زندگی کی شروعات اور ذمہ داریوں کا بوجھ
تحریر: فارینہ الماس

زندگی کی شروعات اور ذمہ داریوں کا بوجھ

ایک نئی زندگی کی تخلیق کا خواب مرد اور عورت دونوں ہی دیکھتے ہیں۔ بچے کی پیدائش سے لے کر اس کی تربیت اور عملی زندگی کے نشیب و فراز تک، دونوں والدین شریک سفر ہوتے ہیں۔ عورت اپنی ممتا کی خوشی میں جیتی ہے، جبکہ مرد ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبا رہتا ہے۔ اسپتال کے اخراجات، دودھ، کپڑے اور دیگر ضروریات کی فکر اس کے کندھوں پر ہوتی ہے۔ یہ ایک طویل سفر کا آغاز ہوتا ہے، جہاں اسے اپنی اولاد کے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے بے شمار قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔

مرد کی خاموشی: بے حسی یا قربانی؟

مرد اپنی پریشانیوں کا شور نہیں مچاتا۔ وہ اپنے خدشات اور فکریں دل میں دبا کر خاموش رہتا ہے، جس کی وجہ سے اکثر بے فکری اور لاپرواہی جیسے القابات اس کے حصے میں آتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مرد روتے نہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو رو کر اپنا غم ہلکا کر لیتے ہیں، وہ خوش نصیب ہوتے ہیں، جبکہ مرد کا درد اس کے اندر ہی رہ جاتا ہے۔

مرد ہمیشہ ظالم کیوں؟

معاشرے میں ہمیشہ عورت پر ہونے والے مظالم پر بات کی جاتی ہے، مگر مرد کی مشکلات اور قربانیوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ بے شمار مرد ایسے بھی ہوتے ہیں جو عورتوں کی بے وفائی کے باعث اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، لیکن کوئی ان کے لیے ہمدردی کے دو لفظ بھی نہیں کہتا۔

غریب الوطنی اور مرد کی آزمائشیں

دیار غیر میں مزدوری کرنے والے مردوں کی زندگیاں کس قدر اذیت ناک ہوتی ہیں، یہ کوئی نہیں سمجھتا۔ ان کی بیویاں ان کی بھیجی ہوئی رقم پر نہ صرف اپنی خواہشات پوری کرتی ہیں بلکہ میکے والوں کی فرمائشیں بھی نبھاتی ہیں۔ کچھ عورتیں تو شوہر کے پیسے پر عیش کرتی ہیں اور دوسروں کو بھی اس میں شریک کر لیتی ہیں۔ مرد اگر گھر کے اخراجات پورے نہ کر سکے تو اس کے ماں، بہنیں اور بیوی ہی اسے طعنے دیتی ہیں۔

مہنگائی، برانڈ کلچر اور مرد کی مجبوری

آج کل برانڈ کلچر نے گھر کے معاشی نظام کو مزید بوجھل بنا دیا ہے۔ عورتیں شاپنگ مالز سے مہنگے جوڑے، بیگز اور جوتے خریدنے کو ضروری سمجھتی ہیں، چاہے گھر کا سربراہ قرضوں میں ہی کیوں نہ ڈوب جائے۔ وہ اپنی خواہشات پوری کرنے کے لیے مرد کو بیمار، مقروض اور یہاں تک کہ خود کو بیچنے پر مجبور کر دیتی ہیں، مگر انہیں پرواہ نہیں ہوتی۔

دوہری محنت اور قربانی کا احساس نہ ہونا

مرد اپنی آمدنی بڑھانے کے لیے دن رات محنت کرتا ہے۔ صبح دفتر، شام کو پارٹ ٹائم ملازمت یا ڈرائیونگ، پھر رات دیر سے گھر واپسی۔ یہ سب کچھ وہ صرف اپنے گھر کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کرتا ہے۔ مگر اس کی قربانیوں کا ذکر کوئی نہیں کرتا۔ وہ یہ سب بے غرضی سے کرتا ہے، جبکہ عورت اپنی ہر خدمت کو احسان بنا کر جتلانا جانتی ہے۔

حقوق نسواں، مگر مرد کو بھی انسان سمجھیں

اگر عورت کے کاموں کو بوجھ سمجھا جاتا ہے تو پھر بھائی پر بہن کی ذمہ داری کیوں؟ باپ پر بیٹی کی تعلیم اور شادی کا خرچ کیوں؟ شوہر پر بیوی کی ہر خواہش پوری کرنے کا دباؤ کیوں؟ ظلم عورت پر بھی ہوتا ہے، مگر اکثر اس ظلم کے پیچھے بھی کوئی دوسری عورت ہوتی ہے، جیسے ساس، نند، یا ماں جو اپنی بیٹی کو ہی قتل کروانے تک پر آمادہ ہو جاتی ہے۔

نتیجہ: انصاف کا متوازن نظریہ ضروری ہے

مرد کو ہمیشہ ظالم اور عورت کو ہمیشہ مظلوم سمجھنے کا نظریہ یکطرفہ اور غلط ہے۔ جس طرح عورت پر ظلم کی مذمت ضروری ہے، اسی طرح مرد کی قربانیوں کا اعتراف بھی لازمی ہے۔ اگر معاشرہ حقیقت پسندی سے کام لے تو بہت سی ناانصافیاں ختم ہو سکتی ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1