سرمایہ داری اور غربت استحصال پر مبنی نظام
تحریر: زاہد مغل

سرمایہ دارانہ نظام اور غربت

دنیا میں موجودہ وقت میں غربت، افلاس، عدم مساوات، اور استحصال کی جو صورتحال نظر آتی ہے، انسانی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کے فطری نتائج ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ جدید انسان اسی نظام کو اپنا نجات دہندہ سمجھتا ہے جو ایک بڑی انسانی اکثریت کو ظلم کی چکی میں پیس رہا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ موجودہ دور کو انسانی تاریخ کا "بہترین دور” بھی قرار دیا جاتا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادی خامیاں

سرمایہ دارانہ نظام اور غربت کے تعلق کو سمجھنے کے لیے اس کی چند اہم وجوہات درج ذیل ہیں:

  1. اجتماعیت کی تحلیل اور فردیت کا فروغ:
    سرمایہ دارانہ مارکیٹ نظام معاشرے کی روایتی اجتماعیتوں کو ختم کرکے ہر چیز کو فرد کے دائرے تک محدود کر دیتا ہے، جس سے تمام عمل انفرادی ہو جاتا ہے۔
  2. نفع خوری کی بنیاد پر پیداواری عمل:
    اس نظام میں ایک شخص کی محنت کی قدروقیمت کا تعین اس کی نفع خوری کی صلاحیت پر ہوتا ہے۔ صرف وہی افراد اس نظام میں جگہ پا سکتے ہیں جو زیادہ مستعد (Efficient) ہوں۔
  3. ذرائع کی غلط تقسیم:
    مارکیٹ نظم ان وسائل کو صرف ان اشیاء کی پیداوار میں لگاتا ہے جن سے زیادہ منافع کمایا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ نظام صرف ان افراد کی ضروریات پوری کرتا ہے جو زیادہ قیمت ادا کرنے کے قابل ہوں۔ مثال کے طور پر، امریکہ اور یورپ کے پالتو جانوروں کے لیے اربوں ڈالر کے کھلونے بنتے ہیں، مگر افریقہ اور ایشیا کے غریبوں کے لیے اناج دستیاب نہیں ہوتا۔
  4. سرمایہ دارانہ ریاست کی پالیسیاں:
    چونکہ سرمایہ دارانہ ریاست خود سرمایہ داروں کے مفادات کے تابع ہوتی ہے، اس لیے وہ ایسی پالیسیاں بناتی ہے جن سے دولت بڑے شہروں، کارپوریشنز، اور صنعتوں میں مرتکز ہوتی چلی جاتی ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کے نتائج

  1. روزگار کی عدم دستیابی:
    مارکیٹ میں صرف مستعد افراد کو جگہ ملتی ہے، جس کے نتیجے میں دیگر افراد کے روزگار کے مواقع ختم ہو جاتے ہیں۔ وسائل بڑے شہروں میں منتقل ہو جاتے ہیں، اور اس عمل میں روایتی اجتماعیتیں بکھر جاتی ہیں، جس سے معاشی و سماجی ناہمواری میں اضافہ ہوتا ہے۔
  2. غربت و افلاس:
    انفرادیت پر مبنی اس نظام میں خاندان اور دیگر روایتی اجتماعیتوں کا تحفظ ممکن نہیں رہتا، جس کے نتیجے میں زیادہ تر لوگ غربت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ روایتی مذہبی معاشروں میں دولت کی تقسیم اجتماعی بنیادوں پر ہوتی تھی، جہاں سب کو یکساں حصہ ملتا تھا۔
  3. دولت کی غیر مساوی تقسیم:
    چونکہ افراد کی پیداواری صلاحیت میں فرق ہوتا ہے، اس لیے سرمایہ دارانہ نظام میں دولت کی تقسیم غیر مساوی ہو جاتی ہے۔ یہ عدم مساوات وقت کے ساتھ ایک خودکار نظام کی طرح بڑھتی جاتی ہے۔
  4. سیاسی و سماجی قوت کا ارتکاز:
    سرمایہ دارانہ معاشروں میں سیاسی اور سماجی قوت انہی طبقوں کے پاس ہوتی ہے جو دولت کے مالک ہوتے ہیں۔ یہ لوگ پالیسی سازی پر اثر انداز ہو کر مزدوروں کا استحصال کرتے ہیں۔

سرمایہ داری اور ظلم کا چولی دامن کا ساتھ

یہ تصور کرنا محال ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام رائج ہو اور غربت، افلاس، اور استحصال میں کمی آئے۔ یہ نظام ظلم و بربریت پر قائم ہے اور اسی کی تاریخ رہی ہے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ جدید مسلم مفکرین نہ صرف اس نظام کو کسی طور پر قرون اولیٰ سے بہتر سمجھتے ہیں، بلکہ اسی کے تناظر میں اسلام کی تشریح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

جدید ذہن کا دھوکہ

یہ حیرت انگیز حقیقت ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام جو عملاً انسانی تاریخ کی بدترین عدم مساوات کو فروغ دیتا رہا ہے، جدید ذہن اسی نظام کے "فروغ مساوات” کے اصول پر ایمان رکھتا ہے۔ اس نظام کے جبر نے عام لوگوں میں اس کی قبولیت کا یقین پیدا کیا ہے، حالانکہ یہ ایک خیالی جنت کے خواب سے زیادہ کچھ نہیں۔

نتیجہ

جو مفکرین یہ سمجھتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کیے بغیر عوام کو اسلام کی طرف راغب کیا جا سکتا ہے، وہ حقیقت سے دور ہیں۔ یہ نظام انسانیت کے لیے بدترین نتائج کا سبب بنتا ہے، اور اس کے بغیر حقیقی انصاف کا قیام ممکن نہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے