قدم چومنے سے متعلق 8 روایات
اصل مضمون غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کا تحریر کردہ ہے، اسے پڑھنے میں آسانی کے لیے عنوانات، اور اضافی ترتیب کے ساتھ بہتر بنایا گیا ہے۔

تعظیم کی نیت سے کسی کے پاؤں چومنا غیر شرعی اور ناجائز ہے۔ کچھ لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ صحابہ کرام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں مبارک کو چومتے تھے، لیکن ایسی کوئی روایت معتبر طور پر ثابت نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ صحابہ، تابعین، اور تبع تابعین کے تین اہم ادوار میں بھی اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔

پیش کی جانے والی روایات کا تحقیقی جائزہ:

روایت نمبر 1:

سیدنا صفوان بن عسال مرادی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ دو یہودی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور آپ سے نو آیات کے متعلق سوال کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا تو وہ آپ کے ہاتھوں اور پاؤں کو چومنے لگے۔(مسند الإمام أحمد: 239/4، سنن الترمذي: 2733)

امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو "صحیح” قرار دیا ہے اور امام حاکم رحمہ اللہ نے بھی کہا کہ ہمیں اس میں کوئی خرابی معلوم نہیں ہوئی۔(المستدرک علی الصحیحین: 15/1)

تجزیہ:

یہ روایت ’’منکر‘‘ ہے۔ اس کا راوی عبد اللہ بن سلمہ اگرچہ ’’حسن الحدیث‘‘ ہے، لیکن اس کے حافظے میں آخری عمر میں کمی آ گئی تھی۔

امام عمرو بن مرہ کے مطابق عبد اللہ بن سلمہ بوڑھا ہو چکا تھا، اور وہ ایسی احادیث بیان کرتا تھا جو معروف اور منکر دونوں پر مشتمل ہوتی تھیں۔(مسند علی بن الجعد: 66)

امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں کہ یہ معروف اور منکر دونوں قسم کی روایات بیان کرتا تھا۔(الجرح والتعدیل: 74/5)

امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ اس کی احادیث کی تصدیق دیگر ثقہ راویوں سے نہیں ہوتی۔(التاریخ الکبیر: 99/5)

امام نسائی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ’’منکر‘‘ قرار دیا ہے۔(السنن الکبرٰی: 3527)

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث مشکل ہے اور عبد اللہ بن سلمہ کے حافظے میں مسئلہ تھا۔(تفسیر ابن کثیر: 124/5)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اسے "صدوق” کہا ہے، لیکن ساتھ یہ بھی بیان کیا کہ اس کے حافظے میں بگاڑ آ گیا تھا۔(تقریب التہذیب: 3364)

روایت نمبر 2:

صحابی رسول، سیدنا زارع بن عامر رضی اللہ عنہ، جو وفدِ عبدالقیس میں شامل تھے، ان سے منسوب ہے کہ:

لَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِینَۃَ، فَجَعَلْنَا نَتَبَادَرُ مِنْ رَّوَاحِلِنَا، فَنَتَقَبَّلُ یَدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَرِجْلَہٗ۔
"جب ہم مدینہ منورہ پہنچے، تو ہم جلدی سے اپنے کجاووں سے نکلے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ اور پاؤں مبارک کو چومنے لگے۔”
(سنن أبي داؤد: 5225، القبل والمعانقۃ والمصافحۃ لابن الأعرابي: 41، الأدب المفرد للبخاري: 975)

تجزیہ:

اس روایت کی سند "ضعیف” ہے، کیونکہ اس کو بیان کرنے والی راویہ امِ ابان بنت وازع کی کسی محدث نے توثیق نہیں کی۔ لہٰذا حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ کا یہ کہنا صحیح نہیں کہ:

رَوَتْ۔۔۔ حَدِیثًا حَسَنًا، سَاقَتْہُ بِتَمَامِہٖ وَطُولِہٖ سِیَاقَۃً حَسَنَۃً۔
"امِ ابان نے ایک حسن حدیث روایت کی ہے۔ اس نے اس حدیث کو مکمل اور طول کے ساتھ اچھا بیان کیا ہے۔”
(الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب: 80/4)

حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے امِ ابان کو "مجہولات” میں شمار کیا ہے۔
(میزان الاعتدال: 611/4)

روایت نمبر 3:

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دیہاتی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا: "اللہ کے رسول! میں یقینا مسلمان ہوں، مجھے کوئی ایسی چیز دکھائیں جس سے میرا ایمان بڑھ جائے۔” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا چاہتے ہو؟” اس نے کہا: "آپ اس درخت کو بلائیں، وہ آپ کے پاس آئے۔” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے درخت کو بلایا اور وہ آپ کے پاس آیا اور سلام کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس اپنی جگہ جانے کا کہا، تو وہ چلا گیا۔ تب اس دیہاتی نے کہا:

اِئْذَنْ لِي أَنْ أُقَبِّلَ رَأْسَکَ وَرِجْلَیْکَ۔
"مجھے اجازت دیجیے کہ میں آپ کے سر اور دونوں پاؤں مبارک کو چوموں۔” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی، تو اس نے ایسا کر لیا۔
(مسند الدارمي: 1472، القبل لابن الأعرابي: 42، تقبیل الید لأبي بکر بن المقري: 5، المستدرک علی الصحیحین للحاکم: 172/4، دلائل النبوّۃ لأبي نعیم الأصبہاني: 291)

تجزیہ:

یہ روایت بھی "ضعیف” ہے، کیونکہ اس کا راوی صالح بن حیان قرشی جمہور محدثین کرام کے نزدیک "ضعیف” ہے۔

امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو "صحیح الاسناد” کہا، لیکن حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا:
بَلْ وَاہٍ، وَفِي إِسْنَادِہٖ صَالِحُ بْنُ حَیَّانَ مَتْرُوکٌ۔
"یہ ضعیف روایت ہے، اس کی سند میں صالح بن حیان راوی متروک ہے۔”

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے صالح بن حیان کو "ضعیف” قرار دیا ہے۔
(تقریب التہذیب: 2851)

امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے بھی اسے "ضعیف” کہا ہے۔
(تاریخ ابن معین بروایۃ الدارمي: ص: 134، ت: 434)

امام نسائی رحمہ اللہ اسے غیر ثقہ کہتے ہیں۔
(الضعفاء والمتروکون: 295)

امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
عَامَّۃُ مَا یَرْوِیہِ غَیْرُ مَحْفُوظٍ۔
"اس کی بیان کردہ اکثر روایات غیرمحفوظ (منکر) ہیں۔”
(الکامل فی ضعفاء الرجال: 55/4)

امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں "فِیہِ نَظَرٌ” کہا ہے۔
(التاریخ الکبیر: 275/4)

امام دارقطنی رحمہ اللہ نے "لیس بالقوی” قرار دیا ہے۔
(الضعفاء والمتروکون: 289)

امام ابو حاتم رحمہ اللہ نے بھی یہی فرمایا ہے۔
(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم: 398/4)

امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یَرْوِي عَنِ الثِّقَاتِ أَشْیَائَ لَا تُشْبِہُ حَدِیثَ الْـأَثْبَاتِ، لَا یُعْجِبُنِي الِاحْتِجَاجُ بِہٖ إِذَا انْفَرَدَ۔
"یہ ثقہ راویوں سے منسوب کر کے ایسی روایات نقل کرتا ہے جو ثقہ راویوں کی احادیث سے میل نہیں کھاتیں۔ مجھے اس حدیث سے استدلال کرنا پسند نہیں، جس کے بیان کرنے میں یہ منفرد ہو۔”
(المجروحین: 369/1)

امام حربی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لَہٗ أَحَادِیثُ مُنْکَرَۃٌ۔
"اس نے منکر احادیث بیان کی ہیں۔”
(تہذیب التہذیب لابن حجر: 387/4)

امام عجلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
جَائِزُ الْحَدِیثِ، یُکْتَبُ الْحَدِیثُ، وَلَیْسَ بِالْقَوِيِّ، وَہُوَ فِي إِعْدَادِ الشُّیُوخِ۔
"یہ جائز الحدیث ہے، اس کی حدیث لکھ لی جائے گی، مگر یہ قوی نہیں۔ اس کا شمار شیوخ میں ہوتا ہے۔”
(تاریخ العجلي: 225)

حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَہُوَ ضَعِیفٌ، وَلَمْ یُوَثِّقْہُ أَحَدٌ۔
"یہ ضعیف راوی ہے، اسے کسی محدث نے ثقہ قرار نہیں دیا۔”
(مجمع الزوائد: 105/1)

روایت نمبر 4:

سیدنا عامر بن طفیل رضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام کے واقعے میں ذکر کیا گیا ہے کہ:

أَتٰی، فَقَبَّلَ قَدَمَیْہِ۔
"وہ آئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں قدموں کو چوم لیا۔”
(الرخصۃ في تقبیل الید لابن المقری: 14، المعجم لأبي یعلی الموصلي: 89)

تجزیہ:

اس روایت کی سند انتہائی "ضعیف” ہے، کیونکہ:

◄ ام ہیثم بنت عبدالرحمن بن فضالہ سعدیہ کے حالاتِ زندگی معلوم نہیں ہو سکے۔

◄ ابو عبدالرحمن بن فضالہ اور ابو فضالہ بن عبداللہ جیسے راویوں کی بھی توثیق درکار ہے، جو ابھی تک نہیں ملی۔

روایت نمبر 5:

ابو بُردہ یسار، جو کہ عبد اللہ بن سائب المخزومی کے غلام تھے، سے مروی ہے:

دَخَلْتُ مَعَ مَوْلَايَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ السَّائِبِ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقُمْتُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَبَّلتُ رَأْسَہٗ وَیَدَہٗ وَرِجْلَہٗ۔
"میں اپنے مولیٰ عبد اللہ بن سائب کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گیا اور آپ کا سر، ہاتھ اور پاؤں چوم لیا۔”
(الرخصۃ في تقبیل الید لابن المقری: 24)

تجزیہ:

اس روایت کی سند بھی "سخت ترین ضعیف” ہے، کیونکہ:

◄ ابو الحسن احمد بن محمد بن عبداللہ بن قاسم "ضعیف” راوی ہے۔

◄ امام ابو حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

ضَعِیفُ الْحَدِیثِ، وَلَسْتُ أُحَدِّثُ عَنْہُ۔

    • "یہ ضعیف حدیثیں بیان کرتا ہے، اور میں اس سے حدیث روایت نہیں کرتا۔”

(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم: 71/2)◄ امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
مُنْکَرُ الْحَدِیثِ، یُوصِلُ الْـأَحَادِیثَ۔
"یہ منکر حدیثیں بیان کرتا ہے اور مرسل احادیث کو موصول ظاہر کرتا ہے۔”
(الضعفاء الکبیر: 71/2)

◄ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس کی ایک حدیث کے بارے میں کہا:
مَا ہٰذَا الْحَدِیثُ بِبَعِیدٍ مِنَ الْوَضْعِ۔
"یہ حدیث وضع (گھڑنت) سے بعید نہیں۔”
(تاریخ الإسلام: 1096/5)

◄ احمد کے والد محمد بن عبداللہ بن قاسم کے حالات نہیں مل سکے۔

◄ احمد کے دادا عبداللہ بن قاسم کی بھی توثیق نہیں ملی۔

روایت نمبر 6:

مشہور مفسر، امام اسماعیل بن عبدالرحمن بن ابوکریمہ، سدی تابعی رحمہ اللہ (م: 127ھ) نے سورۂ مائدہ کی آیت 111 کی تفسیر میں فرمایا:

"ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: میرا باپ کون ہے؟ جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فلاں۔ اس پر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ آپ کی طرف بڑھے اور آپ کا پاؤں مبارک چوم لیا۔”
(تفسیر الطبری: 17/9، طبعۃ ہجر، 102/11، ح: 12801، طبعۃ شاکر)

تجزیہ:

امام سدی رحمہ اللہ تابعی ہیں اور بلاواسطہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات نقل کر رہے ہیں، لہٰذا یہ روایت "مرسل” ہے، جو کہ "ضعیف” حدیث کی ایک قسم ہے۔

روایت نمبر 7:

صہیب مولیٰ عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:

"میں نے دیکھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ، سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے ہاتھ اور پاؤں چوم رہے تھے اور کہہ رہے تھے: چچا جان! مجھ سے راضی ہو جائیے۔”
(الأدب المفرد للبخاري: 976، الرخصۃ في تقبیل الید لابن المقری: 15، تاریخ دمشق لابن عساکر: 372/26)

تجزیہ:

اس روایت کی سند "ضعیف” ہے، کیونکہ صہیب مولیٰ عباس کی توثیق صرف امام ابن حبان رحمہ اللہ
(الثقات: 381/4) نے کی ہے، لیکن ان کے علاوہ کسی محدث نے ان کی توثیق نہیں کی، جس کی وجہ سے یہ راوی "مجہول الحال” ہے۔

حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"صُہَیْبٌ لَّا أَعْرِفُہٗ۔”
"میں صہیب کو نہیں جانتا۔”
(سیر أعلام النبلاء: 94/2)

لہٰذا حافظ ابن حجر رحمہ اللہ
(تقریب التہذیب: 2955) کا انہیں "صدوق” کہنا صحیح معلوم نہیں ہوتا۔

روایت نمبر 8:

بیان کیا جاتا ہے کہ امام مسلم رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیشانی کا بوسہ دیا اور کہا:

"دَعْنِي حَتّٰی أُقَبِّلَ رِجْلَیْکَ۔”
"مجھے اجازت دیجیے کہ میں آپ کے دونوں پاؤں چوم لوں۔”
(تاریخ دمشق لابن عساکر: 68/52، التقیید لمعرفۃ رواۃ السنن والمسانید لابن نقطۃ: 331)

تجزیہ:

اس روایت کی سند "ضعیف” ہے، کیونکہ ابو نصر احمد بن حسن بن احمد بن حمویہ ورّاق کے حالات زندگی معلوم نہیں ہو سکے۔
اس کی ایک اور سند تاریخ بغداد (102/3، 103) اور تاریخ دمشق (68/52) میں بھی موجود ہے، لیکن وہ بھی "ضعیف” ہے، کیونکہ اس میں موجود راوی ابو نصر احمد بن محمد ورّاق کی توثیق نہیں مل سکی۔

اصولِ محدثین اور بریلوی مذہب:

قدم بوسی کے بارے میں روایات کا محدثین کے اصولوں کے مطابق جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے قدم بوسی کا کوئی صحیح ثبوت نہیں ملتا۔ سلف صالحین سے بھی باسندِ صحیح قدم بوسی کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ اس بنیاد پر اولیاء اور صالحین کے پاؤں چومنا جائز نہیں ہے۔ اس کے باوجود:

بریلوی مفتی احمد یار خان نعیمی گجراتی (1391-1324ھ) لکھتے ہیں:

"اولیاء اللہ کے ہاتھ پاؤں چومنا اور ان کے تبرکات (بال، لباس وغیرہ) کو بوسہ دینا اور ان کی تعظیم کرنا مستحب ہے۔ یہ احادیث اور عمل صحابہ کرام سے ثابت ہے، اگرچہ بعض لوگ اس کا انکار کرتے ہیں۔”
(جاء الحق: 368/1)

تاہم، اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ اولیاء اللہ کے ہاتھ چومنے کا کوئی خاص ثبوت موجود نہیں ہے، اور اسے عبادت یا مستحب عمل نہیں بنانا چاہیے۔ پاؤں چومنے کا کوئی شرعی ثبوت نہیں ہے، چہ جائیکہ اسے مستحب قرار دیا جائے۔ جہاں تک تبرکات کا تعلق ہے، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہیں۔ خلفائے راشدین جیسے کبار صحابہ کرام کی چیزوں کو کسی صحابی یا تابعی نے تبرک نہیں بنایا۔ بعد کے بزرگوں کے خود ساختہ تبرکات کو چومنا کیسے جائز ہو سکتا ہے؟

جناب احمد یار خان بریلوی مزید لکھتے ہیں:

"ان احادیث و محدثین اور علماء کی عبارات سے ثابت ہوا کہ بزرگانِ دین کے ہاتھ پاؤں اور ان کے لباس، نعلین، بال، اور تمام تبرکات کو چومنا جائز اور باعث برکت ہے۔”
(جاء الحق: 399/1)

یہ بیان غلو پر مبنی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار مبارکہ کے علاوہ کسی ولی یا صالح شخص کے آثار سے تبرک لینا جائز نہیں، تو بوسہ دینا کیسے جائز ہو سکتا ہے؟ کعبہ معظمہ، قرآن مجید اور کتب احادیث کے اوراق کو چومنے کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے، اور یہ غیر مشروع عمل ہے۔ اگر یہ کوئی نیک عمل ہوتا، تو صحابہ اور تابعین اس سے غافل نہ رہتے۔

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو بوسہ دیا اور فرمایا:

"اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا، تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا۔”
(صحیح البخاری: 1597، صحیح مسلم: 1270)

اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس چیز کا بوسہ دینا شریعتِ اسلامیہ سے ثابت نہ ہو، اسے بوسہ دینا ناجائز اور غیر مشروع ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ، شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں:

"ہمارے شیخ (حافظ عراقی رحمہ اللہ) جامع ترمذی کی شرح میں فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جس چیز کو بوسہ دینے کی تعلیم شریعت نے نہ دی ہو، اس کو بوسہ دینا مکروہ ہے۔”
(فتح الباری: 463/3)

احمد یار خان نعیمی مزید لکھتے ہیں:

"تبرکات کا چومنا جائز ہے، جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا: {وَادْخُلُوْا الْبَابَ سُجَّدًا وَّقُوْلُوْا حِطَّۃٌ} یعنی اے بنی اسرائیل! تم بیت المقدس کے دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہو اور کہو کہ ہمارے گناہ معاف ہوں۔”
(جاء الحق: 368/1)

یہ آیت کی معنوی تحریف اور قبروں کے بارے میں غلو پر مبنی ہے۔ ان مقامات کی تعظیم کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وہاں سجدہ کرنے کا حکم انبیاء کی قبروں کی موجودگی کی وجہ سے دیا گیا ہو۔ مفسرین کرام نے اس سجدے کو سجدۂ شکر قرار دیا ہے، جیسا کہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا ہے:

"یعنی اللہ کا شکر ادا کرنے کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا کیونکہ اللہ نے ان کو فتح و نصرت عطا کی، ان کا علاقہ واپس دیا اور انہیں پستی اور گمراہی سے نجات دی۔”
(تفسیر ابن کثیر: 247/1)

زمین بوسی:

علما اور عظما کے سامنے زمین کو بوسہ دینا فقہ حنفی کے مطابق حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔ معتبر فقہ حنفی کی کتب میں اس عمل کی حرمت واضح طور پر بیان کی گئی ہے۔

رد المحتار علی الدر المختار میں لکھا ہے:

"جو عمل علما اور عظما کے سامنے زمین بوسی کا کیا جاتا ہے، یہ حرام ہے۔ اس عمل کو انجام دینے والا اور اس پر راضی ہونے والا دونوں گناہ گار ہیں، کیونکہ یہ عمل بت پرستی کے مشابہ ہے۔ اگر یہ عمل عبادت اور تعظیم کی نیت سے کیا جائے تو کفر ہے، اور اگر بطورِ تحیہ (سلام) کیا جائے تو کفر نہیں، لیکن یہ شخص گناہ گار ہو گا اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ہو گا۔”
(ردّ المحتار علی الدرّ المختار لابن عابدین: 383/6، تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق للزیلعي: 25/6، مجمع الأنهر في شرح ملتقی الأبحر لشیخي زادہ: 542/2، البنایۃ شرح الہدایۃ للعیني الحنفي: 198/12)

اسی طرح فتاویٰ عالمگیری میں بھی بیان کیا گیا ہے:

"علما اور زہاد کے سامنے زمین بوسی کرنا جاہلوں کا عمل ہے، اور ایسا کرنے والا اور اس پر راضی ہونے والا دونوں گناہ گار ہیں۔”
(فتاویٰ عالمگیری: 369/5)

علامہ عینی حنفی زمین بوسی کی حرمت کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"کیونکہ یہ بتوں کی عبادت کے مشابہ ہے۔”
(البنایۃ في شرح الہدایۃ: 198/12)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!