وعن محمود بن لبيد رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: إن اخوف ما اخاف عليكم الشرك الاصغر: الرياء . [اخرجه احمد بإسناد حسن]
محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”سب سے زیادہ خوف والی چیز جس سے میں تم پر ڈرتا ہوں چھوٹا شرک ریا یعنی دکھاوا ہے۔“ (اسے احمد نے حسن اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے )
تخريج : اسناد حسن [ مسند احمد 428/5 و 429 ]
میں پوری حدیث اس طرح ہے :
إن أخوف ما أخاف عليكم الشرك الأصغر، قالوا : يا رسول الله و ما الشرك الأصغر ؟ قال الرياء، ان الله تبارك وتعاليٰ يقول يوم تحازي العباد باعمالهم: اذهبوا إلى الذين كنتم تراءون فى الدنيا، فانظروا هل تجدون عندهم جزاء ؟!
”سب سے زیادہ خوف والی چیز جس کا مجھے تم پر ڈر ہے شرک اصغر ہے“ لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ ! اور شرک اصغر کیا ہے ؟ فرمایا : ”دکھاوا؟ جس دن بندوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا اس دن اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا جاؤ ان لوگوں کے پاس جنہیں دکھانے کے لئے تم عمل کرتے تھے اور دیکھو تمہیں ان کے ہاں کوئی بدلہ ملتا ہے ؟ “
البانی نے فرمایا : ”یہ اسناد جید ہے اس کے تمام راوی ثقہ اور شیخین کے راوی ہیں البتہ محمود بن لبید صرف مسلم کے راوی ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ) نے فرمایا : ”وہ صغیر صحابی ہیں ان کی اکثر روایت صحابہ سے ہے۔ میں کہتا ہوں : مسند میں ان سے کئی روایات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان ہوئی ہیں۔ انتھی۔ [سلسلة الاحاديث الصحيحة 951 ]
مفردات :
الرياء باب مفاعلۃ کا مصدر ہے۔ راءي يراءي مراءاة ورياء جیسا کہ قاتل يقاتل مقاتلة وقتالا یہ مہموز العین ہے کیونکہ یہ رویۃ سے مشتق ہے تخفیف کر کے ہمزہ کو یاء سے بدل کر پڑھنا بھی درست ہے یعنی ریاء۔
لغت میں اس کا معنی یہ ہے کہ کسی کے سامنے اپنے آپ کو ایسا ظاہر کرے جیسا وہ حقیقت میں نہیں ہے اور شروع میں یہ ہے کہ غیراللہ کو مدنظر رکھ کر کوئی نیکی کرے یا کسی گناہ سے اجتناب کرے یا کوئی دنیوی مقصد حاصل کرنے کے لئے اپنا عمل لوگوں کو بتائے یا اس مقصد کے لئے کرے کہ لوگوں کو اس کا عمل معلوم ہو۔ [سبل السلام ]
فوائد :
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر ریا کی مذمت کی ہے اور اسے منافقین کی صفت قرار دیا ہے۔
چنانچہ فرمایا :
إِنَّ الْمُنَافِقِينَ يُخَادِعُونَ اللَّـهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ قَامُوا كُسَالَىٰ يُرَاءُونَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُونَ اللَّـهَ إِلَّا قَلِيلًا [4-النساء:142]
” منافقین اللہ کو دھوکا دیتے ہیں اور وہ انہیں دھوکا دینے والا ہے اور جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو سست کھڑے ہوتے ہیں لوگوں کے لئے دکھاوا کرتے ہیں اور اللہ کا ذکر نہیں کرتے مگر کم۔ “
اور فرمایا :
فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا [18-الكهف:110]
”تو جو شخص اپنے رب کی ملاقات کی امید رکھتا ہو وہ عمل صالح کرے اور اپنے رب کی عبارت میں کسی کو شریک نہ کرے۔ “
یہاں عمل صالح سے مراد وہ عمل ہے جو کتاب و سنت کے مطابق ہو اور رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی عبادت مخلوق میں سے کسی کو دکھانے کے لئے نہ کرے اپنے عمل کو ریا سے برباد نہ کرے۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ٭ الَّذِينَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ ٭ الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ [107-الماعون:4]
” پس ویل ہے ان نمازیوں کے لئے جو اپنی نماز سے غافل ہیں وہ جو دکھاوا کرتے ہیں۔ “
حدیث میں بھی ریا کے متعلق بہت وعید آئی ہے ریا کار درحقیقت غیر اللہ کی عبادت کرتا ہے۔ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ ہمارا پروردگار اپنی پنڈلی ظاہر کرے گا تو ہر مومن مرد اور مومن عورت اس کو سجده کریں گے صرف وہ لوگ رہ جائیں گے جو دنیا میں ریا اور سمعه (دکھانے اور سنانے ) کے لئے سجدہ کرتے تھے۔ وہ سجدہ کرنے لگیں گے تو ان کی پیٹھ تختہ بن جائے گی (سجدہ نہیں کر سکیں گے ) [بخاري كتاب التفسير باب يوم يكشف عن ساق ح4919 ]
➋ حدیث میں ریا کو شرک اصغر کہا گیا ہے اس سے ریا کی قباحت ظاہر ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ [4-النساء:47]
” اللہ تعالیٰ یہ بات ہرگز معاف نہیں کرے گا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے اور اس کے علاوہ جسے چاہے گا بخش دے گا۔ “
ہمیں ہر کام صرف اور صرف اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کرنا چاہیے اور اسی بات پر قانع رہنا چاہئے کہ ہمارا پروردگار جس کے لئے ہم ساری جدوجہد کر رہے ہیں ہمیں دیکھ رہا ہے کسی دوسرے سے نہ کسی فائدے کی امید ہے نہ نقصان کا خوف اور اعمال میں اخفاء کی حتی الوسع کوشش کرنی چاہئے تاکہ ریاء سے بچ سکیں۔
➌ ریا کی چند صورتیں ہیں :
پہلی یہ کہ صرف لوگوں کو دکھانے کے لئے نیکی کا کوئی عمل کرے اللہ تعالیٰ سے ثواب کی نیت ہی نہ ہو۔ مثلا نماز صرف لوگوں کو دکھانے کے لئے پڑھے جیسا کہ منافقین پڑھتے تھے۔ صدقہ صرف اس لئے کرے کہ اسے بخیل نہ کھا جائے۔ یہ ریاء کی بد ترین صورت ہے اور یہ حقیقت میں مخلوق کی عبادت اور اللہ کے ساتھ شرک ہے۔
دوسری یہ کہ اصل مقصد بندوں کو دکھانا اور ان سے کچھ حاصل کرنا ہو ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے ثواب کی نیت بھی ہو یا بندوں کو اور اللہ کو دکھانے کا ارادہ یکساں ہو یہ عبادت بھی غیر اللہ کو شریک بنانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کو قبول نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
انا اغني الشركاء عن الشرك من عمل عملا اشرك فيه معي غيري تركته وشركه [مسلم عن ابي هريره/الزهد46]
” میں تمام حصہ داروں میں حصے سے زیادہ غنی ہوں جو شخص کوئی ایسا عمل کرے جس میں میرے ساتھ میرے غیر کو بھی حصہ دار بنائے میں اس کو اور اس کے حصے کو چھوڑ دیتا ہوں۔ “
ابن ماجہ میں یہ روایت ان الفاظ سے آئی ہے :
قال الله عزوجل : انا اغني الشركاء عن الشرك فمن عمل لي عملا اشرك فيه غيري فانا منه بري وهو للذي اشرك [ صحيح ابن ماجه / الزهد 3387/21]
”میں تمام حصے داروں میں حصے سے زیادہ مستغنی ہوں سو جو شخص میرے لئے کوئی ایسا عمل کرے جس میں میرے غیر کو حصہ دار بنائے تو میں اس سے بری ہوں اور وہ اسی کے لئے ہے جسے اس نے حصہ دار بنایا۔ “
➍ بعض اوقات آدمی صرف اللہ تعالیٰ سے ثواب کی نیت سے کوئی عمل کرتا ہے۔ مگر لوگوں کو اس لئے دکھا کر کرتا ہے کہ وہ بھی اس پر عمل کریں تو یہ جائز ہے بلکہ اس کو دیکھے کر عمل کرنے والوں کے ثواب میں بھی وہ شریک ہو گا اگرچہ چھپا کر کرنا زیادہ بہتر ہے کیونکہ اس میں ریا کا امکان ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
إِن تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِيَ ۖ وَإِن تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ [2-البقرة:271 ]
”اگر تم صدقات کو ظاہر کرو تو وہ بہت ہی اچھا ہے اور اگر انہیں چھپاؤ اور فقراء کو دو تو وہ تمہارے لئے سب سے بہتر ہے۔“
➎ بعض اوقات آدمی خالص اللہ کے لئے کوئی عمل کرتا ہے، مگر کسی بزرگ مثلاً استاد، والد یا کسی نیک آدمی کے سامنے اس لئے کرتا ہے کہ وہ خوش ہو کر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے اور اس لئے کہ ان کے خوش ہونے پر بھی اللہ تعالیٰ خوش ہو گا۔ خود ان سے نہ کسی صلے کی نیت ہو نہ کسی دنیاوی فائدے کی تو یہ ریا نہیں بلکہ انہیں خوش کرنے میں بھی یہی مقصد ہے کہ اللہ تعالیٰ خوش ہو جائے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَمِنَ الْأَعْرَابِ مَن يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَيَتَّخِذُ مَا يُنفِقُ قُرُبَاتٍ عِندَ اللَّـهِ وَصَلَوَاتِ الرَّسُولِ ۚ أَلَا إِنَّهَا قُرْبَةٌ لَّهُمْ ۚ سَيُدْخِلُهُمُ اللَّـهُ فِي رَحْمَتِهِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ [ 9-التوبة:99 ]
” بعض اعرابی ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان لاتے ہیں اور اپنی خرچ کی ہوئی چیزوں کو اللہ کے ہاں قریب ہونے کا اور رسول کی دعائیں حاصل کرنے کا ذریعہ بناتے ہیں یاد رکھو یقیناً یہ ان کے لئے قریب ہونے کا ذریعہ ہے اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمت میں داخل کرے گا یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔ “
ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خوب مزین کر کے قرآن پڑھنے کے ارادے کا اظہار کیا تھا مگر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ریا قرار نہیں دیا۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی آواز بہت ہی اچھی تھی رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اے ابوموسیٰ یقيناً تمہیں آل داؤد کے مزامیر میں سے ایک مزمار دیا گیا ہے یعنی تمہیں داؤد علیہ السلام جیسی خوبصورت اور سریلی آواز دی گئی ہے جس کے ساتھ پہاڑ اور پرندے بھی تسبیح کرتے تھے۔ [بخاري فضائل القرآن 5048 ]
صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے فرمایا : ”کاش تم مجھے اس وقت دیکھتے جب گزشتہ رات کان لگا کر میں تمہاری قرأت سن رہا تھا یقیناً تمہیں آل داؤد کے مزامیر میں سے ایک مزمار دیا گیا ہے۔“
ابویعلیٰ نے سعید بن ابی بردہ سے انہوں نے اپنے باپ سے انہوں نے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث مزید مفصل بیان کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور عائشہ رضی اللہ عنہا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے وہ اپنے گھر میں قرآن پڑھ رہے تھے دونوں کھڑے ہو کر ان کی قرأت کان لگا کر سنے گئے۔ پھر چلے گئے صبح ہوئی تو ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے ملے اور فرمایا : ”اے ابوموسیٰ کل رات میں تمہارے پاس سے گزرا اور میرے ساتھ عائشہ بھی تھیں تم اس وقت اپنے گھر میں قرآن پڑھ رہے تھے ہم نے کھڑے ہو کر تمہارا قرآن سنا۔ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :
اما اني يا رسول الله ! لو علمت لحبرت لك تحبيرا
”یا رسول اللہ ! اگر مجھے معلوم ہو جاتا تو میں آپ کی خاطر قرآن کو بہت ہی مزین کر کے پڑھتا۔ “ [مسند ابويعليٰ 401/6 حديث 7242 ]
ابن سعد نے انس رضی اللہ عنہ سے ایسی سند کے ساتھ جو مسلم کی شرط پر ہے روایت کیا ہے کہ ایک رات ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں نے ان کی آواز سنی۔ ان کی آواز بہت میٹھی تھی۔ تو وہ کھڑی ہو گئیں اور کان لگا کر سننے لگیں۔ جب صبح ہوئی تو انہیں یہ بات بتائی گئی کہنے لگے۔ اگر مجھے معلوم ہو جاتا تو ان کے لئے اسے خوب مزین کر کے پڑھتا۔
رویانی نے یہی روایت مالك بن مغول عن عبد الله بن بريدة عن ابيه کی سند سے سعید بن ابی بردۃ (یعنی ابویعلیٰ والی روایت) کی طرح بیان کی ہے اس میں ہے کہ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا:
لو علمت ان رسول الله يستمع لقراءتي لحبرتها تحبيرا
” اگر مجھے معلوم ہو جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری قرأت پر کان لگائے ہوئے ہیں تو میں اسے خوب مزین کر کے پڑھتا۔ “
اس روایت کا اصل احمد کے ہاں موجود ہے۔ [فتح الباري شرح حديث 5048 ]
➏ بعض اوقات آدمی نیکی کا کام کرنے والوں کے ساتھ مل کر زیادہ خوش دلی سے عبادت کر لیتا ہے اسے خیال گزرتا ہے کہ یہ تو ریا ہے۔ ممکن ہے کبھی ایسا بھی ہو جب اس کی نیت خراب ہو جائے لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہو گا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر صاحب ایمان کے دل میں نیکی کی رغبت ہوتی ہے مگر مختلف مصروفیات دنیاوی خواہشات اور غفلتوں کی وجہ سے نیکی نہیں کر پاتا جب دوسروں کو نیکی کرتے ہوئے دیکھتا ہے تو شوق بھڑک اٹھتا ہے غفلت کا پردہ اترتا ہے اور نیکی کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
جب وہ صرف اللہ تعالیٰ سے ثواب حاصل کرنے کے لئے نیکی کر رہا ہے تو اسے ریا نہیں کہا جا سکتا۔ جماعت کے ساتھ مل کر رہنے میں اور جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے میں دوسرے فوائد کے علاوہ یہ فائدہ بھی ہے کہ اس سے نیکیوں میں مقابلے کا جذبہ برقرار رہتا ہے اور آدمی سست نہیں ہوتا۔ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ [2-البقرة:148] ’’پس تم نیکیوں میں سبقت کرو۔ “
➐ اگر کوئی شخص خالص اللہ کے لئے عمل کرے مگر الله تعالیٰ اس کی محبت لوگوں کے دلوں میں ڈال دے وہ اس کی تعریف کریں تو یہ اللہ کا فضل اور اس کی رحمت ہے اگر اس پر اسے خوشی ہو تو کوئی حرج نہیں۔ ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ ایک آدمی اللہ کے لئے نیک عمل کرتا ہے اور اس پر لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تلك عاجل بشري المومن ”یہ مومن کو جلدی مل جانے والی بشارت ہے۔ “ [مسلم حديث نمبر 2642]