سوال
کیا جمعہ کے دن زوال کا وقت ہوتا ہے؟ اگر ہاں، تو زوال کب تک رہتا ہے؟ کیا زوال کے وقت نوافل ادا کرنا جائز ہے؟ اگر نوافل پڑھے جا سکتے ہیں تو اس کی کیا دلیل ہے؟
جواب
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد للہ، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
➊ زوال کا وقت:
ہر دن کی طرح جمعہ کے دن بھی زوال کا وقت ہوتا ہے۔ زوال کا مطلب وہ وقت ہے جب سورج اپنے عروج پر پہنچ کر ڈھلنا شروع ہوتا ہے۔ فقہاء کے مطابق، جب مسجد کی دیوار میں سایہ ظاہر ہو اور ایک انگلی کے برابر سایہ باہر نکل آئے تو اس وقت نماز پڑھنا جائز ہوتا ہے۔
➋ زوال کے وقت نماز کی ممانعت:
نبی کریم ﷺ نے زوال کے وقت نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے، چاہے وہ جمعہ کا دن ہو یا کوئی اور دن۔ اس حوالے سے صحیح مسلم میں حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ تین اوقات میں نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے:
◄ جب سورج طلوع ہو رہا ہو، یہاں تک کہ اونچائی پر پہنچ جائے۔
◄ جب سورج نصف النہار پر ہو، یعنی زوال کا وقت ہو، یہاں تک کہ سورج ڈھل جائے۔
◄ جب سورج غروب کے قریب ہو، یہاں تک کہ غروب ہو جائے۔
(صحیح مسلم، حدیث نمبر 831)
➌ جمعہ کے دن زوال کے وقت نوافل کا جواز:
بعض روایات میں جمعہ کے دن زوال کے وقت نوافل پڑھنے کا جواز پایا جاتا ہے، جیسے کہ مسند شافعی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
"زوال کے وقت نماز پڑھنا ممنوع ہے سوائے جمعہ کے دن کے”۔
(مسند شافعی)
تاہم، اس حدیث کے راویوں میں ضعف پایا گیا ہے، جیسا کہ امام بیہقی نے بیان کیا کہ اس روایت کی سند میں واقدی اور دوسرے راوی عطاء بن عجلان ضعیف ہیں، اور دیگر طرق میں بھی اسناد مضبوط نہیں ہیں۔
(سنن بیہقی)
➍ جمہور فقہاء کا موقف:
جمہور علماء اور صحیح احادیث کی روشنی میں زوال کے وقت، خواہ جمعہ ہو یا کوئی اور دن، نفل نماز پڑھنا منع ہے۔ چنانچہ جواز کی احادیث کمزور اور ضعیف ہیں جبکہ ممانعت کی احادیث صحیح ہیں، اس لیے صحیح احادیث پر عمل کرنا واجب ہے۔
(التلخیص الجیر، مشکوٰۃ المصابیح)
➎ نتیجہ:
◄ زوال کے وقت نوافل پڑھنے سے اجتناب کرنا چاہیے، چاہے وہ جمعہ کا دن ہو یا کوئی اور دن، کیونکہ ممانعت کی احادیث صحیح ہیں اور جواز کی احادیث ضعیف ہیں۔