تحریر: عمران ایوب لاہوری

سفر میں نماز قصر کرنا واجب ہے

قصر نماز سے مراد یہ ہے کہ چار رکعت والی نماز کو کم کر کے حالت سفر میں دو رکعت ادا کرنا۔ اس کے حکم میں علماء کا اختلاف تو موجود ہے لیکن زیادہ قوی دلائل ان لوگوں کے ہیں جو وجوب کے قائل ہیں ۔
➊ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ :
أول ما فرضت الصلاة ركعتان فأقرت صلاة السفر وأتمت صلاة الحضرية
”ابتداء میں (سفر و حضر میں ) دو رکعت نماز فرض کی گئی تھی پھر سفر کی نماز کو باقی رکھا گیا اور حضر کی نماز مکمل کر دی گئی ۔“
[بخاري: 1090 ، 3935 ، كتاب الجمعة: باب بقصر إذا خرج من موضعه ، مسلم: 685 ، أحمد: 272/6 ، بيهقي: 143/3 ، دارمي: 355/1 ، نسائي: 255/1]
➋ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ :
إن الله فرض الصلاة على لسان نبيكم على المسافر ركعتين وعلى المقيم أربعا والخوف ركعة
”بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان کے ذریعے مسافر پر دو رکعتیں مقیم پر چار رکعتیں اور حالت خوف میں ایک رکعت نماز فرض کی ہے ۔“
[مسلم: 687 ، كتاب صلاة المسافرين وقصرها: باب صلاة المسافرين وقصرها ، أحمد: 237/1 ، أبو داود: 1247 ، بيهقي: 135/3 ، ابن خزيمة: 1346]
➌ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سکھائی ہوئی باتوں میں سے یہ بھی ہے کہ :
ان الله أمرنا أن نصلى ركعتين فى السفر
”بے شک اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہم دوران سفر صرف دو رکعت نماز ادا کریں ۔“
[صحيح: صحيح نسائي: 443 ، كتاب الصلاة: باب كيف فرض الصلاة ، نسائي: 458 ، ابن حبان: 1451 ، 2735 ، ابن خزيمة: 946 ، ابن ماجة: 1066 ، أحمد: 94/2 ، بيهقى: 136/3 ، موطا: 145/1 ، شيخ محمد صجی حلاق نے اسے صحيح كها هے۔ التعليق على السيل الجرار: 621/1]
➍ حضرت یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصر نماز کے متعلق فرمایا:
صدقة تصدق الله بها عليكم فاقبلوا صدقته
”یہ ایسا صدقہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تم پر صدقہ کیا ہے لٰہذا تم اس کے صدقے کو قبول کرو ۔ “
[أحمد: 36/1 ، مسلم: 686 ، كتاب صلاة المسافرين وقصرها: باب صلاة المسافرين وقصرها ، أبو داود: 1199 ، ترمذي: 5025 ، ابن ماجة: 1065 ، نسائي: 116/3 ، دارمي: 354/1 ، ابن أبى شيبة: 203/2 ، ابن خزيمة: 945]
➎ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
صلاة السفر ركعتان
”سفر کی نماز دو رکعت ہے۔“
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 1364 ، كتاب إقامة الصلاة والسنة فيها: باب تقصير الصلاة فى السفر ، ابن ماجة: 1064 ، أحمد: 37/1 ، نسائي: 111/3 ، بيهقي: 199/3]
➏ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن الله يحب أن توتى رخصه كما يكره أن توتي معصيته
”بے شک اللہ تعالیٰ اپنی دی ہوئی رخصتوں پر عمل کو اس طرح پسند کرتے ہیں جیسے اپنی نا فرمانی کے ارتکاب کو نا پسند کرتے ہیں ۔“
[صحيح: أحمد: 108/2 ، ابن حبان: 2742 ، بيهقي: 140/3 ، شيخ محمد صجی طلاق نے اسے صحيح كها هے۔ التعليق على سبل السلام: 132/3]
➐ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ :
فكان لا يزيد فى السفر على ركعتين وأبا بكر و عمر و عثمان كذلك
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم دوران سفر دو رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا عمل بھی اسی طرح تھا۔
[بخاري: 1102 كتاب الجمعة: باب من لم يتطوع فى السفر دبر الصلاة وقبلها ، مسلم: 689 ، أبو داود: 1223 ، نسائي: 123/3 ، ابن ماجة: 1071 ، أحمد: 24/2 ، ابن خزيمة: 1257]
(ابن تیمیہؒ ) رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت سفر میں کبھی چار رکعت نماز نہیں ادا کی ۔
[مجموع الفتاوى: 7/24]
(شوکانیؒ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تمام سفروں میں صرف قصر ہی ثابت ہے ۔
[السيل الجرار: 306/1]
اس کے حکم میں فقہا کا اختلاف ہے۔
(ابو حنیفہؒ) قصر نماز واجب ہے ، امام مالکؒ سے بھی ایک قول یہی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما اور حضرت علی رضی الله عنہ ، حضرت جابر رضی اللہ عنہ ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ، حضرت عمر بن عبد العزیزؒ ، امام قتادہؒ اور امام حسنؒ سے بھی یہی موقف مروی ہے۔
(احمدؒ ، شافعیؒ) مسافر کو مکمل یا قصر نماز پڑھنے میں اختیار ہے لیکن قصر افضل ہے۔
(مالکؒ) قصر نماز سنت مؤکدہ ہے۔
[بدائع الصنائع: 97/1 ، المبسوط: 236/1 ، رد المختار: 606/2 ، المغنى: 148/3 ، الأم: 321/1 ، المجموع: 241/4 ، المدونة الكبرى: 115/1 ، الكافي لابن عبدالبر: 208/1 ، تفسير قرطبي: 352/5 ، بداية المجتهد: 120/1 ، قوانين الأحكام لا بن جزي: ص/99]
(ابن تیمیہؒ) قصر نماز سنت ہے اور مکمل پڑھنا مکروہ ہے ۔
[مجموع الفتاوى: 7/24]
قصر نماز کو غیر واجب کہنے والوں کے دلائل درج ذیل ہیں:
➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
فَلَيْسَ عَلَيْكُمُ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ
[النساء: 101]
اس آیت میں قصر کرنے والے شخص پر کوئی گناہ نہ ہونے کا ذکر ہے نہ کہ قصر نہ کرنے والے پر گناہ ہونے کا ذکر ہے۔
اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اگرچہ اس آیت سے صرف جواز ہی ثابت ہوتا ہے لیکن دیگر (گذشتہ ) احادیث وجوب پر شاہد ہیں اور اصول میں یہ بات ثابت ہے کہ وجوب کو اباحت و جواز پر ترجیح ہوتی ہے ۔
[المستصفى: 318/2 ، المحصول: 583/2]
➋ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ :
ان النبى صلى الله عليه وسلم كان يقصر فى السفر ويتم
”نبي صلی اللہ علیہ وسلم دوران سفر قصر نماز بھی پڑھتے تھے اور مکمل بھی ۔“
[دارقطني: 188/2 ، بيهقي: 141/3 ، امام دار قطنيؒ نے اس كي سند كو صيح كها هے۔ ليكن فى الحقيقت يه حديث ضعيف هے كيونكه اس كي سند ميں سعيد بن محمد بن ثواب راوي مجهول هے۔ إرواء الغليل: 7/3 ، امام ابن تيميهؒ فرماتے هيں كه اس حديث كے جهوٹ هونے ميں كوئي شك نهيں۔ مجموع الفتاوي: 145/24 ، حافظ ابن حجرؒ قمطراز هيں كه امام احمدؒ نے اسے منكر كها هے اور اس كي صحت بهت دور كي بات هے۔ تلخيص الحبير: 92/2]
➌ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عمرہ رمضان کے لیے گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصر نماز پڑھی جبکہ میں نے مکمل پڑھی پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصر اور میں نے مکمل نماز پڑھی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: احسنت يا عائشه ”اے عائشہ! تو نے بھی اچھا کیا ہے ۔“
[دار قطني: 187/2 ، امام دار قطنيؒ نے اس كي سند كو صحيح كها هے۔ دراصل يه حديث قابل حجت نهيں كيونكه عبد الرحمن بن اسود كے حضرت عائشه رضی اللہ عنہا سے سماع ميں اختلاف هے۔ نيل الأوطار: 474/2 ، اور اس وجه سے بهي كه يه حديث رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے صحيح احاديث ميں ثابت كه آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماه رمضان ميں كوئي عمره نهيں كيا كے مخالف هے جيسا كه حضرت انس رضي الله عنہ سے مروي هے كه ”رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے چار عمرے كيسے اور سب ذوالقعده ميں كيسے سوائے اس كے جو حج كے ساته كيا ۔ بخاري مع الفتح: 600/3 ، مسلم: 916/2 ، امام ابن تيميهؒ نے اس حديث كو باطل قرار ديا هے۔ مجموع الفتاوي: 146/24 ، خلاصه بحث يه هے كه يه حديث ضعيف هے۔ مزيد تفصيل كے ليے ديكهيے: نصب الراية: 91/2 ، تلخيص الحبير: 46/2 ، ارو الغليل: 8/3 ، زاد المعاد: 465/1]
➍ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مقام منٰی میں چار رکعت نماز پڑھی۔
[بخاري: 1084 ، كتاب تقصير الصلاة: باب الصلاة بمنى ، أبو داود: 1960 ، مسلم: 694 ، نسائي: 1449]
اس کا جواب یوں دیا گیا ہے کہ اسی حدیث میں مذکور ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس پر اظہار تعجب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے منٰی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ دو رکعتیں ادا کی ہیں۔ نیز یہ حدیث اس لیے بھی دلیل نہیں بن سکتی کیونکہ مجرد صحابی کا فعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح و ثابت اوامر کے مقابلے میں کچھ حیثیت نہیں رکھتا۔
(راجع) وجوب کے دلائل زیادہ قوی ہیں۔ لیکن اگر بالفرض قصر نماز کو غیر واجب بھی سمجھا جائے تب بھی حالت سفر میں اس کا اُسی طرح التزام مستحب و اولیٰ ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا التزام کیا۔
(عبد الرحمن مبارکپوریؒ) اسی کے قائل ہیں ۔
[تحفة الأحوزى: 133/3]
(شوکانیؒ) دوران سفر قصر نماز واجب ہے۔
[السيل الجرار: 306/1]
(ابن حزمؒ) قصر نماز فرض ہے ۔
[المحلى بالآثار: 185/3]
(صدیق حسن خانؒ) حق بات یہی ہے کہ قصر واجب ہے۔
[الروضة الندية: 374/1]
(خطابیؒ ) اکثر علمائے سلف اور فقہائے امصار کا مذہب یہ ہے کہ سفر میں قصر واجب ہے ۔
[معالم السنن: 260/1]
(امیر صنعانیؒ ) حدیث فرضت الصلاة ركعتين کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ یہ حدیث وجوب و قصر کی دلیل ہے۔
[سبل السلام: 608/2]

اور قصر کا وجوب ایسے شخص پر ہے جو اپنے شہر سے سفر کے ارادے سے نکلے اگرچہ اس کا سفر بارہ میل سے کم ہو

ایک برید میں چار فرسخ اور ایک فرسخ میں تین میل ہوتے ہیں۔
[الأموال فى دولة الخلافة لعبد القديم زلوم: ص/ 60]
ارشاد باری تعالی ہے کہ :
وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ
[النساء: 101]
”جب تم سفر میں جا رہے ہو تو تم پر نمازوں کے قصر کرنے میں کوئی گناہ نہیں ۔“
اس آیت میں مطلقا ضرب (یعنی چلنے ) کا ذکر ہے جو ہر ضرب کو شامل ہے جبکہ اس سے سفر مقصود ہو۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ :
فكان لا يزيد فى السفر على ركعتين
آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوران سفر دو رکعتوں سے زیادہ نماز نہیں پڑھتے تھے ۔“
[بخارى: 1102 ، كتاب الجمعة: باب من لم يتطوع فى السفر دير الصلاة وقبلها ، مسلم: 689 ، أبو داود: 1223 ، ابن ماجة: 1071]
اس حدیث میں بھی مطلقا سفر کا ذکر ہے جس کی کوئی حد متعین نہیں کہ اتنے فاصلے پر قصر کی جائے گی اور اس سے کم پر قصر نہیں کی جائے گی لٰہذا ہم بھی اس کی کوئی حد متعین نہیں کر سکتے جیسا کہ مندرجہ ذیل آیات میں بھی ہم سفر کی کوئی حد متعین نہیں کرتے ۔“
فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ
[البقرة: 184]
”تم میں سے جو مریض ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں روزے رکھ کر تعداد پوری کرے ) ۔“
وَإِن كُنتُمْ مَّرْضَى أَو عَلى سَفَرِ
[المائدة: 6]
”اگر تم بیمار ہو یا سفر پر ہو۔ (اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیتم کرلو )
(راجع) اس لیے راجح بات یہی ہے کہ جتنی مسافت کو عرف عام میں سفر تصور کیا جاتا ہے وہاں قصر پڑھ لی جائے۔
(ابن تیمیہؒ) اسی کے قائل ہیں ۔
[مجموع الفتاوى: 51/24]
(ابن قیمؒ) یہی موقف رکھتے ہیں ۔
[زاد المعاد: 481/1]
(شوکائیؒ) اسی کو ترجیح دیتے ہیں ۔
[نيل الأوطار: 480/2 ، السيل الجرار: 308/1]
(صدیق حسن خانؒ) اسی کے قائل ہیں۔
[الروضة الندية: 376/1 – 379]
اس مسئلے میں فقہا نے اختلاف کیا ہے۔
(ابو حنیفہؒ) تین دن کی مسافت پر قصر کی جائے۔
(مالکؒ ، شافعیؒ ، احمدؒ ) چار برید (اڑتالیس (48) میل ہاشمی) پر قصر کرے۔
(اوزاعیؒ) کم از کم قصر کی مسافت ایک دن اور رات ہے۔
[بدائع الصنائع: 93/1 ، رد المحتار: 602/2 ، المبسوط: 235/1 ، الهداية: 80/1 ، الأم: 319/1 ، المجموع: 210/4 ، شرح مسلم للنووي: 217/3 ، نيل الأوطار: 478/2]
مسافت قصر کی حد متعین کرنے والے حضرات مندرجہ ذیل دلائل سے استدلال کرتے ہیں:
➊ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
صليت مع رسول الله الظهر بالمدينة أربعا وصليت معه العصر بذى الحليفة ركعتين
”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ میں ظہر کی چار رکعت نماز ادا کی اور پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ذوالحلیفہ میں عصر کی دو رکعت نماز پڑھی ۔“
[بخاري: 1089 ، كتاب الجمعة: باب يقصر إذا خرج من موضعه ، مسلم: 690]
یاد رہے کہ مدینہ اور ذوالحلیفہ کا درمیانی فاصلہ چھ میل ہے۔
[نيل الأوطار: 477/2]
اس کا جواب یوں دیا گیا ہے کہ یہ حدیث مسافت کی تحدید نہیں کرتی اور نہ ہی اس میں یہ ذکر ہے کہ چھ میل سے کم فاصلے کا سفر سفر نہیں کہلاتا۔
➋ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
كان إذا خرج مسيرة ثلاثة أميال أو ثلاثة فراسخ صلى ركعتين
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگر تین میل یا تین فرسخ (شعبہ راوی کو شک ہے) کے لیے نکلتے تو دو رکعت نماز ادا فرماتے ۔“
[مسلم: 691 ، كتاب صلاة المسافرين وقصرها: باب صلاة المسافرين وقصرها ، أحمد: 136/3 ، أبوداود: 1201 ، أبو عوانة: 346/2]
شعبہ راوی کے شک کی وجہ سے علماء نے تین فرسخ یعنی نو (9) میل کو احوط قرار دیا ہے۔
اگرچہ علماء نے اس حدیث کو حدِ مسافت کی تعیین میں سب سے عمدہ کہا ہے لیکن اس میں بھی یہ ذکر نہیں ہے کہ نو (9) میل سے کم فاصلے کا سفر سفر نہیں حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود چھ میل کے فاصلے پر بھی قصر کی ہے جیسا کہ پہلی حدیث میں یہ ذکر موجود ہے۔
➌ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يحل لامرأة تـؤمـن بـالـله واليوم الآخر أن تسافر ثلاثة أيام بغير ذي محرم
”کسی ایسی عورت کے لیے جو اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو ، یہ جائز نہیں ہے کہ وه بغیر کسی محرم رشتہ دار کے تین دن کا سفر کرے ۔“
[بخاري: 1087 ، كتاب الجمعة: باب فى كم يقصر الصلاة ، مسلم: 1338 ، ابو داود: 1727]
ایک روایت میں یہ لفظ ہیں: يوما و ليلة ”کوئی عورت ایک دن اور رات کا بھی سفر بغیر محرم کے نہ کرے۔“
[بخاري: 1088 أيضا ، مسلم: 1339 ، أبو داود: 1724 ، مؤطا: 979/2 ، ترمذي: 1170]
ایک اور روایت میں ہے کہ بريدا ”کوئی عورت ایک برید یعنی بارہ میل کا سفر بغیر محرم کے نہ کرے ۔“
[شاذ: ضعيف أبو داود: 379 ، كتاب المناسك: باب فى المرأة تحج بغير محرم ، أبو داود: 1725]
اس کا جواب یوں دیا گیا ہے کہ یہ احادیث مسافتِ قصر کے بیان کے لیے نہیں ہیں۔
➍ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
يا اهل مكة لا تقصروا فى أقل من أربعة برد من مكة إلى عسفان
”اے اہل مکہ! چار برید یعنی اڑتالیس (48) میل سے کم مسافت پر قصر نہ کرو اور چار برید مکہ سے عسفان تک کا درمیانی فاصلہ ہے۔“
[دارقطني: 387/1 ، بيهقي: 137/3 ، طبراني كبير: 11162]
اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ یہ حدیث مرفوع ثابت نہیں ہے بلکہ موقوف ہے جیسا کہ حافظ ابن حجرؒ نے یہی وضاحت فرمائی ہے۔
[بلوغ المرام: 349]
نیز اس کی سند میں عبد الوهاب بن مجاہد بن جبر راوی متروک ہے لٰہذا یہ قابل حجت نہیں ۔
[المجروحين: 146/2 ، ميزان الاعتدال: 682/2 ، الجرح والتعديل: 69/6 ، التاريخ الكبير: 98/6]
➎ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
كان صلى الله عليه وسلم إذا سافر فرسخا يقصر الصلاة
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب ایک فرسخ (یعنی تین میل ) سفر کرتے تو قصر نماز پڑھتے ۔“
[ابن أبى شيبة: 8113 ، تلخيص الحبير: 98/2]
اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اس کی سند میں ابو ھارون العبدی (عمارۃ بن جوین ) راوی ہے جسے حافظ ابن حجرؒ نے متروک کہا ہے اس لیے یہ روایت بھی قابل حجت نہیں ۔
[تقريب التهذيب: 4874]

قصر نماز کی ابتدا اپنی بستی یا علاقے سے باہر نکل کر کرنی چاہیے

(ابو حنیفہؒ ، شافعیؒ ، احمدؒ) شہری آبادی کے ختم ہو جانے کے بعد نماز قصر کی جائے ۔ امام مالکؒ سے بھی ایک روایت یہی ہے۔ علاوہ ازیں امام مالکؒ سے یہ بھی مروی ہے کہ شہر سے تین میل کے فاصلے پر قصر کی ابتدا کی جائے تاہم بعض تابعین نے تو اپنے گھر سے ہی قصر نماز کو جائز قرار دیا ہے۔
[تحفة الأحوذى: 135/3]
(ابن منذرؒ) علماء نے اجماع کیا ہے کہ سفر کا ارادہ رکھنے والا شخص جس بستی سے نکل رہا ہے اس کے تمام گھروں سے نکل کر قصر کر سکتا ہے۔
[نيل الأوطار: 480/2]
(شوکانیؒ) اہل لغت مسافر کا لفظ اسی پر بولتے ہیں جو اپنے وطن سے نکل کر کسی دوسری جگہ جانے کا ارادہ رکھتا ہو ۔
[السيل الجرار: 308/1]
(بخاریؒ) صحیح بخاری میں رقمطراز ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ (کوفہ سے سفر کے ارادے سے) نکلے تو اسی وقت نماز قصر پڑھنی شروع کر دی جبکہ ابھی کوفہ کے مکانات دکھائی دے رہے تھے اور پھر واپسی پر جب آپ رضی اللہ عنہ کو بتایا گیا کہ یہ کوفہ سامنے ہے تو انہوں نے کہا کہ جب تک ہم شہر میں داخل نہ ہو جائیں نماز مکمل نہیں پڑھیں گے ۔“
[بخاري: 1089 ، كتاب تقصير الصلاة: باب يقصر إذا خرج من موضعه]
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے کہ وہ (سفر سے) واپسی پر بستی میں داخل ہونے سے پہلے تک قصر کرتے رہتے تھے ۔
[نصب الراية: 183/2]

اگر انسان کسی شہر میں تردد کی حالت میں ہو تو بیس دن تک قصر کرے

امام شوکانیؒ نے جن دلائل کی بنا پر یہ موقف اختیار کیا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں:
➊ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک میں بیسں دن قیام فرمایا: يقصر الصلاة ”وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم قصر نماز پڑھتے رہے ۔“
[صحيح: إرواء الغليل: 574 ، أبو داود: 1235 ، كتاب الصلاة: باب إذا أقام بأرض العدو يقصر ، أحمد: 295/3 ، ابن حبان: 2749 ، عبدالرزاق: 4335 ، امام ابن حزمؒ اور امام نوويؒ نے اسے صحيح كها هے۔ تلخيص الحبير: 45/2]
➋ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا تو وہاں انیس (19) روز قیام فرمایا اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعت نماز پڑھتے رہے: فنحن إذا سافرنا فأقمنا تسع عشرة قصرنا وإن زدنا أتممنا ”لٰہذا اگر ہم بھی دوران سفر انیس (19) روز کہیں اقامت اختیار کرتے تو قصر نماز پڑھتے اور اگر اس سے زیادہ ٹھہرے تو مکمل نماز ادا کر لیتے ۔“
[بخاري: 1080 ، كتاب الجمعة: باب ما جاء فى التقصير وكم يقيم حتى بقصر ، ترمذي: 549]
سنن ابی داود کی روایت میں سترہ (17) دن کا ذکر ہے ۔
[صحيح: ابو داود: 1230 ، شيخ البانيؒ نے اس حديث كو صحيح كها هے ليكن انيس دن والي روايت كو تر جيح دي هے۔ صحيح ابو داود: 1088]
سنن ابی داود کی ہی ایک اور روایت میں پندرہ (15) دن کا ذکر ہے ۔
[ضعيف: ضعيف أبو داود: 265 ، أبو داود: 1231]
ان روایات میں چونکہ حالتِ تردد میں جو زیادہ سے زیادہ دنوں کی تعداد موجود ہے وہ بیسں دن ہے اس لیے امام شوکانیؒ کے مطابق اسی پر عمل کیا جائے گا۔
(شوکانیؒ) فی الحقیقت مقیم کے لیے مکمل نماز فرض ہے کیونکہ نمازِ قصر تو صرف شارع علیہ السلام نے مسافر کے لیے مشروع قرار دی ہے اور مقیم مسافر نہیں ہے۔ لٰہذا اگر مکہ اور تبوک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اقامت کے باوجود قصر ثابت نہ ہوتی تو مکمل نماز پڑھنا ہی لازم ہوتا اس لیے اس اصل سے صرف کسی دلیل کی وجہ سے ہی منتقل ہوا جا سکتا ہے اور بے شک تردد کی حالت میں صرف بیسں دن تک ہی قصر کرنے کی دلیل ثابت ہے جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی (گذشتہ ) حدیث میں ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سے زیادہ حالتِ اقامت میں قصر ثابت نہیں ہے اس لیے اسی مقدار پر اکتفاء کیا جائے گا۔
[نيل الأوطار: 484/2]
(صدیق حسن خانؒ) اسی کے قائل ہیں ۔
[الروضة الندية: 380/1]
(احناف) حالت تردد میں ہمیشہ (یعنی واپسی تک) قصر کی جائے گی۔ امام شافعیؒ سے بھی ایک روایت میں یہی مروی ہے۔
[نيل الأوطار: 483/2 ، سبل السلام: 619/2]
(راجح) تردد کی حالت میں (یعنی اگر مسافر کہے کہ میں آج سفر کرتا ہوں ، کل سفر کرتا ہوں) ہمیشہ قصر نماز پڑھنا درست ہے جب تک کہ واپسی نہ ہو جائے۔
(ابن تيميهؒ ) اسی کے قائل ہیں۔
[مجموع الفتاوى: 10/24]
(امیر صنعانیؒ ) انہوں نے اس کو زیادہ مناسب قرار دیا ہے۔
[سبل السلام: 619/2]
(ترمذیؒ) اہل علم نے اجماع کیا ہے کہ مسافر جب تک اقامت کی نیت نہ کرے وہ قصر کر سکتا ہے خواہ ایسا کرتے ہوئے کئی برس گزر جائیں۔
[جامع ترمذي: 548]
اس موقف کر ترجیح دینے کی وجوہات درج ذیل ہیں:
➊ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت تردد میں دنوں کی کوئی تعیین نہیں فرمائی۔
➋ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جتنی دیر تک حالت تردد میں رہے قصر ہی کرتے رہے جیسا کہ فتح مکہ اور تبوک وغیرہ کے موقع پر ۔
➌ تردد کی حالت میں انسان مقیم نہیں بلکہ مسافر کے حکم میں ہوتا ہے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، جب مکہ تشریف لاتے تو دو رکعت نماز پڑھا کر فرماتے:
أتموا يا أهل مكة فإنا قوم سفر
”اے مکہ والو! نماز مکمل کر لو بے شک ہم تو مسافر لوگ ہیں ۔“
[موطا: 149/1 ، شيخ محمد صجي حلاق نے اس كي سند كو صحيح كها هے۔ التعليق على الروضة الندية: 380/1]
➍ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما آذربائیجان کے علاقے میں برف کی وجہ سے راستے بند ہو جانے کی بنا پر چھ ماہ دو رکعت نماز ادا کرتے رہے۔
[بيهقي فى السنن الكبرى: 152/3 ، و فى المعرفة: 274/4 ، امام نوويؒ نے اس كي سند كو شيخين كي شرط پر صحيح كها هے۔ نصب الراية: 185/2]
➎ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ صحابہ رامہرمز کے علاقے میں نو ماہ رہے اور قصر نماز ادا کرتے رہے۔
[بيهقي: 152/2 ، امام نوويؒ نے اس كي سند كو صحیح كها هے۔ نصب الراية: 186/2 ، حافظ ابن حجرؒ نے بهي اسے صحيح كها هے۔ الدراية: 212/1]
➏ حضرت انس رضی اللہ عنہ (کسی غزوے کی وجہ سے ) فارس کے علاقے میں دو سال مقیم رہے اور قصر نماز ادا کرتے رہے۔
[تهذيب الآثار مسند عمر: 257/1]

اور اگر چار دن ٹھہرنے کا ارادہ کرے تو ان کے گزرنے کے بعد مکمل نماز پڑھے

امام شوکانیؒ کے اس موقف کو اختیار کرنے کی وجہ وہی ہے جو پہلے بیان کی جا چکی ہے کہ سنت سے جس قدر ہمیں ثبوت ملتا ہے اسی پر اکتفاء کرنا چاہیے جیسا کہ اس مسئلے کے متعلق ایک روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ اور اس کے گرد و نواح کے علاقے میں حجتہ الوداع کے موقع پر دس دن گزارے اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہے اور دو رکعت نماز ادا کرتے رہے ۔
[بخاري: 1081 ، كتاب الجمعة: باب ما جاء فى التقصير وكم يقيم حتى يقصر ، مسلم: 693 ، أبو داود: 1233 ترمذي: 548 ، نسائي: 118/3 ، ابن ماجة: 1077 ، أحمد: 187/3 ، ابن خزيمة: 956]
لیکن اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف چار دن مکہ میں مسلسل مقیم رہے اور قصر نماز ادا کرتے رہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم چار (ذوالحجہ) کی صبح کو مکہ میں تشریف لائے پھر پانچ ، چھ اور سات تاریخ تک وہیں مقیم رہے حتٰی کہ آٹھ تاریخ کی صبح کو نماز فجر پڑھا کرمنٰی کی طرف روانہ ہو گئے۔
[بخاري: 1085 ، نيل الأوطار: 480/2 ، السيل الجرار: 309]
حافظ ابن حجرؒ نقل فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں چار دن مقیم رہے ۔
[فتح الباري: 270/3]
اس سے ثابت ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چار دن اقامت کا ارادہ کیا اور قصر پڑھتے رہے اسی طرح جو بھی چار دن کا ارادہ کرے گا تو قصر پڑھے گا اور اگر اس سے زیادہ کا ارادہ کرے گا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا اور اصل کی طرف لوٹتے ہوئے مکمل نماز ادا کرے گا۔
[السيل الجرار: 309/1]
اس مسئلہ میں فقہا کا اختلاف ہے۔
(شافعیؒ ، مالکؒ ، احمدؒ ) چار دن کا ارادہ ہو تو مکمل نماز پڑھے گا اگر اس سے کم کا ارادہ ہو گا تو قصر نماز پڑھے گا۔
(ابو حنیفہؒ) پندرہ دن کا ارادہ ہو تو مکمل پڑھے گا اور اس سے کم کا ہو تو قصر پڑھے گا ۔
[الأم: 319/1 ، المجموع: 238/4 ، المغنى: 148/3 ، فتح العلام: 259 ، المبسوط: 107/2 ، الهداية: 82/1 ، تحفة الفقهاء: 257/1]
(راجح) فی الحقیقت اس کی بھی کوئی حد متعین نہیں۔ اصول وہی ہے کہ جب تک انسان عرفِ عام میں مسافر ہے قصر کر سکتا ہے۔ البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ زیادہ احتیاط کا باعث یہی ہے کہ انسان جب چار دن یا اس سے کم ٹھہرنے کی نیت کرے تو قصر پڑھے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حجۃ الوداع کے موقع پر ثابت ہے اور اگر اس سے زیادہ ٹھہرنے کی نیت ہو تو مکمل پڑھے۔
(ابن تيميهؒ ) اس کے قائل ہیں ۔
[مجموع الفتاوى: 10/24]
(ابن بازؒ ) جمہور اہل علم کے نزدیک اگر مسافر کسی شہر میں چار دن سے زائد ٹھہرنے کا ارادہ کرے تو مکمل نماز پڑھے گا اور اگر اس سے کم ٹھہرنے کا ارادہ رکھے تو قصر کرنا ہی افضل ہے البتہ مکمل پڑھے تو پھر بھی جائز ہے۔
[الفتاوى الإسلامية: 379/1]

مسافر دو نمازوں کو تقدیم و تاخیر کے ساتھ جمع کر سکتا ہے

جمع تقدیم و تاخیر کا معنی یہ ہے کہ دوسری نماز کو مقدم کر کے پہلی نماز کے وقت میں یا پہلی کو موخر کر کے دوسری کے وقت میں ادا کرنا اور یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دوران سفر ثابت ہے۔
➊ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب زوالِ آفتاب سے پہلے سفر کا آغاز فرماتے تو نمازِ ظہر کو نماز عصر تک مؤخر کر لیتے ۔ پھر سواری سے نیچے تشریف لاتے اور ظہر و عصر دونوں نمازوں کو اکٹھا ادا فرما لیتے اور اگر آفتاب آغاز سفر سے پہلے زوال پذیر ہو جاتا تو پھر نماز ظہر ادا فرما کر سوار ہوتے اور سفر پر روانہ ہو جاتے ۔“
[بخاري: 1112 ، كتاب الجمعة: باب إذا ارتحل بعد ما زاغت الشمس صلى الظهر ثم ركب ، مسلم: 704 ، أبو عوانة: 351/2 ، أبو داود: 1218 ، نسائي: 284/1 ، دارقطني: 389/1]
➋ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ :
وإذا ارتحل بعد زيغ الشمس صلى الظهر والعصر جميعا
”اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم زوالِ آفتاب کے بعد سفر کا ارادہ فرماتے تو ظہر و عصر کو اکٹھا ادا فرمالیتے ۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 1080 ، كتاب الصلاة: باب الجمع بين الصلاتين ، أبو داود: 1220 ، أحمد: 241/5 ، ترمذي: 552 ، دار قطني: 392/1 ، بيهقى: 163/3 ، إرواء الغليل: 28/3 ، 578]
➌ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ :
إذا أعجله السير فى السفر يؤخر المغرب حتى يجمع بينها وبين العشاء
”جب سفر میں جانے کی جلدی ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ مغرب مؤخر کر دیتے حتٰی کہ مغرب و عشاء کو اکٹھا پڑھ لیتے ۔“
ایک روایت میں ہے کہ حتي غاب الشفق ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کو اتنا موخر کرتے کہ شفق (سرخی) غائب ہو جاتی ۔“
[بخاري: 1091 ، كتاب الجمعة: باب يصلى المغرب ثلاثا فى السفر ، مسلم: 703 ، أحمد: 51/2 ، أبو داود: 1207 ، ترمذي: 552 ، نسائي: 289/1 ، بيهقي: 159/3 ، شرح معاني الآثار: 16131]
➍ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک کے سفر میں ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو جمع کیا ۔
[مسلم: 705]
ان دلائل سے معلوم ہوا کہ ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو ان میں سے کسی ایک کے وقت میں دوران سفر جمع کر لینا جائز و درست ہے ۔
[مزيد تفصيل كے ليے ملاحظه هو: الانتصار فى المسائل الكبار لأبي الخطاب الحنبلي: 548/2]
(احمدؒ ، شافعیؒ ، مالکؒ) اسی کے قائل ہیں۔
(ابوحنیفہؒ) مزدلفہ اور عرفہ کے علاوہ کسی اور جگہ میں جمع تقدیم و تاخیر جائز نہیں البتہ جمع صوری جائز ہے۔ (وہ یہ ہے کہ ایک نماز کو آخری وقت میں اور دوسری کو ابتدائی وقت میں پڑھنا، اس طرح نمازیں جمع بھی ہو جائیں گی اور ہر ایک اپنے اپنے وقت میں ہی ادا ہو گی )۔
[المغنى والشرح: 112/2 ، المبدع: 117/2 ، الإنصاف: 334/2 ، المدونة: 111/1 ، بداية المجتهد: 125/1 ، المجموع: 370/4 ، الروضة الندية: 395/1 ، فتح القدير: 48/2 ، الحجة لمحمد بن حسن الشيباني: 159/1]
(ابن بازؒ) مسافر نمازیں جمع کر سکتا ہے ۔
[الفتاوى الإسلامية: 380/1]
(ابن تیمیہؒ ) مطلقا نمازیں جمع کرنا درست ہے جبکہ رفع حرج مقصود ہو ۔
[مجموع الفتاوى: 9/24]
◈ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بغیر کسی بیماری ، بارش ، سفر اور خوف کے بھی نمازیں جمع کرنا ثابت ہے۔
[مسلم: 705 ِ أحمد: 223/1 ، أبو داود: 1214 ، ترمذي: 187 ، نسائي: 290/1 ، شرح معاني الآثار: 160/1 ، بيهقى: 166/3 ، صحيح أبو داود: 1074 – 1075]
لیکن یاد رہے کہ سفر کے علاوہ صرف جمع صوری جائز ہے جمع تقدیم و تاخیر نہیں۔ اس کا مفصل بیان باب مواقيت الصلاة کے تحت گزر چکا ہے۔

ایک آذان اور دو اقامتوں کے ساتھ

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ میں مغرب و عشاء جمع کی باذان واحد و إقامتين ”ایک آذان اور دو اقامتوں کے ساتھ ۔“
[مسلم: 1218 ، كتاب الحج: باب حجة النبى ، أبو داود: 1905 ، نسائي: 143/5 ، ابن ماجة: 3774]

مقیم کی اقتداء میں مسافر مکمل نماز پڑھے

مسافر جب کسی مقیم شخص کی اقتداء میں نماز پڑھے گا تو اس پر مکمل نماز پڑھنا لازم ہو گا جیسا کہ مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے دریافت کیا گیا: مسافر کی کیا حالت ہے کہ جب اکیلا نماز پڑھتا ہے تو دو رکعتیں پڑھتا ہے اور جب مقیم کی اقتداء میں پڑھتا ہے تو چار رکعتیں پڑھتا ہے تو آپ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ تلك السنة ”یہی سنت ہے۔“
ایک روایت میں ہے کہ تلك سنة أبى القاسم ”یہ ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے ۔“
[الفتاوى الإسلامية: 378/1]

کیا مسافر مقیم حضرات کی امامت کراسکتا ہے

ایسا کرنا جائز و درست ہے بشرطیکہ مسافر امامت کا اہل ہو۔
[الفتاوى الإسلامية: 377/1]
جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، جب مکہ تشریف لائے تو انہوں نے لوگوں کو دو رکعت نماز پڑھائی اور فرمايا:
يا أهل مكة أنموا صلاتكم فإنا قوم سفر
”اے مکہ والو! اپنی نماز مکمل کر لو بے شک ہم تو مسافر لوگ ہیں ۔“
[موطا: 149/1 ، شيخ محمد صجی حسن حلاق نے اسے صحيح كها هے۔ التعليق على الروضة الندية: 380/1]

روزانہ کاروبار کے سلسلے میں سفر کرنے والا شخص

ہر ایسا شخص جو سفر میں ہو قصر نماز پڑھ سکتا ہے خواہ وہ روزانہ سفر کرے یا دن میں دو بار کرے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے