بعض لوگ سورۃ آل عمران کی آیت 81 سے غیر اللہ سے مدد مانگنے کا جواز نکالنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ یہ آیت سراسر ان کے عقیدے کے خلاف جاتی ہے۔ اس مضمون میں ہم اس غلط فہمی کا ازالہ کریں گے اور قرآن و حدیث کی روشنی میں غیر اللہ سے مدد طلب کرنے کے عقیدے کا رد کریں گے۔
آیت کا مفہوم اور اس کا صحیح مطلب
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:
وَ اِذۡ اَخَذَ اللّٰہُ مِیۡثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیۡتُکُمۡ مِّنۡ کِتٰبٍ وَّ حِکۡمَۃٍ ثُمَّ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمۡ لَتُؤۡمِنُنَّ بِہٖ وَ لَتَنۡصُرُنَّہٗ ؕ قَالَ ءَاَقۡرَرۡتُمۡ وَ اَخَذۡتُمۡ عَلٰی ذٰلِکُمۡ اِصۡرِیۡ ؕ قَالُوۡۤا اَقۡرَرۡنَا ؕ قَالَ فَاشۡہَدُوۡا وَ اَنَا مَعَکُمۡ مِّنَ الشّٰہِدِیۡنَ ﴿۸۱﴾
(سورۃ آل عمران، آیت 81)
ترجمہ: "اور (وہ وقت یاد کرو) جب اللہ نے تمام نبیوں سے عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کروں، پھر تمہارے پاس وہ رسول آئے جو تمہارے پاس موجود تعلیم کی تصدیق کرے، تو تم ضرور اس پر ایمان لاؤ گے اور اس کی مدد کرو گے۔ اللہ نے فرمایا: کیا تم نے اقرار کیا اور میرے عہد کو قبول کیا؟ انہوں نے کہا: ہم نے اقرار کیا، اللہ نے فرمایا: پس گواہ بن جاؤ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں۔”
باطل استدلال کا رد
بعض لوگ اس آیت سے غیر اللہ سے مدد طلب کرنے کو جائز قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں، جبکہ حقیقت میں یہ آیت ان کے دعوے کے برعکس ایک بہت اہم اصول بیان کر رہی ہے:
"مدد” کے مفہوم کی وضاحت اور اس کی تائید میں مستند دلائل
سورۃ آل عمران کی آیت 81 میں "مدد” سے مراد نبیوں کا ایک دوسرے کی حمایت کرنا اور اپنی امت کو آنے والے نبی کی تصدیق و نصرت کا حکم دینا ہے۔ اس کی تشریح میں متعدد مستند مفسرین نے واضح کیا ہے کہ یہاں مدد سے مراد غیر اللہ سے استغاثہ (مدد طلب کرنا) نہیں بلکہ ایک اصولی، شرعی اور دینی تعاون ہے۔ ذیل میں چند مستند تفاسیر سے اس مفہوم کی تائید میں دلائل پیش کیے جا رہے ہیں۔
1. تفسیر ابن کثیر کی وضاحت
مشہور مفسر امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
"یہاں اللہ تعالیٰ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کے درمیان ایک اصولی عہد و میثاق کا ذکر کر رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر انبیاء میں سے کسی کو بھی اللہ تعالیٰ کتاب و حکمت عطا کرے اور پھر اس کے دور میں نبی آخر الزماں محمد صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوں، تو اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا اس پر فرض ہوگا۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ کوئی نبی اپنی نبوت یا اپنی امت کی تعلیمات کے سبب بعد والے نبی کی تصدیق سے نہ رکے۔”
(تفسیر ابن کثیر، سورۃ آل عمران، آیت 81)
یہاں "مدد” سے مراد کسی نبی کی عملی حمایت اور اس کے دین کی تصدیق ہے، نہ کہ کسی غیبی مدد کے لیے غیر اللہ سے استغاثہ۔
2. تفسیر طبری کی وضاحت
امام محمد بن جریر الطبری رحمہ اللہ اس آیت کی وضاحت میں فرماتے ہیں:
"یہ عہد اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء سے لیا کہ وہ اپنی امت کو آنے والے نبی کی تصدیق اور نصرت کا حکم دیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر نبی اپنی امت کو یہ وصیت کرے کہ جب کوئی بعد میں نبی آئے تو اس پر ایمان لائیں اور اس کی اتباع کریں۔”
(تفسیر الطبری، سورۃ آل عمران، آیت 81)
یہ وضاحت ظاہر کرتی ہے کہ مدد کا مفہوم کسی سے غیبی استعانت یا استغاثہ نہیں، بلکہ عملی تعاون ہے۔
3. تفسیر البغوی کی وضاحت
امام حسین بن مسعود البغوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"یہ عہد تمام انبیاء کرام سے لیا گیا کہ اگر ان کے بعد کوئی نبی آئے جو ان کی تعلیمات کی تصدیق کرے، تو وہ اپنی نبوت کو اس نبی پر ایمان لانے کی راہ میں رکاوٹ نہ بنائیں، بلکہ اس نبی کی تصدیق اور مدد کریں۔”
(معالم التنزیل، تفسیر بغوی، سورۃ آل عمران، آیت 81)
یہاں بھی مدد کا مطلب نبیوں کا ایک دوسرے کے حق میں گواہی دینا اور ان کی دعوت کو تقویت دینا ہے، نہ کہ غیر اللہ سے مدد طلب کرنا۔
4. تفسیر قرطبی کی وضاحت
امام قرطبی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں:
"اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء سے یہ عہد لیا کہ وہ اپنی امتوں کو بعد میں آنے والے نبی کی تصدیق کا حکم دیں گے۔ اس عہد کا مقصد یہ تھا کہ ہر نبی اپنی امت کو یہ بتائے کہ اگر ان کے بعد کوئی نبی آئے تو اس پر ایمان لانا اور اس کی نصرت کرنا ضروری ہوگا۔”
(الجامع لأحکام القرآن، تفسیر قرطبی، سورۃ آل عمران، آیت 81)
یہ بیان بھی واضح کرتا ہے کہ مدد کا مطلب کسی نبی کی تائید و حمایت ہے، نہ کہ غیر اللہ سے مدد مانگنے کا جواز۔
5. تفسیر احسن البیان کی وضاحت
مفسر حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"یہ عہد ہر نبی سے لیا گیا کہ ان کی زندگی میں اگر کوئی دوسرا نبی آجائے تو وہ اس کی نصرت اور تصدیق کریں گے۔ یہی اصول نبی کریم ﷺ کے لیے تمام پچھلے انبیاء نے اپنایا۔ اس آیت میں مدد کا مفہوم یہی ہے کہ ہر نبی دوسرے نبی کے لیے معاون و مددگار ہوگا، نہ کہ کسی غیر اللہ سے مدد مانگنے کا تصور دیا گیا ہے۔”
(تفسیر احسن البیان، سورۃ آل عمران، آیت 81)
یہاں بھی یہ مفہوم واضح ہو جاتا ہے کہ "مدد” ایک دینی اور اصولی تعاون کو ظاہر کرتی ہے۔
6. تفسیر روح المعانی کی وضاحت
امام محمود آلوسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"یہ مدد کسی دنیاوی فائدے کے لیے نہیں بلکہ دینِ اسلام کی ترویج کے لیے ہے۔ یعنی ہر نبی پر لازم ہے کہ وہ اپنے بعد آنے والے نبی کی تصدیق کرے اور اپنی امت کو بھی اس کی حمایت اور اطاعت کی تلقین کرے۔”
(روح المعانی، تفسیر آلوسی، سورۃ آل عمران، آیت 81)
یہ وضاحت بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ مدد سے مراد نبیوں کے درمیان دینی تعاون ہے، نہ کہ کسی اور سے مدد مانگنے کا جواز۔
نتیجہ
مندرجہ بالا تمام تفاسیر سے واضح ہوتا ہے کہ:
- یہ آیت نبیوں کے درمیان ایک اصولی عہد کا ذکر کر رہی ہے، نہ کہ غیر اللہ سے مدد مانگنے کی دلیل دے رہی ہے۔
- مدد کا مطلب نبیوں کا ایک دوسرے کی تصدیق اور امتوں کو بعد میں آنے والے نبی کی اتباع کا حکم دینا ہے۔
- کسی بھی مستند مفسر نے اس آیت سے غیر اللہ سے مدد مانگنے کا جواز اخذ نہیں کیا۔
- قرآن و حدیث میں واضح طور پر یہ بیان کیا گیا ہے کہ حقیقی مدد صرف اللہ ہی سے مانگی جا سکتی ہے۔
لہٰذا، اس آیت کو غیر اللہ سے مدد مانگنے کے لیے بطور دلیل پیش کرنا سراسر غلط تفسیر اور مفہوم کی تحریف ہے۔
غیر اللہ سے مدد کا مسئلہ اور قرآن کی وضاحت
قرآن مجید میں کئی مقامات پر واضح طور پر غیر اللہ سے مدد طلب کرنے کو شرک قرار دیا گیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ
(سورۃ الفاتحہ، آیت 5)ترجمہ: "ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔”
اسی طرح، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَلَا تَدْعُ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ ۖ فَإِن فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِّنَ الظَّالِمِينَ
(سورۃ یونس، آیت 106)ترجمہ: "اور اللہ کے سوا ان (ہستیوں) کو مت پکارو جو نہ تمہیں فائدہ پہنچا سکتی ہیں اور نہ نقصان دے سکتی ہیں۔ اگر تم نے ایسا کیا تو یقیناً تم ظالموں میں سے ہو جاؤ گے۔”
انبیاء بھی اللہ سے ہی مدد طلب کرتے تھے
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ دیکھیں جب انہیں آگ میں ڈالا گیا تو انہوں نے کہا:
حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ
(سورۃ آل عمران، آیت 173)ترجمہ: "اللہ ہمارے لیے کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔”
اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی صرف اللہ سے مدد طلب کی:
قَالَ كَلَّا ۖ إِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِينِ
(سورۃ الشعراء، آیت 62)ترجمہ: "(موسیٰ نے کہا:) ہرگز نہیں! میرے ساتھ میرا رب ہے، وہی مجھے راستہ دکھائے گا۔”
نبی کریم ﷺ کی تعلیمات اور غیر اللہ سے مدد کا رد
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللَّهَ، وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ
(جامع ترمذی، حدیث 2516)ترجمہ: "جب تم سوال کرو تو اللہ سے سوال کرو، اور جب مدد مانگو تو اللہ سے مدد مانگو۔”
نتیجہ: غیر اللہ سے مدد مانگنا عقیدۂ توحید کے خلاف ہے
یہ ثابت ہوا کہ سورۃ آل عمران کی آیت 81 سے غیر اللہ سے مدد مانگنے کا کوئی جواز نہیں نکلتا، بلکہ اس آیت میں تو انبیاء کو آنے والے نبی کی تصدیق اور مدد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کے برعکس، قرآن و حدیث میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ مدد صرف اللہ سے مانگنی چاہیے۔
اللہ ہمیں صحیح عقیدہ اپنانے اور ہر قسم کے شرک سے محفوظ رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔