سوال: میان بیوی کے درمیان جماع کے کیا آداب اور حدود ہیں، اور کیا مکر وہ اور کیا حرام ہے اور کیا افضل اور کس میں اختلاف ہے؟
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لو أن أحدكم إذا أتى أهله قال: بسم الله، اللهم جنبنا الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا فإن قدر بينهما فى ذلك ولد لن يضر ذلك الولد الشيطان أبدا» [صحيح البخاري، رقم الحديث 141 صحيح مسلم، رقم الحديث 1434]
اگر بے شک تم میں سے کوئی جب اپنے اہل (بیوی) کے پاس (بغرض مجامعت) آئے اور پڑھے: اے اللہ ! ہم کو شیطان سے محفوظ فرما اور (اس جماع کے نتیجے میں) جو (اولاد کا) رزق تو ہمیں عطا کرے اس کو بھی شیطان سے محفوظ فرما، اگر ان کے اس جماع کے نتیجے میں بچہ ان کے مقدر میں کیا گیا تو اس بچے کو شیطان کبھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔“ [بخاري: 45/441]
اور مرد پر حرام ہے کہ وہ حالت حیض و نفاس میں اپنی بیوی سے مجامعت کرے، نیز اس پر دبر (پچھلی شر مگاہ) میں بھی مجامعت کرنا حرام ہے۔ اور ہم میں وصیت کرتے ہیں کہ علامہ ابن القیم نے اپنی کتاب ”زاد المعاد“ میں اس موضوع پر جو بیان کیا ہے اس کو پڑھو، ان شاء اللہ تم اس مسئلہ کی مکمل تفصیل اس میں پالو گے۔
[سعودي فتویي کميٹی]