وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ: أَتَى رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ فَنَادَاهُ فَقَالَ: يَارَسُولَ اللَّهِ إِنِّي زَنَيْتُ، فَأَعْرَضَ عَنْهُ، فَتَنَحَى تِلْقَاءَ وَجْهِهِ، فَقَالَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي زَنَيْتُ، فَأَعْرَضَ عَنْهُ حَتَّى تَنِّى ذَلِكَ عَلَيْهِ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ، فَلَمَّا شَهِدَ عَلَى نَفْسِهِ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ، دَعَاهُ رَسُولُ اللَّهِ مَا فَقَالَ: أبكَ جُنون؟ قَالَ: لَا قَالَ: فَهَلْ أَحْصَنْتَ؟ – قَالَ: نَعَمُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ مَن: اذْهَبُوا بِهِ فَارْجُمُوهُ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اس نے کہا کہ مسلمانوں میں ایک شخص رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے پاس آیا آپ مسجد میں تشریف فرما تھے اسے آواز دی اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں زنا کا مرتکب ہوا ہوں آپ نے اس سے اعراض برتا اور اپنا چہرہ ایک طرف کر لیا اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے زنا کیا ہے آپ نے اس سے اعراض برتا یہاں تک کہ چار مرتبہ اسے دہرایا جب اس نے اپنے خلاف چار گواہیاں قائم کر دیں اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلایا اور فرمایا: ”کیا تم دیوانے ہو؟“ اس نے کہا نہیں، آپ نے فرمایا: "کیا تم شادی شدہ ہو؟ اس نے کہا ہاں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے لے جاؤ اور اسے رجم کردو۔“
تحقیق و تخریج
[بخاري 2815، 6825، مسلم: 1691]
فوائد:
➊ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک کے واقعات حیرت انگیز ہیں زنا کے متعلق کچھ کیس آئے ۔ زانی خود پیش ہوئے اور خود حد کا مطالبہ کیا۔ کسی ایک کو کہنے کی ضرورت پیش نہ آئی۔ اور نہ ہی کسی ایک پر جبر کیا گیا۔ یہ ہے حدود کا احترام ۔ یہ سمجھنے کی بات ہے جس کے دل میں یہ احساس بیدار ہو جائے کہ یہ حد دراصل میرے لیے ہی مفید ہے اور اس دنیا میں رہتے ہوئے گناہوں کا ادنی سا کفارہ ہے تو پھر انسان خود پیش ہو جاتا ہے۔ بچی تو بہ اور آخرت کی ذلت سے بچنے کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیتا ہے۔ جس کے دل میں خوف خدا نہیں اس پر حدیں بھی اثر نہیں کرتیں۔ جیسا کہ آج ہم ہیں۔ حدوں کو زیادتی شمار کرنا یہ زیادتی پرزیادتی ہے۔
➋ حد رجم کا نفاذ زانی کے صرف اعتراف سے بھی لاگو ہو جاتا ہے اس حدیث میں یہ ہے کہ زانی اپنے نفس کے خلاف چار دفعہ گواہی دے پھر اس کی صحیح جانچ پڑتال کی جائے تمام کوائف پورے کرنے کے بعد اس کو رجم کیا جائے ۔
➌ حدود کے لیے مکلف ہونا ضروری ہے۔ کسی پاگل، پسینہ مریض بچے پر حدود قائم نہ ہوں گی۔
➍ رجم کے لیے شادی شدہ ہونا ضروری ہے۔ یہ بھی پتہ چلا کہ رجم سے قبل زانی کو کوڑے لگا نا صحیح نہیں ۔
➎ حد کسی متعین گناہ پر متعین سزا کا نام ہے جو کہ نص قرآنی سے ثابت ہوتی ہے اور یہ آئندہ دوبارہ گناہ نہ کرنے کا حل ہوتی ہے۔ اور سابقہ گناہ کا کفارہ ہوتی ہے۔ زنا غیر صحیح طریقہ نکاح کے ذریعے کسی مرد اور عورت کا ملاپ کرنا ہوتا ہے۔ گڑھا کھود کر زانی کو اتنا گاڑنا کہ گرفت میں رہے یعنی سینہ تک اور پھر اس کو ہر اس چیز سے جو ہاتھ لگے سزا دینا یہاں تک کہ وہ مرجائے رجم کہلاتا ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اس نے کہا کہ مسلمانوں میں ایک شخص رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے پاس آیا آپ مسجد میں تشریف فرما تھے اسے آواز دی اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں زنا کا مرتکب ہوا ہوں آپ نے اس سے اعراض برتا اور اپنا چہرہ ایک طرف کر لیا اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے زنا کیا ہے آپ نے اس سے اعراض برتا یہاں تک کہ چار مرتبہ اسے دہرایا جب اس نے اپنے خلاف چار گواہیاں قائم کر دیں اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلایا اور فرمایا: ”کیا تم دیوانے ہو؟“ اس نے کہا نہیں، آپ نے فرمایا: "کیا تم شادی شدہ ہو؟ اس نے کہا ہاں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے لے جاؤ اور اسے رجم کردو۔“
تحقیق و تخریج
[بخاري 2815، 6825، مسلم: 1691]
فوائد:
➊ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک کے واقعات حیرت انگیز ہیں زنا کے متعلق کچھ کیس آئے ۔ زانی خود پیش ہوئے اور خود حد کا مطالبہ کیا۔ کسی ایک کو کہنے کی ضرورت پیش نہ آئی۔ اور نہ ہی کسی ایک پر جبر کیا گیا۔ یہ ہے حدود کا احترام ۔ یہ سمجھنے کی بات ہے جس کے دل میں یہ احساس بیدار ہو جائے کہ یہ حد دراصل میرے لیے ہی مفید ہے اور اس دنیا میں رہتے ہوئے گناہوں کا ادنی سا کفارہ ہے تو پھر انسان خود پیش ہو جاتا ہے۔ بچی تو بہ اور آخرت کی ذلت سے بچنے کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیتا ہے۔ جس کے دل میں خوف خدا نہیں اس پر حدیں بھی اثر نہیں کرتیں۔ جیسا کہ آج ہم ہیں۔ حدوں کو زیادتی شمار کرنا یہ زیادتی پرزیادتی ہے۔
➋ حد رجم کا نفاذ زانی کے صرف اعتراف سے بھی لاگو ہو جاتا ہے اس حدیث میں یہ ہے کہ زانی اپنے نفس کے خلاف چار دفعہ گواہی دے پھر اس کی صحیح جانچ پڑتال کی جائے تمام کوائف پورے کرنے کے بعد اس کو رجم کیا جائے ۔
➌ حدود کے لیے مکلف ہونا ضروری ہے۔ کسی پاگل، پسینہ مریض بچے پر حدود قائم نہ ہوں گی۔
➍ رجم کے لیے شادی شدہ ہونا ضروری ہے۔ یہ بھی پتہ چلا کہ رجم سے قبل زانی کو کوڑے لگا نا صحیح نہیں ۔
➎ حد کسی متعین گناہ پر متعین سزا کا نام ہے جو کہ نص قرآنی سے ثابت ہوتی ہے اور یہ آئندہ دوبارہ گناہ نہ کرنے کا حل ہوتی ہے۔ اور سابقہ گناہ کا کفارہ ہوتی ہے۔ زنا غیر صحیح طریقہ نکاح کے ذریعے کسی مرد اور عورت کا ملاپ کرنا ہوتا ہے۔ گڑھا کھود کر زانی کو اتنا گاڑنا کہ گرفت میں رہے یعنی سینہ تک اور پھر اس کو ہر اس چیز سے جو ہاتھ لگے سزا دینا یہاں تک کہ وہ مرجائے رجم کہلاتا ہے۔
[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]