روشن خیالی، خواتین کے حقوق اور خاندانی نظام کا استحکام

سماجی مسائل اور ہماری ذمہ داری

ہمارے معاشرے میں جب کسی سماجی مسئلے کی نشاندہی کی جاتی ہے، تو اکثر لوگ اس پر غور و فکر کرنے اور اس کا حل تلاش کرنے کے بجائے یا تو اسے مکمل نظر انداز کر دیتے ہیں یا پھر مذہب اور معاشرتی اقدار کے ساتھ تقابل کر کے غیر ضروری تاویلات، خدشات اور اعتراضات کی نذر کر دیتے ہیں۔ خاص طور پر جب مغرب سے کسی سماجی مسئلے پر آواز اٹھتی ہے، تو بجائے اس کے کہ ہم اپنے سماجی اور ثقافتی دائرے میں رہتے ہوئے اس مسئلے کا حل نکالیں، ہم دو ٹوک مخالفت میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔

حقوقِ نسواں اور آزادیٔ نسواں میں فرق

یہ حقیقت ہے کہ بعض آزاد خیال حلقے حقوقِ نسواں اور آزادیٔ نسواں کے تصورات کو اس طرح باہم خلط ملط کر رہے ہیں کہ اس سے مسائل حل ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ ہو رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف ہماری گھریلو زندگی متاثر ہو رہی ہے بلکہ معاشرتی اقدار بھی کمزور پڑ رہی ہیں۔

آزادیٔ نسواں کے نام پر جو درآمد شدہ نظریات ہمارے معاشرے میں فروغ پا رہے ہیں، ان کی جڑیں مغرب میں موجود اس سوچ میں ہیں جس نے وہاں خاندانی نظام اور رشتوں کا احترام تقریباً ختم کر دیا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں بھی کچھ مخصوص عناصر اس تحریک کو پروان چڑھا رہے ہیں، جن کا مقصد مرد و زن کے اختلاط کو سوشل نارمز پر فوقیت دینا اور خواتین کو گھریلو زندگی کے دائرے سے نکال کر مکمل آزادی کی طرف لے جانا ہے۔

تعلیم یافتہ ہونے کا مطلب ترکی بہ ترکی جواب دینا نہیں

تعلیم یافتہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ہر معاملے میں ترکی بہ ترکی جواب دیا جائے، بلکہ سمجھ داری کا ثبوت دینا اصل عقل مندی ہے۔ مگر آج کل روشن خیالی کے زیرِ اثر بعض خواتین اپنی گھریلو زندگی کو خود اپنے رویے کی وجہ سے تباہ کر رہی ہیں۔ بعض حلقوں میں یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ مرد عقلمند عورت کو برداشت نہیں کر سکتا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مرد اپنی زندگی میں بے شمار عقلمند لوگوں کا سامنا کرتا ہے، تو وہ ایک عقلمند بیوی کو کیوں برداشت نہیں کرے گا؟ اصل مسئلہ یہ ہے کہ بعض خواتین، ازدواجی زندگی میں توازن قائم رکھنے کے بجائے اپنی آزادی اور خودمختاری کو زیادہ اہمیت دیتی ہیں، جس کی وجہ سے گھریلو زندگی متاثر ہوتی ہے۔

حقیقی مسائل اور ان کا حل

خواتین کو چاہیے کہ وہ مغربی آزادیٔ نسواں جیسے غیر ضروری تصورات کو اپنانے کے بجائے حقیقی مسائل پر توجہ دیں، جیسے:

  • آسان نکاح کا فروغ
  • جہیز کی لعنت سے نجات
  • ازدواجی زندگی کے مسائل میں کمی
  • سسرالی روایات کے غیر ضروری دباؤ سے آزادی

اگر خواتین واقعی اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنا چاہتی ہیں تو انہیں ایسا مطالبہ کرنا چاہیے جو ان کی زندگی میں عملی سہولتیں فراہم کرے، نہ کہ ایسا ایجنڈا اپنانا جو خاندان کے ادارے کو کمزور کر دے۔

روشن خیالی کی حدیں اور سماجی ذمہ داری

خواتین کو یاد رکھنا چاہیے کہ شادی کے بعد گھر کی رونق اور خاندان کی بقا ان کے طرزِ عمل پر منحصر ہوتی ہے۔ اگر روشن خیالی کے نام پر وہ سماج کے بنیادی ڈھانچے سے باہر نکل جاتی ہیں، تو واپسی کا راستہ مشکل ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف مردوں کو بھی چاہیے کہ وہ عورت کو محض ذمہ داریوں کا بوجھ نہ سمجھیں بلکہ انہیں گھریلو اور سماجی زندگی میں مناسب سہولتیں اور تحفظ فراہم کریں تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بہتر انداز میں بروئے کار لا سکیں۔

معاشرتی اصلاح کی ضرورت

ہمارے معاشرے کو چاہیے کہ وہ خواتین کے مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے کے لیے اپنے رسم و رواج کا جائزہ لے اور ان خامیوں کو دور کرے جو خواتین کے استحصال کا باعث بنتی ہیں۔ ہمارا مذہب اور ملکی قانون بھی خواتین کے حقوق کی مکمل پاسداری کا درس دیتا ہے، لہٰذا ہمیں اس تحریک کو مکمل رد کرنے کے بجائے اسے مثبت انداز میں آگے بڑھانے کے لیے جرات مندانہ اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ یہ کسی معاشرتی بگاڑ کا باعث نہ بن سکے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1