیال رکھنا چاہیے۔
اعتدال پسندی اور اسلامی اصولوں کی روشنی میں ہی خوشگوار زندگی ممکن ہے۔
واللہ أعلم بالصواب