سوال
اگر ایک غیر شادی شدہ مرد اور شادی شدہ عورت زنا بالرضا کر لیں اور اس کے بعد ندامت اور توبہ کرنا چاہیں، تو ان کے لیے سزا یا کفارہ کیا ہوگا؟ اگر وہ کسی ایسے ملک میں رہتے ہوں جہاں مکمل اسلامی شریعت نافذ نہ ہو، تو ان کا حکم کیا ہے؟
اگر اس زنا کا علم عورت کے شوہر کو ہو جائے، تو کیا اسے اپنی بیوی کو طلاق دے دینی چاہیے یا اسے اپنے ساتھ رکھنا چاہیے، خاص طور پر جب ان کے تین چھوٹے بچے بھی ہوں، اور عورت نے اس سے پہلے کبھی ایسی غلطی نہ کی ہو؟ براہ کرم قرآن و حدیث کے دلائل کے ساتھ رہنمائی فرمائیں۔
الجواب
زنا کی شرعی سزا
زنا ایک کبیرہ گناہ اور قبیح فعل ہے جسے شریعت نے ہر حالت میں منع کیا ہے، چاہے وہ باہمی رضا مندی سے ہو یا زبردستی۔ زانی مرد یا عورت اگر شادی شدہ ہوں تو ان کی سزا رجم (پتھر مار کر ہلاک کرنا) ہے، اور اگر غیر شادی شدہ ہوں تو ان کی سزا سو کوڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے غیر شادی شدہ زانی کے لیے سزا مقرر کرتے ہوئے فرمایا:
﴿الزّانِيَةُ وَالزّانى فَاجلِدوا كُلَّ وٰحِدٍ مِنهُما مِا۟ئَةَ جَلدَةٍ ۖ وَلا تَأخُذكُم بِهِما رَأفَةٌ فى دينِ اللَّهِ إِن كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ ۖ وَليَشهَد عَذابَهُما طائِفَةٌ مِنَ المُؤمِنينَ ٢﴾
(سورة النور: 2)
"زانی عورت اور زانی مرد، ان میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو۔ اور اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو ان کے معاملے میں نرمی نہ برتو اور ان کی سزا دیتے وقت اہل ایمان کا ایک گروہ موجود ہونا چاہیے۔”
حضرت عمر بن خطابؓ نے شادی شدہ افراد کی سزا بیان کرتے ہوئے فرمایا:
«إِيَّاكُم ان تَهلِكُوا عن آيَةِ الرَّجمِ…»
"خبردار، کہیں تم رجم کی آیت کے بارے میں گمراہ نہ ہو جاؤ۔ رسول اللہ ﷺ نے رجم کیا اور ہم نے بھی کیا۔ اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ لوگ کہیں گے کہ عمر نے قرآن میں اضافہ کر دیا، تو میں ضرور لکھ دیتا کہ ‘بوڑھے مرد اور بوڑھی عورت اگر زنا کریں تو انہیں سنگسار کرو۔'”
(مؤطا مالک، حدیث 1506، کتاب الحدود)
ذاتی طور پر سزا دینے کی ممانعت
تاہم، ان سزاؤں کو نافذ کرنے کا اختیار صرف اسلامی حکومت کو ہے۔ کسی فرد کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ خود سے یہ سزائیں دے۔ اسلامی حکومت کی عدم موجودگی میں ان افراد کو اللہ سے سچی توبہ کرنی چاہیے اور دوبارہ اس گناہ کے قریب بھی نہیں جانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا ہے، اور سچی توبہ کے بعد ان پر کوئی کفارہ واجب نہیں ہے۔
شوہر کے لیے رہنمائی
اگر شوہر کو اپنی بیوی کی اس غلطی کا علم ہو جائے، تو فیصلہ اس پر منحصر ہے کہ وہ اپنی بیوی کو رکھنا چاہتا ہے یا نہیں۔ شریعت کے مطابق، شوہر کو چاہیے کہ بیوی کو توبہ کا موقع دے اور دیکھے کہ کیا واقعی اس نے سچی توبہ کی ہے۔ اگر بیوی نے سچے دل سے توبہ کر لی ہے، تو شوہر کے لیے بہتر ہے کہ وہ اسے اپنے ساتھ رکھے، خاص طور پر جب ان کے چھوٹے بچے بھی ہوں۔ اگر بیوی دوبارہ ایسی غلطی کرے، تو بجائے کسی انتہائی اقدام کے، جیسے کہ قتل وغیرہ، شوہر اسے طلاق دے سکتا ہے۔