184۔ سلیمان کے کون سے لشکر تھے ؟ کیا ان میں سے جن بھی تھے ؟
جواب :
وَحُشِرَ لِسُلَيْمَانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ وَالطَّيْرِ فَهُمْ يُوزَعُونَ ﴿١٧﴾
”اور سلیمان کے لیے اس کے لشکر جمع کیے گئے، جو جنوں اور انسانوں اور پرندوں سے تھے، پھر وہ الگ الگ تقسیم کیے جاتے تھے۔ “ [النمل:17]
یعنی سلیمان علیہ السلام کے لیے جنوں، انسانوں اور پرندوں سے ان کے شکر جمع کیے گئے۔ وہ ان میں ایک عظیم الشان اور بہت بڑے انسانوں کے لشکر میں سوار ہو کر آئے۔ انسان ہی ان کے زیادہ قریب ہوتے تھے، جن ان کے بعد والے مرتبے پر تھے اور پرندوں کا الگ ایک مقام تھا۔ گرمی کے موسم میں وہ پرندے ان پر اپنے پروں سے سایہ کرتے تھے۔
فَهُمْ يُوزَعُونَ وہ ایک ترتیب سے رہتے تھے، تا کہ چلنے میں وہ آگے پیچھے نہ ہوں، جیسا آج کے دور کے بادشاہ کرتے ہیں۔
185۔ سلیمان علیہ السلام کا جنات اور جادو کے ساتھ کیا واقعہ ہے ؟
جواب :
اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ عَلَىٰ مُلْكِ سُلَيْمَانَ ۖ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَٰكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ ۚ وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّىٰ يَقُولَا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ ۖ فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ ۚ وَمَا هُم بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ ۚ وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنِ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ ۚ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهِ أَنفُسَهُمْ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ﴿١٠٢﴾
”اور وہ اس چیز کے پیچھے لگ گئے جو شیاطین سلیمان کے عہد حکومت میں پڑھتے تھے اور سلیمان نے کفر نہیں کیا اور لیکن شیطانوں نے کفر کیا کہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے اور (وہ اس چیز کے پیچھے لگ گئے) جو بابل میں دوفرشتوں ہاروت اور ماروت پر اتاری گئی، حالانکہ وہ دونوں کسی ایک کو نہیں سکھاتے تھے، یہاں تک کہ کہتے ہم تو محض ایک آزمائش ہیں، سوتو کفر نہ کر۔ پھر وہ ان دونوں سے وہ چیز سیکھتے جس کے ساتھ وہ مرد اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی ڈال دیتے اور وہ اس کے ساتھ ہرگز کسی کو نقصان پہنچانے والے نہ تھے، مگر اللہ کے اذن کے ساتھ۔ اور وہ ایسی چیز سیکھتے تھے جو انھیں نقصان پہنچاتی اور انھیں فائدہ نہ دیتی تھی۔ حالانکہ بلاشبہ یقیناً وہ جان چکے تھے کہ جس نے اسے خریدا، آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں اور بے شک بری ہے وہ چیز جس کے بدلے انھوں نے اپنے آپ کو بیچ ڈالا۔ کاش! وہ جانتے ہوتے۔“ [ البقرة: 102]
یعنی سلیمان علیہ السلام کے دور میں شیاطین آسمان کی طرف چڑھتے اور ایک جگہوں میں بیٹھ جاتے، جہاں سے فرشتوں کی باتیں سن سکیں، پھر وہ فرشتوں کا کلام سنتے اور جو زمین میں موت یا غیب یا کوئی اور معاملہ ہونا ہوتا سن لیتے، پھر کاہنوں کے پاس آتے اور انھیں خبر دیتے تھے، کاہنوں کو جب وہ بات بتائی جاتی تو وہ اس کے مطابق لوگوں کو خبر دیتے، جو سچ ثابت ہوتیں اور لوگوں کا ان پر اعتماد بڑھ جاتا، حتی کہ جب فرشتوں نے ان کی اس کارروائی کا سد باب کیا تو کاہنوں نے لوگوں سے جھوٹ بولنا شروع کر دیا اور ایک بات کی ستر بنا ڈالیں، پھر سلیمان علیہ السلام نے ان کی تمام کتابوں کو جمع کرنے کے بعد اپنی کرسی کے نیچے فن کر دیا۔ کسی شیطان میں کرسی تک پہنچنے کی قدرت نہ تھی، کیوں کہ اسے جل جانے کا خدشہ تھا۔ سلیمان علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص کہے گا کہ شیاطین غیب کا علم رکھتے ہیں، میں اس کی گردن اڑا دوں گا۔ پھر جب سلیمان علیہ السلام فوت ہوئے۔ شیاطین نے کرسی کے نیچے زمین کو کھودا اور وہ کتابیں نکال لیں اور لوگوں سے کہنے لگے : سلیمان علیہ السلام انسانوں، جنوں اور پرندوں کو جادو کے ساتھ کنٹرول کیے ہوئے تھے۔ چنانچہ لوگوں میں مشہور ہو گیا کہ سلیمان علیہ السلام جادوگر تھے۔ یہاں تک کہ جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا گیا تو شیاطین کے لیے آسمان کی طرف خبریں جاننے کے لیے چڑھنے کے راستے مسدود ہو گئے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”آصف “سلیمان السلام کا کاتب تھا اور وہ اللہ کا اسم اعظم جانتا تھا۔ وہ سلیمان علیہ السلام کے حکم کے مطابق ہر چیز لکھتا اور اسے ان کی کری تلے دفن کر دیتا تھا، پھر جب سلیمان علیہ السلام فوت ہوئے، شیاطین نے وہ سب کچھ نکال لیا، پھر انھوں نے دو سطروں کے درمیان سحر و کفر کی باتیں لکھیں اور کہنے لگے : یہ وہ چیز ہے، جسے وہ کام میں لاتا تھا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر جاہل لوگوں نے انھیں کفر کی طرف منسوب کیا اور گالیاں دیں، ان کے مقابلے میں علما کھڑے ہو گئے، لیکن جاہل اپنے کام سے باز نہ آئے، حتی کہ اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کریم نازل کیا۔
186۔ کیا جن سلیمان علیہ السلام کی خدمت کیا کرتے تھے ؟
جواب :
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ غُدُوُّهَا شَهْرٌ وَرَوَاحُهَا شَهْرٌ ۖ وَأَسَلْنَا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ ۖ وَمِنَ الْجِنِّ مَن يَعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْهِ بِإِذْنِ رَبِّهِ ۖ وَمَن يَزِغْ مِنْهُمْ عَنْ أَمْرِنَا نُذِقْهُ مِنْ عَذَابِ السَّعِيرِ ﴿١٢﴾
”اور سلیمان کے لیے ہوا کو ( تابع کر دیا)، اس کا صبح کا چلنا ایک ماہ کا اور شام کا چلنا ایک ماہ کا تھا اور ہم نے اس کے لیے تانبے کا چشمہ بہایا اور جنوں میں سے کچھ وہ تھے، جو اس کے سامنے اس کے رب کے اذن سے کام کرتے تھے اور ان میں سے جو ہمارے حکم سے کجی کرتا، ہم اسے بھڑکتی آگ کا کچھ عذاب چکھاتے تھے۔“ [سبأ: 12]
اور اللہ کا فرمان ہے :
فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَىٰ مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنسَأَتَهُ ۖ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ أَن لَّوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُهِينِ ﴿١٤﴾
”پھر جب ہم نے اس پر موت کا فیصلہ کیا تو انھیں اس کی موت کا پتا نہیں دیا مگر زمین کے کیڑے (دیمک) نے جو اس کی لاٹھی کھاتا رہا، پھر جب وہ گرا تو جنوں کی حقیقت کھل گئی کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو اس ذلیل کرنے والے عذاب میں نہ رہتے۔“ [سبأ: 14]
جب اللہ نے داود علیہ السلام پر اپنے انعام کا ذکر کیا تو ان کے بیٹے سلیمان علیہ السلام کو عطا کردہ اپنے انعامات کا ساتھ ہی ذکر کیا۔ لینی ہوا کو مسخر کرنے اور اس (ہوا کا) ان کے تخت کو اٹھانے کا اور اس کے ایک مہینے کی رفتار سے آنے جانے کا ذکر کیا۔
امام حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا :
وہ اپنے تخت پر دمشق سے نکلتے اور اصطخر نامی جگہ پر اترتے تھے۔ وہاں صبح کا کھانا کھاتے اور ہوا ہی میں اصطخر سے جاتے اور رات کابل میں گزارتے، دشق اور اصطخر کے درمیان تیز رفتار سوار کے لیے ایک مہینے کا فاصلہ ہے، اسی طرح سے اصطخر اور کابل کے در میان بھی ایک مہینے کا فاصلہ ہے۔
فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَىٰ مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنسَأَتَهُ ۖ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ أَن لَّوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُهِينِ ﴿١٤﴾ [سبا : 14 ]
اس آیت میں اللہ تعالیٰ ذکر کرتے ہیں کہ کیسے سلیمان علیہ السلام فوت ہوئے اور کیسے اللہ نے ان جانوں پر ان کی موت کو مخفی رکھا جو مشقت والے کاموں میں ان کے لیے مسخر و تابع کیے گئے تھے، کیوں کہ وہ ابن عباس، مجاہد، حسن اور قتادہ وغیرہ رحمهم اللہ کے قول کے مطابق تقریباً ایک سال کی طویل مدت تک اپنی لاٹھی پر ٹیک لگائے (حالت موت میں بھی) قائم رہے۔ پھر جب اسے زمین کے کیڑے یعنی دیمک نے کھایا تو وہ کمزور ہوئی اور زمین کی طرف گرگئی۔ جن و انس پر یہ بات بھی عیاں ہو گئی کہ جناب بھی غیب نہیں جانتے، جب کہ وہ اس کا دعوی کرتے اور لوگوں کو وہم دلاتے ہیں۔ [ تفسير القرآن العظيم لابن كثير، سورة سبأ آيت: 14 ]