سوال:
حدیث "أَوْلَى النَّاسِ بِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَكْثَرُهُمْ عَلَيَّ صَلَاةً” کی صحت کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب از فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ
یہ روایت ضعیف ہے، اور اس کی سند میں متعدد کمزور راوی اور مختلف طرق سے آنے والے اضطراب کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ذیل میں اس کا تفصیلی تجزیہ پیش کیا جا رہا ہے:
روایت کا مدار:
یہ روایت موسى بن يعقوب الزمعي پر موقوف ہے، جس کے بارے میں محدثین کا اختلاف پایا جاتا ہے۔
ابن مدینی، احمد بن حنبل، اور نسائی جیسے محدثین نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ وہ قوی حافظہ نہیں رکھتا اور اس سے اضطراب پایا گیا ہے۔
روایت کے مختلف طرق میں اضطراب:
مختلف اسانید میں راویوں کا اختلاف پایا جاتا ہے، جن میں عبداللہ بن شداد، عتبة بن عبداللہ، اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی طرق میں تبدیلی پائی جاتی ہے۔
دارقطنی نے اس حدیث میں موجود اضطراب کو موسى بن يعقوب کی طرف منسوب کیا اور اس پر احتجاج کرنے سے منع کیا۔
ضعیف راوی اور غیر معروف راوی:
اسناد میں شامل راوی عبداللہ بن کیسان کی حالت غیر معلوم ہے، اور محدثین نے اسے معتبر قرار نہیں دیا۔
محدثین کی آراء:
◄ ابن عدی نے اس حدیث کو منکرات میں شمار کیا ہے۔
◄ ابن القطان نے بھی اس پر تنقید کی اور اسے غیر معتبر قرار دیا۔
◄ دارقطنی نے واضح طور پر کہا ہے کہ یہ حدیث قابل احتجاج نہیں ہے۔
خلاصہ:
◄ اس حدیث کی سند میں اضطراب، ضعیف راوی، اور غیر معروف افراد کی موجودگی کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے۔
◄ اگرچہ اس کا معنی فضائل کے باب میں درست ہو سکتا ہے، لیکن حدیث کے طور پر اس سے استدلال نہیں کیا جا سکتا۔