زوال امت کے اسباب اور مذہبی معاملات پر جھوٹے دعوے
تحریر: حافظ خضر حیات

تعارف

ایک تحریر میں عباسیہ دور کے زوال کے وقت مسلمانوں کے دینی مناظروں کو امت کی تباہی کی وجہ قرار دیا گیا ہے۔ اس میں ذکر کیا گیا کہ بغداد کی تباہی کے وقت علماء بے فائدہ مسائل پر بحث کر رہے تھے، جیسے کہ سوئی کی نوک پر فرشتوں کی تعداد، کوے کے حلال یا حرام ہونے کا مسئلہ، اور مسواک کے سائز پر اختلاف۔ پھر اس صورتحال کو آج کے دور کے مسلمانوں کی حالت سے جوڑ کر یہ دعویٰ کیا گیا کہ مذہبی مسائل میں تحقیق اور بحث امت کے زوال کا سبب ہیں۔

تحریر کا جائزہ اور تنقید

جھوٹی تاریخی مثالیں

تحریر میں جو تاریخی واقعات بیان کیے گئے ہیں، ان کی صداقت مشکوک ہے۔ مثال کے طور پر:

  • سوئی کی نوک پر فرشتوں کی تعداد پر مناظرہ
  • کوا حلال یا حرام پر بحث
  • مسواک کے سائز پر مناظرے

ان واقعات کا کوئی تاریخی حوالہ موجود نہیں ہے۔ یہ محض مفروضے ہیں جو تاریخ کی کتابوں میں کہیں ثابت نہیں ہوتے۔ اگر یہ واقعات سچے ہیں تو ان کے ثبوت فراہم کیے جائیں۔

مولوی اور مذہب کو نشانہ بنانا

یہ عام رویہ بن چکا ہے کہ ہر مسئلے کی جڑ مولوی اور دینی معاملات کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ حالانکہ:

  • بغداد کی تباہی کے وقت صرف علماء نہیں، بلکہ فوج، تاجر، انجینئرز، اور حکمران سب ناکام ہوئے۔
  • ہلاکو خان کو روکنے کی ذمہ داری صرف مذہبی طبقے پر نہیں تھی، بلکہ ریاست کے تمام ادارے اس میں ناکام رہے۔

مذہب کے مسائل کا جاری رہنا

دینی مسائل جیسے:

  • توحید و شرک
  • سنت و بدعت
  • حلال و حرام

یہ چودہ صدیوں سے زیر بحث رہے ہیں اور قیامت تک رہیں گے۔ ان پر تحقیق اور گفتگو امت کی علمی ترقی کا حصہ ہیں، نہ کہ زوال کا سبب۔

مذہبیت کے خلاف تعصب

کچھ لوگ مذہبی مسائل کو امت کے زوال کی وجہ قرار دے کر اصل مسائل سے توجہ ہٹانا چاہتے ہیں۔ ایسے افراد:

  • خود بے عمل ہوتے ہیں۔
  • دین پر عمل کے بجائے اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔
  • جب دینی معاملات جیسے داڑھی، مسواک یا سنت کی بات ہو تو بوکھلا جاتے ہیں۔

اصل حقیقت

امت کے زوال کے اسباب دینی مسائل میں تحقیق نہیں، بلکہ:

  • اتحاد کا فقدان
  • سیاسی اور عسکری کمزوری
  • علم و عمل سے دوری
  • معاشی اور سماجی مسائل

نتیجہ

تحریر میں تاریخ کو توڑ مروڑ کر مولویوں کو زوال کا سبب قرار دیا گیا ہے، جو سراسر غلط ہے۔ دینی مسائل پر تحقیق اور گفتگو امت کی علمی تاریخ کا حصہ ہیں اور رہیں گی۔ جو شخص ان مسائل کو زوال کا سبب قرار دیتا ہے، وہ خود ذہنی زوال کا شکار ہے اور اسے اپنے خیالات کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ امت کی اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور عملی اقدامات کریں، نہ کہ جھوٹی کہانیوں کے ذریعے مذہب کو مورد الزام ٹھہرائیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1