رچرڈ ڈاکنز کی ویڈیو اور انٹرویو کا پس منظر
زندگی کی ابتدا کے بارے میں ڈاکنز کے خیالات
◈ رچرڈ ڈاکنز، جو جدید مغربی دہریت (ایتھزم) کے ایک بڑے نمائندے سمجھے جاتے ہیں، کی ایک ویڈیو حالیہ دنوں میں وائرل ہوئی۔
◈ اس ویڈیو میں اُن سے زمین پر زندگی کے آغاز کے متعلق سوال کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ زندگی ایک "سیل” سے شروع ہوئی۔
◈ جب یہ سوال کیا گیا کہ وہ سیل کہاں سے آیا، تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ ممکن ہے کہ کسی دوسرے سیارے یا نظامِ شمسی پر زندگی ہم سے لاکھوں سال پہلے ارتقا پذیر ہوئی ہو۔
◈ وہ مخلوق ہم سے زیادہ ذہین ہو سکتی ہے اور انہوں نے ہی ہمارے سیارے پر زندگی کا بیج بویا ہو۔
ایک ذہین خالق کا اعتراف؟
◈ اگرچہ ڈاکنز خدا کے وجود کا انکار کرتے ہیں، لیکن اس انٹرویو میں انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ زمین پر زندگی کسی ذہین مخلوق کی تخلیق ہو سکتی ہے۔
◈ یہ اعتراف ایک قسم کے خالق کا وجود ماننے کے مترادف ہے، خواہ وہ کسی بھی درجے کا ہو۔
◈ یوں کہا جا سکتا ہے کہ ڈاکنز نے ایک حد تک ذہین تخلیق کا امکان تسلیم کیا ہے۔
ڈاکنز کا خدا اور کائنات کا نظریہ
خدا کا انکار اور کائنات کا تصور
◈ رچرڈ ڈاکنز اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ کائنات کو کسی نے تخلیق نہیں کیا، بلکہ یہ خود وجود میں آئی ہے۔
◈ یہ کائنات سیارے پیدا کرتی ہے، ان میں زندگی اور ذہانت کو فروغ دیتی ہے۔
◈ ڈاکنز کا نظریہ اس بات کو بھی خارج نہیں کرتا کہ کائنات صرف ایک نہیں بلکہ متعدد ہو سکتی ہیں، جیسا کہ "سٹرنگ تھیوری” اور دیگر جدید نظریات تجویز کرتے ہیں۔
جدید سائنس کے امکانات
◈ ڈاکنز مائیکروبیالوجی کے ماہر ہیں اور وہ ڈی این اے کی پیچیدگی، تبدیلیوں (میوٹیشن)، اور نئی مخلوقات کی پیدائش جیسے عوامل سے انکار نہیں کرتے۔
◈ "پین سپرمیا” کے نظریے کے تحت یہ امکان موجود ہے کہ کائنات میں زندگی کے اجزا خلا میں موجود ہیں اور دوسرے سیاروں پر زندگی کی بنیاد بن سکتے ہیں۔
◈ ایک اور تصور یہ بھی ہے کہ کائنات ایک زندہ اور ذہین مخلوق ہے جو چوتھی جہت (فورتھ ڈائمینشن) میں سانس لیتی ہے۔
ڈاکنز کا اصل مسئلہ: مذہب یا اصول
مذہب اور دہریت کے درمیان کشمکش
◈ ڈاکنز کا بنیادی اختلاف خدا کے تصور سے نہیں بلکہ مذہب کے "سیٹ آف رولز” یعنی اصول و ضوابط سے ہے، جنہیں نظامِ حیات کہا جاتا ہے۔
◈ مذہب میں یہ اصول وحی کی بنیاد پر ہوتے ہیں، جو کہ ایک اعلیٰ ذریعۂ علم (سورس آف نالج) مانا جاتا ہے۔
◈ دہریے وحی کو ناقابلِ قبول سمجھتے ہیں اور علم کے حسی ذرائع (امپرسزم) کو ترجیح دیتے ہیں۔
نظریۂ علم کا فرق
◈ یہ کشمکش بنیادی طور پر ایپسٹمالوجی (نظریۂ علم) کا فرق ہے:
مذہب کے نزدیک وحی ایک برتر ذریعۂ علم ہے۔
دہریت کے نزدیک علم کا واحد قابلِ قبول ذریعہ حسی تجربہ اور مشاہدہ ہے۔
ماضی، حال اور مستقبل
◈ سترہویں صدی سے پہلے دنیا کا نقطۂ نظر مختلف تھا، کیونکہ حسی علوم کو پذیرائی حاصل نہیں تھی۔
◈ جدید فزکس کے نظریات کے بعد، مذہب اور سائنس کے درمیان مفاہمت کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔
◈ جیسا کہ اقبال نے کہا تھا کہ "مذہب اور جدید سائنس میں ایسی مفاہمتیں پیدا ہوں گی جو ہماری سوچ سے بھی آگے ہوں گی” (مفہوم)۔
دہریت کے مستقبل پر سوال
◈ جدید دور میں سائنسی نظریات نے حسی علوم کو زیادہ مضبوط بنا دیا ہے، لیکن اس کے باوجود عقلیت (ریشنلزم) کا رجحان دوبارہ ابھر رہا ہے۔
◈ ایک وقت ایسا آسکتا ہے جب:
حسی علم کے بجائے عقلی علوم دنیا پر حاوی ہوں گے۔
دہریت ماضی کی بات بن جائے گی اور وحی یا مابعد الطبیعات کو دوبارہ اہمیت دی جائے گی، شاید ایک نئی شکل میں۔
نتیجہ: عقیدے اور سائنس کا ممکنہ اتصال
◈ رچرڈ ڈاکنز کے خیالات اور موجودہ سائنسی نظریات کے درمیان کشمکش درحقیقت خدا اور مذہب کے اصولوں سے زیادہ "علم کے ذرائع” پر اختلاف کی عکاسی کرتی ہے۔
◈ وقت کے ساتھ، یہ ممکن ہے کہ سائنس اور مذہب کے درمیان نئی مفاہمتیں وجود میں آئیں جو دنیا کے نظریے کو یکسر بدل دیں۔