روزے کے غیر شرعی طریقے قرآن و حدیث کی روشنی میں
تحریر: انیلہ عتیق صاحبہ

روزہ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے، جس کے احکام اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ نے واضح طور پر متعین فرمائے ہیں۔ جو بھی طریقہ قرآن، حدیث اور اجماعِ صحابہ کے خلاف ہو، وہ بدعت اور ناقابلِ قبول ہے۔ روزے کے کسی بھی غیر شرعی طریقے کو اختیار کرنا ناجائز اور مردود ہوگا۔

قرآن کی روشنی میں غیر شرعی طریقوں کا رد

(1) صحیح نیت اور وقت کا تعین

فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ
(البقرہ: 185)

’’تم میں سے جو شخص اس مہینے (رمضان) کو پائے تو وہ اس میں روزہ رکھے۔‘‘

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ روزہ صرف وہی معتبر ہوگا جو رمضان کے مہینے میں شرعی طریقے کے مطابق رکھا جائے، نہ کہ کسی خود ساختہ طریقے پر۔

(2) صحیح آغاز اور اختتام

وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ
(البقرہ: 187)

’’اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگا سیاہ دھاگے سے ظاہر ہو جائے، پھر روزہ رات تک مکمل کرو۔‘‘

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ فجر سے لے کر مغرب تک ہے، اور اس میں کسی قسم کی کمی بیشی گمراہی ہوگی۔

 حدیث کی روشنی میں غیر شرعی طریقوں کا رد

(1) من مانی عبادات کا رد

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ
(بخاری: 2697، مسلم: 1718)

’’جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جو اس میں نہیں تھی، تو وہ (عمل) مردود ہے۔‘‘

یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ دین میں کسی نئی چیز کو شامل کرنا ناجائز اور رد ہے۔

(2) غیر شرعی طریقوں سے اجتناب

ایک بار کچھ صحابہ کرامؓ نے اپنے طور پر زیادہ عبادت کرنے کے ارادے ظاہر کیے، تو نبی کریم ﷺ نے سختی سے منع کیا:

وَاللَّهِ إِنِّي لَأَخْشَاكُمْ لِلَّهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ، لَكِنِّي أَصُومُ وَأُفْطِرُ، وَأُصَلِّي وَأَرْقُدُ، وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي
(بخاری: 5063، مسلم: 1401)

’’اللہ کی قسم! میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور متقی ہوں، لیکن میں روزہ رکھتا بھی ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں، میں نماز پڑھتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں، اور میں نکاح بھی کرتا ہوں، پس جو میرے طریقے سے ہٹنا چاہے، وہ مجھ سے نہیں ہے۔‘‘

یہ حدیث ثابت کرتی ہے کہ دین میں اپنی طرف سے شدت اختیار کرنا جائز نہیں بلکہ نبی کریم ﷺ کی سنت پر عمل کرنا ہی صحیح طریقہ ہے۔

 اجماعِ صحابہ کی روشنی میں غیر شرعی روزوں کا رد

(1) بغیر سحری کے روزہ رکھنا

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

تَسَحَّرُوا فَإِنَّ فِي السَّحُورِ بَرَكَةً
(بخاری: 1923، مسلم: 1095)

’’سحری کھایا کرو، کیونکہ سحری میں برکت ہے۔‘‘

جو لوگ بغیر سحری کے روزہ رکھتے ہیں اور اسے زیادہ نیکی سمجھتے ہیں، وہ غلطی پر ہیں، کیونکہ نبی کریم ﷺ نے سحری کی ترغیب دی ہے۔

(2) مسلسل روزہ رکھنا (وصال کا روزہ)

بعض لوگ بغیر افطار کیے کئی دن تک روزہ رکھنا چاہتے تھے، لیکن نبی کریم ﷺ نے منع کیا:

لَا تُوَاصِلُوا
(بخاری: 1965، مسلم: 1102)

’’مسلسل روزہ نہ رکھو (یعنی افطار کیے بغیر اگلے دن نہ جاؤ)‘‘

یہ حدیث اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ دین میں شدت اختیار کرنا جائز نہیں اور نبی کریم ﷺ نے غیر ضروری مشقت سے منع فرمایا ہے۔

4. غیر شرعی اور بدعی طریقے جو رائج ہیں

غیر شرعی دنوں میں روزہ رکھنا:
❀ کسی ولی کے عرس پر مخصوص روزہ رکھنا۔
❀ بغیر کسی صحیح حدیث کے رجب کے پورے مہینے کے روزے رکھنا۔

افطار میں غیر شرعی تاخیر:
❀ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مغرب کے بعد کچھ دیر بھوکا رہنا زیادہ نیکی ہے، حالانکہ نبی ﷺ نے جلد افطار کرنے کا حکم دیا ہے:

لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ
(بخاری: 1957، مسلم: 1098)

’’لوگ ہمیشہ بھلائی پر رہیں گے جب تک کہ وہ افطار میں جلدی کریں گے۔‘‘

صرف نیت سے روزہ رکھ لینا، عمل نہ کرنا:
❀ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ’’ہم نے دل میں نیت کر لی، کھانے پینے کی ضرورت نہیں، نیت ہی کافی ہے‘‘، حالانکہ روزے کے لیے کھانے پینے سے رکنا ضروری ہے۔

نتیجہ

روزہ اسلام کا ایک بنیادی رکن ہے، اور اس کے احکام قرآن، حدیث اور اجماعِ صحابہ سے واضح طور پر متعین ہیں۔ کسی بھی نئے طریقے یا بدعتی عمل کو داخل کرنا سختی سے منع ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ نبی کریم ﷺ کی سنت کے مطابق روزہ رکھیں اور ہر قسم کی بدعات و خرافات سے بچیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1