سودی بنکوں میں مال رکھوانے کا شرعی حکم
تحریر : فتاویٰ سعودی فتویٰ کمیٹی

سودی بنکوں میں مال رکھوانے کا حکم
ضرورت کے وقت سود کے بغیر بنکوں میں مال رکھوانے میں کوئی رکا وٹ نہیں، اگر ان بینکوں کے علاوہ کسی اور جگہ مال رکھوانا ممکن ہو تو زیادہ محتاط اور بہتر عمل یہی ہے کہ ایسی جگہ مال رکھوا دیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
”جو تجھے شک میں ڈال دے، اس کو چھوڑ کر وہ کام کرو جس میں شک نہیں۔“ [سنن الترمذي، رقم الحديث 2518 سنن النسائي، رقم الحديث 5711]
نیز فرمایا :
”جو شبہات سے بچ گیا تو اس نے اپنا دین اور عزت بچالی۔“ [سنن أبى داود، رقم الحديث 3330]
[ابن باز : مجموع الفتاوي و المقالات : 413/19]
بنک میں رقم رکھوانے کو عموماً امانت رکھوانے سے تعبیر کیا جاتا ہے، حالانکہ یہ امانت نہیں بلکہ قرض ہوتا ہے کیونکہ بنک اس کے ضائع ہونے کی صورت میں بھی اسے واپس کرنے کا پابند ہوتا ہے، جبکہ امانت اگر مؤتمن کی سستی یا دست اندازی کے بغیر ضائع ہو جائے تو وہ اسے واپس کرنے کا پابند نہیں ہوتا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1