سائنس اور مذہب کا تقابل ہمیشہ سے ایک اہم موضوع رہا ہے، لیکن ایک بات جو اکثر سمجھنے میں دشواری پیدا کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ان دونوں کا بنیادی موضوع اور مقصد مختلف ہیں۔ یہی فرق ان کے درمیان کسی حقیقی تنازعے کے امکان کو ختم کرتا ہے۔ سائنس اور مذہب کو آمنے سامنے لا کر کھڑا کرنا اس لیے بھی غیر ضروری ہے کیونکہ ان دونوں کا دائرہ کار اور مقاصد الگ ہیں۔
مذہب کے ماننے والوں کے لیے ان کے عقائد اور اخلاقی اصول بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ مذہب کی بنیاد انسان کے لیے ایک مقصدِ حیات، اخلاقی ضابطے اور الہیات کے مسائل کا حل پیش کرنے پر ہوتی ہے۔ ہر مذہب اپنے ماننے والوں کو ایک بہتر معاشرتی اور روحانی زندگی کی راہ دکھاتا ہے۔ اس کے برخلاف، سائنس کا موضوع فطرت کے قوانین کی تفہیم اور کائنات کے مادی مظاہر کے اسباب کی تلاش ہے۔
یہ واضح ہے کہ سائنس اور مذہب کا موضوع مختلف ہے۔ سائنس کا مقصد مادی دنیا کے حقائق اور اسباب کو دریافت کرنا ہے، جبکہ مذہب انسان کو روحانی اور اخلاقی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اس تناظر میں یہ کہنا بالکل درست ہوگا کہ سائنس اور مذہب کے درمیان براہِ راست کوئی تنازعہ نہیں ہونا چاہیے۔ تاہم، جب سائنس کے چند نظریات کو مذہب کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے، یا مذہبی عقائد کو سائنس کے مدمقابل کھڑا کیا جاتا ہے، تو اختلافات جنم لیتے ہیں۔
ایسی صورت حال میں، بعض لوگ سائنس کو مذہب کے خلاف استعمال کرتے ہیں، جبکہ کچھ لوگ مذہب کی بنیاد پر سائنس کو رد کرتے ہیں۔ لیکن دونوں ہی گروہ سائنس اور مذہب کی اصل نوعیت کو صحیح طرح نہیں سمجھ پاتے۔ سائنس کسی خاص مذہب کے مخالف نہیں ہے، اور مذہب کو بھی سائنس سے کوئی خطرہ نہیں۔ دونوں اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے انسانیت کی بھلائی کے لیے کام کر رہے ہیں۔
جب ہم سائنس کو ایک علم کے طور پر تسلیم کرتے ہیں، تو ہمیں اسے غیر جانبدار ہو کر قبول کرنا چاہیے۔ سائنس فطرت کے مظاہر کی مادی وضاحت پیش کرتی ہے اور یہ وضاحت استقرائی اور عقلی بنیادوں پر ہوتی ہے۔ اسے مذہب کے خلاف استعمال کرنا یا مذہب کی بنیاد پر اسے رد کرنا دونوں غیر مناسب رویے ہیں۔
مثال کے طور پر، اگر کوئی کہے کہ زمین پر اشیاء کشش ثقل کی وجہ سے گرتی ہیں، اور دوسرا یہ کہے کہ نہیں، یہ خدا کے حکم سے ہوتا ہے، تو یہاں مسئلہ دراصل دونوں کے دائرہ کار کا ہے۔ ایک مادی سبب بتا رہا ہے، جبکہ دوسرا ایک غیر مادی حقیقت کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ سائنس کا موضوع مادی اسباب ہیں اور ان کی وضاحت اس کے اصولوں کے تحت ہوتی ہے، جبکہ مذہب مادی اور غیر مادی حقائق دونوں پر بات کرتا ہے۔
نظریۂ ارتقا کی مثال لے لیجیے۔ اس پر بہت سی بحثیں ہو چکی ہیں، خاص طور پر عیسائی اور مسلم معاشروں میں، لیکن اصل بات یہ ہے کہ ارتقا کو سائنسی بنیادوں پر سمجھنا اور اسے مذہبی بحثوں میں الجھانا دونوں مختلف امور ہیں۔ سائنس میں ارتقا کو فطرت کے مادی اسباب کی بنیاد پر پڑھایا جاتا ہے، جبکہ مذہب انسان کی تخلیق کے بارے میں اپنی وضاحت فراہم کرتا ہے۔
میری رائے میں، سائنس اور مذہب کے درمیان یہ تنازع محض نظریاتی اختلافات پر مبنی ہے، اور اس کا کوئی عملی جواز نہیں ہے۔ سائنس کا مقصد مادی دنیا کی وضاحت کرنا ہے، اور مذہب کا مقصد انسان کو روحانی اور اخلاقی رہنمائی فراہم کرنا ہے۔ دونوں کو ان کے اپنے دائرہ کار میں سمجھنے اور ان کے مقاصد کو تسلیم کرنے سے ہی تعارض کا خاتمہ ممکن ہے۔
خلاصہ:
- سائنس اور مذہب کے درمیان براہِ راست کوئی تنازعہ نہیں ہے کیونکہ ان کے موضوعات اور مقاصد مختلف ہیں۔
- سائنس فطرت کے مظاہر کے مادی اسباب کو دریافت کرتی ہے، جبکہ مذہب انسان کو روحانی اور اخلاقی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
- سائنس اور مذہب کو مدمقابل کھڑا کرنے والے دراصل ان کی نوعیت اور دائرہ کار کو صحیح طور پر نہیں سمجھتے۔
- نظریۂ ارتقا جیسی بحثوں میں بھی دونوں کو ان کے اپنے دائرے میں رہ کر سمجھنا چاہیے تاکہ غیر ضروری اختلافات سے بچا جا سکے۔