دورِ جدید میں مذہب کے خلاف پیش کردہ مقدمہ
دورِ جدید میں مذہب کے خلاف پیش کردہ مقدمہ کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ علم کی ترقی نے حقیقت کے مطالعہ کے لیے ایک اعلیٰ اور ترقی یافتہ طریقہ کار دریافت کیا ہے۔ مذہب کے دعوے اور عقائد اس جدید طریقہ استدلال پر پورے نہیں اترتے۔ یہ طریقہ مشاہدے اور تجربے کے ذریعے حقائق تک پہنچنے کا ہے۔ چونکہ مذہبی عقائد کا تعلق محسوس دنیا سے ہوتا ہے اور وہ براہِ راست تجربہ اور مشاہدے کے دائرے میں نہیں آ سکتے، اس لیے ان کے استدلال کو قیاس اور استقرار پر مبنی اور غیر علمی قرار دیا جاتا ہے۔
مشاہدہ اور قیاس: حقیقت کے مطالعہ کے دو پہلو
یہ دعویٰ کہ صرف وہی چیز حقیقت ہے جو براہِ راست تجربے میں آئے، غلط ہے۔ جدید طریقہ کار میں یہ نہیں کہا جاتا کہ صرف وہی چیز حقیقی ہے جو مشاہدے میں آئے۔ بلکہ مشاہدے کی بنیاد پر علمی قیاس بھی اسی طرح حقیقت ہوسکتا ہے جیسے کوئی تجربہ۔ نہ تو کسی چیز کو محض تجربہ ہونے کی بنیاد پر صحیح قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ قیاس کو محض قیاس ہونے کی بنیاد پر غلط کہا جا سکتا ہے۔ دونوں میں صحت اور غلطی کا امکان موجود ہے۔
مثال: لوہے کے جہاز اور تجربے کی درستگی
ماضی میں یہ تصور تھا کہ صرف وہی چیز پانی پر تیر سکتی ہے جو وزن میں ہلکی ہو، جیسے لکڑی۔ جب یہ کہا گیا کہ لوہے کے جہاز بھی پانی پر تیر سکتے ہیں، تو اسے مسترد کر دیا گیا کیونکہ لوہا بھاری تھا۔ ایک شخص نے لوہے کا نعل پانی میں ڈال کر یہ دکھایا کہ وہ ڈوب گیا، اور اسے بطور ثبوت پیش کیا کہ لوہا تیر نہیں سکتا۔ تاہم، یہ تجربہ غلط تھا، کیونکہ اگر لوہے کا برتن پانی میں ڈالا جاتا تو یہ واضح ہوتا کہ دعویٰ کرنے والے کا دعویٰ درست تھا۔
مثال: گیسی بادل اور طاقتور دوربین کا مشاہدہ
اسی طرح، ابتدائی دوربینوں سے آسمان کے مشاہدے میں جو اجسام دکھائی دیے، انہیں گیسی بادل سمجھا گیا۔ لیکن جب طاقتور دوربینوں سے دوبارہ مشاہدہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ یہ بے شمار ستاروں کا مجموعہ تھا، جو دوری کی وجہ سے بادل کی شکل میں نظر آ رہا تھا۔
علم کی حدود اور مشاہدہ و استنباط کا کردار
یہ ثابت ہوا کہ مشاہدہ اور تجربہ بذاتِ خود علم کے قطعی ذرائع نہیں ہیں۔ علم صرف ان چیزوں کا نام نہیں جو براہِ راست ہمارے مشاہدے میں آئیں۔ سائنس کے تمام نظریات دراصل مشاہدات کی توضیح ہیں، اور اکثر نظریات غیر مرئی ہوتے ہیں۔ سائنسی حقائق میں بہت سے ایسے تصورات شامل ہیں، جیسے قوت، انرجی، نیچر، وغیرہ، جن کو براہِ راست مشاہدے میں نہیں لایا جا سکتا۔ ڈاکٹر الکسس کیرل نے کہا:
"ریاضیاتی کائنات قیاسات اور مفروضات کا ایک شاندار جال ہے، جس میں علامتوں کی مساوات پر مشتمل ناقابلِ بیان مجردات کے سوا اور کچھ نہیں۔”
Man the Unknown, p.15
سائنس کا ایمان بالشہود اور ایمان بالغیب
سائنس کبھی یہ دعویٰ نہیں کرتی کہ حقیقت صرف وہی ہے جو حواس کے ذریعے ہمارے تجربے میں آئی ہو۔ مثال کے طور پر، ہم پانی کو مائع کی شکل میں براہِ راست دیکھتے ہیں، مگر پانی کا مالیکیول ہائیڈروجن اور آکسیجن پر مشتمل ہے، یہ علم ہمیں صرف منطقی استنباط سے حاصل ہوتا ہے، نہ کہ براہِ راست مشاہدے سے۔ اے ای مینڈر لکھتے ہیں:
"جو حقیقتیں ہم کو براہِ راست حواس کے ذریعہ معلوم ہوں، وہ محسوس حقائق ہیں مگر جن حقیقتوں کو ہم جان سکتے ہیں، وہ صرف انہیں محسوس حقائق تک محدود نہیں ہیں۔”
Clearer Thinking, London 1949, p.49
قانونِ تجاذب کی مثال
قانونِ تجاذب کی مثال کے ذریعے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ سائنسی نظریات اکثر ان واقعات کی توجیہات پر مبنی ہوتے ہیں جنہیں براہِ راست مشاہدے میں نہیں لایا جا سکتا۔ مینڈر نے کہا کہ:
"نظر آنے والے واقعات محض عالمِ حقیقت کے کچھ اجزاء ہیں، وہ سب کچھ جن کو ہم حواس کے ذریعہ جانتے ہیں وہ محض جزوی اور غیر مربوط واقعات ہوتے ہیں۔”
Clearer Thinking, p.51
قانون تجاذب بذاتِ خود مشاہدے میں نہیں آتا، بلکہ سائنس دانوں نے کچھ واقعات کی توجیہ کے لیے اس تصور کو قبول کیا ہے۔ نیوٹن نے بھی تسلیم کیا کہ یہ ناقابل فہم ہے کہ بے جان مادہ کسی درمیانی واسطے کے بغیر دوسرے مادہ پر اثر انداز ہو:
"یہ ناقابل فہم ہے کہ بے جان اور بے حس مادہ کسی درمیانی واسطہ کے بغیر دوسرے مادہ پر اثر ڈالتا ہے۔”
Works of W. Bently III, p.221
نظریہ ارتقاء اور سائنسی اتفاق رائے
نظریہ ارتقاء ایک سائنسی حقیقت کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، حالانکہ اسے براہِ راست دیکھا یا تجربہ نہیں کیا جا سکتا۔ ارتقاء کے عمل کو اتنے طویل عرصے پر محیط سمجھا جاتا ہے کہ اس کا مشاہدہ ممکن نہیں۔ سر آرتھر کیتھ نے اس نظریہ کو عقیدہ قرار دیا:
"Evolution is a basic dogma of rationalism.”
Revolt Againts Reason, p.112
اس کے باوجود یہ نظریہ اس لیے تسلیم کیا گیا کہ یہ معلوم حقائق کے ساتھ ہم آہنگ ہے، اور ان حقائق کی ایسی توجیہ فراہم کرتا ہے جو دوسرے نظریے فراہم نہیں کر سکتے۔
سائنس اور مذہب کا استدلال: ایک تقابلی جائزہ
اگر نظریہ ارتقاء کو اسی استدلال کی بنیاد پر حقیقت قرار دیا جا سکتا ہے، تو یہی استدلال مذہب کے حق میں بھی کیا جا سکتا ہے۔ سائنسی ذہن کے لیے اگر نظریہ ارتقاء قابل قبول ہے، تو مذہب کے تصورات کو بھی خارج نہیں کیا جا سکتا، خاص طور پر جب وہ حقیقت کی وضاحت میں کامیاب ہوں۔
سائنس کی اصل حقیقت: ایمان بالغیب
سائنس مشاہداتی علم ہے، جب تک وہ ابتدائی مظاہر پر کلام کرتی ہے۔ لیکن جب وہ اشیاء کی اصل حقیقت کی بات کرتی ہے، جو کہ مذہب کا بھی میدان ہے، تو وہ بھی ایمان بالغیب کی راہ اپناتی ہے۔ سر آرتھر اڈنگٹن نے کہا کہ سائنس دان کی میز دو طرح کی ہے: ایک وہ جو قابلِ لمس ہے اور دوسری وہ جو سائنسی تصورات پر مبنی ہے۔
Nature of the Physical World, p.7-8
سائنسی نظریات: وضاحت کا ذریعہ
سائنسی نظریات اور مفروضے دراصل معلوم حقائق کی توجیہہ کے لیے ذہنی نقشے ہوتے ہیں۔ اگر یہ نظریات حقائق کی معقول تشریح کرتے ہیں، تو انہیں بھی حقیقت مانا جاتا ہے، اگرچہ یہ براہِ راست مشاہدے میں نہ آئیں۔ جے ڈبلیو این سولیون لکھتے ہیں:
"سائنسی نظریات کے اس جائزے سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ ایک صحیح سائنسی نظریہ محض یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ ایک کامیاب عملی مفروضہ ہے۔”
The Limitations of Science, p.158
مذہب کی حقانیت اور سائنس
مذہب کے بارے میں یقین کا ماخذ بھی وہی ہے جو سائنس میں کسی نظریے کا ہوتا ہے۔ مذہب کے عقائد کی تشریحات کی حقیقت ہزاروں برسوں سے قائم ہے۔ یہ مستقل سچائی ہر نئی تحقیق سے اور مضبوط ہوتی چلی گئی ہے۔ اس کے برعکس، انسانی نظریات وقت کے ساتھ تبدیل ہو گئے ہیں۔