سورۃ البقرۃ کی آیت 89 سے وسیلے کے غلط استدلال کا علمی جائزہ

اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرۃ کی آیت مبارکہ میں یہودیوں کی اس روش کو بیان فرمایا ہے کہ وہ آخری نبیؐ کی بعثت کی خوشخبری تو دیتے تھے، لیکن عملاً ان کی اتباع سے انکار کر بیٹھے۔ بریلوی مکتبہ فکر کے معروف عالم، مفتی احمد یار خان نعیمی (1324-1391ھ) نے اس آیت سے "نبی کریمؐ کے وسیلے” پر استدلال کیا ہے، جو نہ صرف قرآنِ مجید کے ظاہری مفہوم سے بعید ہے بلکہ کسی بھی معتبر صحابیؓ، تابعیؒ یا امام سے ثابت نہیں۔ ذیل میں اس غلط استدلال کا مختصر علمی جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔

مفتی احمد یار خان نعیمی کا دعویٰ

مفتی احمد یار خان نعیمی صاحب نے سورۃ البقرۃ کی آیت

﴿وَكَانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا فَلَمَّا جَاءَهُمْ مَا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ فَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَافِرِينَ﴾ (البقرۃ: 89)

کی تفسیر میں لکھا ہے:

"معلوم ہوا کہ حضور کے توسل سے دعائیں مانگنا بڑی پرانی سنت ہے اور ان کے وسیلے کا منکر یہود و نصاریٰ سے بدتر ہے۔ اور حضور کے وسیلے سے پہلے ہی سے خلق کی حاجت روائی ہوتی تھی۔”
(تفسیر نور العرفان، ص: 21)

انہوں نے یہاں سے "نبی کریمؐ کے وسیلے” کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، حالانکہ اس آیت کا اصل مضمون یہودیوں کے نفاق اور وعدہ خلافی سے متعلق ہے، نہ کہ دعا میں کسی ذات کے وسیلے سے۔

تاریخی پس منظر اور آیت کا اصل مفہوم

یہود، مدینہ منورہ میں مشرکینِ عرب (اوس و خزرج) کے خلاف جنگ کیا کرتے تھے۔ انہیں اہلِ کتاب ہونے کی وجہ سے علم تھا کہ آخری نبیؐ کی بعثت قریب ہے اور انہیں یقین تھا کہ یہ نبی غالب ہوں گے۔ وہ مشرکین سے کہتے تھے: "جب وہ نبی مبعوث ہوں گے تو ہم ان پر ایمان لائیں گے اور تم پر اس کے ذریعے غلبہ حاصل کریں گے۔” لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حقیقت میں تشریف لے آئے اور قرآن مجید نازل ہوا، تو یہودی ایمان لانے کے بجائے منکر ہو گئے اور اس بنا پر ان پر لعنت کی گئی۔

عاصم بن عمر بن قتادہ انصاری تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:

"ہمارے اساتذہ (صحابہ کرامؓ) نے ہمیں بتایا کہ عرب میں ہم سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کوئی نہ جانتا تھا۔ ہمارے ساتھ یہود رہتے تھے، وہ اہلِ کتاب تھے اور ہم بت پرست۔ جب انہیں ہم سے کوئی تکلیف پہنچتی تو وہ کہتے کہ ایک نبی مبعوث ہونے والے ہیں، ہم ان کے ساتھ مل کر تمہیں یوں ہلاک کریں گے جیسے قومِ عاد اور ارم ہلاک ہوئی۔ لیکن جب اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا تو ہم نے آپ کی پیروی کی اور انہوں نے کفر اختیار کیا۔ اللہ کی قسم! یہ آیت ہمارے اور یہود کے بارے میں اتری۔”
(السیرۃ لابنِ اسحاق، ص: 84، دلائل النبوۃ للبیہقی: 2/75، سند حسن)

یعنی یہودی اس نبیؐ کی آمد پر خوش تھے اور اس سے مدد کی توقع رکھتے تھے، لیکن جب وہی نبیؐ بنو اسماعیل میں تشریف لائے تو انہوں نے انکار کر دیا۔ قرآن پاک کی یہ آیت اسی پس منظر میں نازل ہوئی ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کی توضیح

شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ (661-728ھ) لکھتے ہیں:

"یہودی حق کو اچھی طرح پہچانتے تھے، لیکن جب اس نبی کی بعثت ان کی اپنی برادری سے نہ ہوئی تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مسترد کر دیا۔ حقیقت میں وہ حق کو صرف اپنی قوم یا طائفے کے ساتھ مخصوص سمجھتے تھے، حالانکہ اسلام کا اصول یہ ہے کہ حق جہاں سے بھی آئے، اس کا اتباع کیا جائے۔”
(اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفة أصحاب الجحیم: 1/88-89)

اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس آیت میں یہودیوں کے نفاق اور ان کی حق ناشناسی کا بیان ہے۔ نبیؐ کے وسیلے سے دعا مانگنے یا وسیلہ ثابت کرنے کے لیے یہاں کوئی دلیل نہیں ملتی۔

بریلوی تفسیر کا تضاد

1. سورۃ آلِ عمران کی آیت 193 کے تحت دعویٰ

مفتی احمد یار خان نعیمی صاحب نے سورۃ آلِ عمران کی آیت ﴿رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا …﴾ کی تفسیر میں لکھا:

"جب اپنے ایمان کا وسیلہ بنانا درست ہے، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ پکڑنا بھی بالکل صحیح ہے۔”
(تفسیر نور العرفان، ص:119)

یہاں وہ "ایمان کے وسیلے” کو "نبیؐ کی ذات کے وسیلے” پر قیاس کرتے ہیں، حالانکہ ایمان ایک عمل ہے اور اعمالِ صالحہ کا وسیلہ لینا بلاشبہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ تاہم کسی مخصوص شخصیت کی ذات کو وسیلہ بنانا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں۔ اگر ایسی کوئی اجازت ہوتی تو صحابہ کرامؓ حتمی طور پر اسے ضرور اپناتے۔

2. فرعون اور نبی کے وسیلے کی مثال

مفتی صاحب نے سورۃ آلِ عمران کی ایک اور آیت کے تحت لکھا:

"معلوم ہوا کہ نبی کے توسل کا فرعون بھی قائل تھا۔ جو اس وسیلہ کا منکر ہے، وہ فرعون سے زیادہ گمراہ ہے۔”
(تفسیر نور العرفان، ص: 264)

یہ بات نہ صرف قرآن کی تعلیمات کے خلاف ہے بلکہ خود ان کے پہلے دعوے سے بھی متصادم ہے۔ اگر فرعون "نبی کے وسیلے” کا قائل تھا، تو کیا وہ (نعوذباللہ) ایمان لے آیا؟ ہرگز نہیں۔ یہ متضاد بیانیہ اس تفسیر میں پائے جانے والے ابہام کی نشاندہی کرتا ہے۔

دعا میں کسی ذات کے وسیلے کا ثبوت؟

دعا عبادت کا مغز ہے اور قرآن و حدیث میں اس کا طریقہ تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جن دعاؤں کے الفاظ سکھائے ہیں، ان میں کہیں بھی کسی انسان کی ذات کو وسیلہ بنانے کا ذکر نہیں ملتا۔ صحابہ کرامؓ کا عمل بھی یہی ثابت کرتا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اپنے اعمالِ صالحہ، ایمان یا اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ وغیرہ کو وسیلہ بنایا۔

حدیثِ اصحابِ غار میں تین آدمیوں نے اپنے نیک اعمال کا وسیلہ پیش کیا تو اللہ نے ان کی دعا قبول کی۔ اگر کسی نبی یا ولی کی ذات کا وسیلہ اس قدر اہم یا ضروری ہوتا تو صحابہ کرامؓ ضرور اس کا اہتمام فرماتے، لیکن ہمیں ایسی کوئی صحیح روایت نہیں ملتی۔
(صحیح بخاری، حدیث: 2215، صحیح مسلم، حدیث: 2743)

نتیجۂ بحث

  • سورۃ البقرۃ کی آیت 89 یہودیوں کے نفاق، وعدہ خلافی اور بغض پر نازل ہوئی، اس کا وسیلے سے کوئی تعلق نہیں۔
  • کسی صحابیؓ، تابعیؒ یا معتبر امام سے یہ منقول نہیں کہ انہوں نے اس آیت سے دعا میں نبیؐ کے وسیلے کا ثبوت اخذ کیا ہو۔
  • اعمالِ صالحہ کا وسیلہ جائز اور ثابت ہے، لیکن کسی شخصیت کی ذات کو وسیلہ بنا کر دعا کرنا قرآن و سنت اور فہمِ صحابہ و تابعین سے ثابت نہیں ہوتا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1