سوال
سونے کا صحیح نصاب کیا ہے؟ سننے میں آیا ہے کہ مرحوم عبدالستار رحمۃ اللہ علیہ نے 120 روپے کا نصاب مقرر کیا ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سونے کے نصاب کے بارے میں صحیح بات یہ ہے کہ اس کا نصاب 20 دینار یا 20 مثقال ہے۔ مرحوم عبدالستار رحمۃ اللہ علیہ نے جو 120 روپے کے برابر سونے کو نصاب قرار دیا ہے، اس کی دلیل ہمیں نہیں ملی۔ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ انہوں نے یہ نصاب کس بنیاد پر قائم کیا۔ ہمارے پیش کردہ نصاب پر دلائل درج ذیل ہیں:
دلیل نمبر (1)
امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب سنن کبری میں یہ حدیث نقل کرتے ہیں:
((عن على بن ابى طالب رضي الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم أنه قال هاتوا إلى ربع العشورمن كل اربعين درهمادرهم وليس عليك شىء حتى يكون لك مائتادرهم وحال عليه الحول ففيهاخمس دلاهم وليس عليك شئى حتى يكون لك عشرون دينارا فاذا كانت لك وحال عليه الحول ففيها نصف دينارفمازادفبحساب ذالك’قال ولاأدرى على رضى الله عنه يقول بحساب ذالك أم رفعه’إلى النبى صلى الله عليه وسلم.))
بيهقى: كتاب الزكوة‘باب نصاب الذهب وقدرالواجب فيه إذاحال عليه الحول’جلد٤’صفحه١٣٨’ط:نشرالسنه
اس حدیث میں سونا اور چاندی دونوں کا نصاب بیان ہوا ہے۔ سونے کے متعلق نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ سونے میں زکوٰۃ نہیں جب تک کہ وہ 20 دینار (یا مثقال) نہ ہوجائے۔ جب 20 دینار ہوجائے اور سال گزر جائے تو اس پر آدھا دینار زکوٰۃ واجب ہوگی۔ اگر 20 دینار سے زیادہ ہو تو اسی حساب سے چالیسواں حصہ دینا ہوگا۔
یہاں راوی نے یہ شبہ ظاہر کیا کہ "فمازاد فبحساب ذالک” کے الفاظ نبی ﷺ کے ہیں یا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے، لیکن اس سے نصاب کے مسئلے پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نصاب 20 دینار ہی ثابت ہے۔
حافظ زیلعی نصب الرایہ میں لکھتے ہیں کہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ (شارح مسلم شریف) نے اس حدیث کو صحیح یا حسن قرار دیا ہے۔
دلیل نمبر (2)
حافظ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب المحلی میں بیان کرتے ہیں کہ اس حدیث کے راوی جریر ثقہ ہیں۔ انہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے جو روایت عاصم بن ضمرہ اور حارث بن عبداللہ کے ذریعے بیان کی ہے، وہ معتبر ہے۔
اس لئے حدیث کو ضعیف قرار نہیں دیا جاسکتا۔ مزید یہ کہ امام ترمذی نے بھی اسی حدیث کو مرفوع ذکر کیا ہے جو ابو عوانہ کے طریق سے ہے۔
اگرچہ اس کی سند میں ابو اسحاق مدلس ہیں اور "عن” کے ساتھ روایت کرتے ہیں، لیکن یہ ہلکا ضعف ہے، سخت نہیں۔ اور اصول حدیث کے مطابق، اگر کسی حدیث میں ہلکا ضعف ہو اور اس کے ساتھ کوئی صحیح سند والا موقوف اثر مل جائے تو وہ حدیث حسن لغیرہ کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے، جو حجت ہوتی ہے۔
لہٰذا یہ حدیث ضعیف نہیں بلکہ حسن لغیرہ ہے، جیسا کہ امام نووی اور ابن حزم رحمہما اللہ نے بھی اسے حجت مانا ہے۔
دلیل نمبر (3)
سنن ابن ماجہ میں حضرت عبداللہ بن عمر اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
((حدثناابراهيم بن اسماعيل عن عبدالله بن واقدعن ابن عمررضى الله عنه وعائشه رضى الله عنها أن النبى صلى الله عليه وسلم كان ياخذمن كل عشرين دينارافصاعدانصف دينارومن الأربعين دينارا دينارا.))
سنن ابن ماجه’كتاب الزكاة’باب زكوةالورق والذهب’رقم الحديث١٧٩١
اس حدیث سے بھی واضح ہوا کہ سونے کا نصاب 20 دینار ہے، کیونکہ نبی کریم ﷺ نے 20 دینار پر نصف دینار اور 40 دینار پر ایک دینار زکوٰۃ لی۔
اس حدیث کی سند میں ابراہیم بن اسماعیل ہیں جنہیں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ضعیف کہا ہے، مگر اتنے ضعیف نہیں کہ ناقابل اعتبار ہوں۔ خود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان سے اپنی صحیح میں روایت لی ہے (باب بدء الخلق)، جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ شدید ضعف کے حامل نہیں تھے۔
اس طرح مختلف طرق سے یہ روایات آپس میں قوت حاصل کرتی ہیں اور کم از کم درجے میں حسن لغیرہ بن جاتی ہیں، جو قابلِ حجت ہیں۔
سونے کے نصاب کا وزن
◈ دینار اور مثقال ایک ہی چیز ہیں۔
◈ ایک مثقال = ساڑھے چار ماشہ۔
◈ 20 مثقال = 90 ماشہ۔
◈ 90 ماشہ = ساڑھے سات تولہ۔
لہٰذا جس کے پاس ساڑھے سات تولہ (7.5 تولہ) سونا ہو، اس پر زکوٰۃ واجب ہے۔
◈ اگر خالص سونا ہے تو اس میں سے نصف مثقال (تقریباً سوادو ماشہ) دینا ہوگا۔
◈ اگر زیورات کی شکل میں ہے تو اس وقت کی قیمت کے مطابق زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی۔
◈ اگر ساڑھے سات تولہ سے زیادہ ہے تو اس حساب سے مزید زکوٰۃ واجب ہوگی۔
یہ طریقہ بالکل واضح، آسان اور فہم کے قریب ہے۔
نتیجہ
سونے کا نصاب 20 دینار یا 20 مثقال (ساڑھے سات تولہ سونا) ہے۔ اس سے کم پر زکوٰۃ واجب نہیں۔ مرحوم عبدالستار رحمۃ اللہ علیہ کا بیان کردہ 120 روپے والا نصاب کسی معتبر دلیل پر قائم نہیں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب