زرعی زمین کرایہ (یعنی ٹھیکے) پر دینا

تحریر : حافظ فیض اللہ ناصر

الْحَدِيثُ التَّاسِعُ: عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ قَالَ { كُنَّا أَكْثَرَ الْأَنْصَارِ حَقْلًا . وَكُنَّا نُكْرِي الْأَرْضَ ، عَلَى أَنَّ لَنَا هَذِهِ ، وَلَهُمْ هَذِهِ فَرُبَّمَا أَخْرَجَتْ هَذِهِ ، وَلَمْ تُخْرِجْ هَذِهِ فَنَهَانَا عَنْ ذَلِكَ . فَأَمَّا بِالْوَرِقِ: فَلَمْ يَنْهَنَا } .
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انصار میں سے ہمارے کھیت زیادہ تھے اور ہم اپنی زمین کرایہ (یعنی ٹھیکے) پر دیا کرتے تھے ، اس شرط پر کہ یہ حصہ ہمارا ہے اور یہ حصہ ان کا (یعنی کرایہ داروں کا ) ہے، تو کبھی ایسے بھی ہو جاتا کہ ایک حصے سے فصل تیار ہو جاتی لیکن دوسرے سے کچھ نہ نکلتا (مراد ایک کو فائدہ ہو جاتا اور دوسرا گھاٹے میں رہتا ) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے منع فرما دیا۔ لیکن چاندی روپے پیسے کے بدلے میں (ایسا کرنے سے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نہیں روکا۔
شرح المفردات:
حقلا: کاشت کاری اور کھیتی باڑی والی زمین ۔
نكري کرایہ پر دیتے، یعنی ٹھیکے پر دیتے۔ / تثنیہ وجمع مذکر مؤنث متکلم، فعل مضارع معلوم، باب افعال ۔
شرح الحديث:
زمین کا ایک حصہ اپنے لیے خاص کر لینے میں مالک کو فائد ہ اور مزارع کو نقصان ہوتا ہے، کیونکہ مالک اپنے لیے زمین کا وہ حصہ مختص کر لیتا ہے جو زیادہ زرخیز ہو یا پانی کے قریب ہو، تاکہ اس کی پیداوار زیادہ ہو اور اسے زیادہ منافع والا حصہ ملے، اس لیے اسے ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ اگر زمین کے حصے یکساں بھی ہوں تو پھر بھی جائز نہیں، کیونکہ دونوں میں سے کسی ایک کا نقصان بھگتنا اور دوسرے کا منافع حاصل کرنا سراسر مقاصد شریعت کے منافی ہے۔ شریعت برابر کی شراکت کے سودے میں نقصان ہونے پر کسی ایک کو چٹی ڈالنے سے منع کرتی ہے، لہذا نفع و نقصان میں دونوں برابر کے حصے دار ہونے چاہئیں۔ اور چاندی کے عوض ایسا معاملہ کرنے میں اس طرح کے دھوکے کا خدشہ نہیں ہوتا بلکہ مزارع کے لیے پہلے سے ایک متعین مزدوری طے کر دی جاتی ہے، اس لیے اس سے منع نہیں کیا گیا ۔
(288) صحيح البخارى، كتاب المزارعة ، باب الشروط فى المزارعة ، ح: 2327 – صحيح مسلم، كتاب البيوع ، باب كراء الأرض بالذهب والورق ، ح: 1547
289 – وَلِمُسْلِمٍ عَنْ حَنْظَلَةَ بْنِ قَيْسٍ قَالَ { سَأَلْتُ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ بِالذَّهَبِ وَالْوَرِقِ؟ فَقَالَ: لَا بَأْسَ بِهِ . إنَّمَا كَانَ النَّاسُ يُؤَاجِرُونَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا عَلَى الْمَاذِيَانَاتِ ، وَأَقْبَالِ الْجَدَاوِلِ ، وَأَشْيَاءَ مِنْ الزَّرْعِ فَيَهْلِكُ هَذَا ، وَيَسْلَمُ هَذَا وَلَمْ يَكُنْ لِلنَّاسِ كِرَاءٌ إلَّا هَذَا . وَلِذَلِكَ زَجَرَ عَنْهُ . فَأَمَّا شَيْءٌ مَعْلُومٌ مَضْمُونٌ: فَلَا بَأْسَ بِهِ . الْمَاذِيَانَاتِ الْأَنْهَارُ الْكِبَارُ وَالْجَدْوَلُ النَّهْرُ الصَّغِيرُ } .
حنظلہ بن قیس بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے سونے اور چاندی کے بدلے میں زمین کرائے (ٹھیکے) پر دینے کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے کہا: کوئی حرج نہیں ہے، دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگ جو کچھ نہروں کے کناروں اور نالوں کے سروں پہ ہوتا ، اس پر اور کھیتی کے کچھ حصے پر (زمین ) اجرت پہ دے دیا کرتے تھے، پھر یوں ہوتا کہ کبھی یہ خراب ہو جاتی اور وہ سلامت رہتی تو کبھی وہ خراب ہو جاتی اور یہ سلامت رہتی لیکن لوگوں کے پاس اس کے علاوہ ٹھیکے کا اور کوئی طریقہ نہیں تھا، اس کی (خرابیوں کی) وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے جھڑک دیا تھا (یعنی منع فرما دیا تھا) لیکن وہ معاوضہ جو معلوم اور طے شدہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
شرح المفردات:
لا بأس به: کوئی اندیشہ نہیں ، کوئی حرج نہیں ، کوئی گناہ نہیں ۔
الماذيانات: بڑی نہروں کے دونوں طرف کے کناروں پر اُگنے والی تھوڑی بہت فصل ۔
أقبال الجداول: وہ چھوٹی چھوٹی نہریں جن سے کاشتکاری والی زمینوں کو پانی دیا جاتا ہے، جنھیں ہم اپنی زبان میں نالے کہتے ہیں، ان کے سروں پر اگنے والی کچھ پیداوار ۔
شرح الحديث:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی کو زمین اس شرط پر ٹھیکے پر دینا کہ تمھاری مزدوری یہی ہوگی کہ اس زمین کے اتنے حصے سے حاصل ہونے والا نلہ یا اناج تمھارا ہو گا، یہ قطعاً جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ مبہم سا سودا ہوتا ہے اور اس میں طرفین کے لیے ہی نقصان کا خدشہ ہوتا ہے۔ ہاں البتہ کسی کے ساتھ معاوضہ متعین کر کے اسے ٹھیکے پر دینا بالکل جائز ہے۔
راوى الحديث:
حنظلہ رحمہ اللہ انصار سے تعلق رکھتے تھے اور مدنی تابعی تھے۔ فقہاء تابعین میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔ بہت کم احادیث روایت کی ہیں۔
(289) صحيح مسلم، كتاب البيوع ، باب كراء الأرض بالذهب والورق ، ح: 1547

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
لنکڈان
ٹیلی گرام
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل