جو حصه زنده جانور سے كاٹ ليا جائے وه مردار ہے اور دو مردے اور دو خون ”يعني مچھلی اور ٹڈي ، جگر اور تلي“ حلال ہيں
حضرت ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو اہل مدینہ میں سے کچھ لوگ جانوروں کی پشتوں کا گوشت کاٹ دیتے اور اونٹوں کی کوہانیں کاٹ دیا کرتے تھے تو آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
ما قطع من البهيمة وهى حية فهى ميتة
”چوپائے کا جو حصہ کاٹ لیا جائے اور وہ زندہ ہو تو وہ حصہ مردار ہے ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 2485 ، ترمذي: 1480 ، كتاب الصيد: باب ما قطع من الحي فهو ميت ، ابو داود: 2858 ، دارمي: 93/2 ، حاكم: 239/4 ، بيهقى: 23/1 ، أحمد: 218/5 ، ابن ماجة: 3216]
➊ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أحـلـت لـنـا ميتتان و دمان: فـأمـا الميتان فالجراد والحوت وأما الدمان فالكبد والطحال
”دو مری ہوئی چیزیں اور دو خون ہمارے لیے حلال کیے گئے ہیں: دو مری ہوئی چیزیں (جنہیں ذبح نہ کیا گیا ہو) یہ ہیں ، ایک ٹڈی اور دوسری مچھلی ۔ اور دوخون سے مراد ایک جگر اور دوسری تلی ہے ۔“
[صحيح: الصحيحة: 1118 ، ابن ماجة: 3218 ، كتاب الصيد: باب صيد الحيتان والجراد ، أحمد: 97/2 ، دارقطني: 271/4 ، ترتيب المسند للشافعي: 173/2 ، بيهقي: 257/9]
➋ حضرت ابن أبی اوفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
غزونا مع النبى صلى الله عليه وسلم سبـع غزوات أو سـتـا كـنـا نأكل معه الجراد
”ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سات یا چھ غزووں میں شریک ہوئے ۔ ہم آپ کے ساتھ ٹڈی کھاتے تھے ۔“
[بخاري: 5495 ، كتاب الذبائح الصيد: باب أكل الجرار ، مسلم: 1952]
➌ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں بھوک سے نڈھال لشکر جب سمندر کے کنارے پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے عنبر مچھلی کا عطیہ دیا ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا:
كلوا رزقا أخرج الله لكم أطعمونا منه إن كان معكم
”اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا رزق کھاؤ اور اگر اس سے بچا ہوا کچھ ہے تو ہمیں بھی کھلاؤ ۔“
[بخاري: 4361 ، 4362 ، 5493 ، كتاب الذبائح والصيد: باب قول الله تعالى: أحل لكم صيد البحر ، مسلم: 1935 ، موطا: 930/2 ، ابو داود: 3840 ، أحمد: 304/3 ، بيهقى: 194/6 ، شرح السنة: 246/11]
(احناف) مچھلی کے علاوہ تمام پانی کے (مردہ) جانور حرام ہیں ۔
(جمہور ) پانی کے وہ جانور جو پانی کے علاوہ زندہ نہیں رہ سکتے خواہ انہیں کسی بھی طرح موت آئے سب حلال ہیں ۔
[بدائع الصنائع: 35/5 ، الدر المختار: 214/5 ، الفقه الإسلامي وأدلته: 2791/4 ، نيل الأوطار: 227/5]
(راجح) جمہور کا مؤقف راجح ہے ۔
[مزيد تفصيل كے ليے ملاحظه هو: الفقه الإسلامي وأدلته: 2791/4 ، سبل السلام: 11/1 ، الروضة الندية: 417/2]
اس کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ ارشاد باری تعالی ہے کہ :
أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ مَتَاعًا لَّكُمْ وَلِلسَّيَّارَةِ [المائدة: 96]
”تمہارے لیے دریا کا شکار اور اس کا کھانا حلال کیا گیا ہے ۔“
➋ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمندر کے پانی کے متعلق فرمایا:
هو الطهور ماءه و الحل ميتته
”اس کا پانی پاک ہے اور اس کا مردار حلال ہے ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 76 ، كتاب الطهارة: باب الوضوء بماء البحر ، ابو داود: 83 ، ترمذى: 69 ، ابن ماجة: 386 ، نسائي: 176/1]