رقیہ اور راقیوں سے متعلق اہم سوالات

مصنف : محمد مقیم بن حامد فیضی, کتاب کا پی ڈی ایف لنک

سلفیوں کو علامہ کی نصیحت

بسم الله، والحمد لله، والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه ومن اهتدى بهداه أما بعد :

علامہ ربیع بن هادی مدخلی حفظہ اللہ جھاڑ پھونک کی راہ پکڑنے والے سلفیوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

آپ لوگوں میں بھی دم اور جھاڑ پھونک کرنے والے ( رقاة ) ہیں؟ واللہ !

میں سلفیوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس دروازے میں داخل نہ ہوں ، نہ اس کام کے لئے اپنا تقرر کریں۔

البانی، ابن باز، ابن عثیمین ، کیا ان سب لوگوں نے خود کو ان چیزوں کے لئے مخصوص کیا تھا ؟ سلف :

صحابہ، تابعین، ائمه هدی ،احمد ، مالک ، شافعی ؟ کیا ان لوگوں نے اسی طرح خود کو متعین و مخصوص کر رکھا تھا ؟! آپ آخر کہاں جا رہے ہیں؟ ہم کہتے ہیں:

سلف سلف، ہم سلفی ہیں، اس کے بعد یہ چیزیں ایجاد کریں ! رقیہ ( جھاڑ پھونک ) جائز ہے مگر ان طریقوں پر نہیں ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو برکتوں سے نوازے۔ بچے اہل اتباع بینے، ان چیزوں کو چھوڑ دیجئے جو دعوت کی شبیہ کو داغدار کرتی ہیں اور اس کے حاملین کے ناموں پر بٹہ لگاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو برکتوں سے نوازے۔

جب کوئی آپ سے رقیہ کا طالب ہو، آپ رقیہ کر دیں، یا وہ کہیں اور چلا جائے بس بات ختم، شفا اللہ کے ہاتھ ہے؛ اللہ عز وجل اسے شفادے گا اور وہ خودا خلاص کا مظاہرہ کرے اپنے لئے خود ہی وہ دعائیں پڑھے، اللہ تعالیٰ اس کے لئے راستہ نکال دے گا :

(وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ)

[الطلاق: ۲-۳]

’’جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے چھٹکارے کی شکل نکال دیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہ ہو۔‘‘

سوال :

شیخ صاحب ہمیں ڈر ہے کہ عوام جادو گروں اور شعبدہ بازوں کے پاس چلے جائیں گے؟

جواب :

جانے دیجئے جائیں اور واپس نہ آئیں، آپ کو کس نے مکلف کیا ہے؟ آپ خود کو بگاڑ لیں اپنی زندگی اور دین تباہ کر لیں ؛ صرف اس وجہ سے کہ لوگ جادوگروں کے پاس چلے جائیں گے! آپ رقیہ کریں گے؟ رقیہ کے لئے اپنا تقرر کرلیں گے؟

سائل :

نہیں۔ شیخ وہ خود ہمارے پاس آتے ہیں۔

شیخ :

چھوڑ وچھوڑو! وہ اس لئے آپ کے پاس آتے ہیں کہ آپ نے رقیہ کے لئے اپنا تقرر کر لیا ہے؛ آپ اس چیز کو ترک کر دیجئے ۔ اللہ آپ کو برکتوں سے نوازے۔ لوگوں کو اللہ عزوجل کے لئے چھوڑ دیجئے ۔

تکلف سے باز آئیں :

(وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ)

[ ص:۸۲ ]

’’میں تکلف کرنے والوں میں سے نہیں ہوں“۔

مدینہ کے ایک راقی کو علامہ کی نصیحت :

مدینہ کے پہلے راقی کی بھی یہی دلیل تھی ۔ وہ ہمارا رفیق تھا، بہت عمدہ سلفی تھا، مسجد نبوی میں درس دیتا تھا، واللہ ! وہ شخص مدینہ کے بہت سے صوفی نو جوانوں پر اثر انداز ہوا تھا، دوسروں پر بھی اس نے بہت اچھا اثر قائم کیا تھا، پھر اس کے پاس شیطان آگیا! واللہ ! اس میدان میں آنے سے پہلے اس نے مجھ سے مشورہ کیا تھا۔ کیونکہ وہ میرا دوست اور میرا رفیق تھا۔ اس نے مجھ سے مشورہ کیا تھا اور کہنے لگا:

اے شیخ ربیع ! میں نے فلاں کو رقیہ سکھا یا، اب وہ رقیہ کرتا ہے اور پیسے لیتا ہے، کبھی کبھی تو ایک ایک رقیہ کا ۱۴ ہزار ( ریال ) لیتا ہے!! میں نے اس سے کہا:

دیکھو اس راستے پر مت جاؤ میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں۔ اس نے جواب دیا:

واللہ! مجھے لوگوں کے متعلق شعبدہ بازوں اور جادوگروں کا خوف ہے، میں نے کہا: واللہ اتم اس کے ذمہ دار نہیں ہو، میں نے اس سے پوچھا:

کیا تمہیں جادو گروں اور شعبدہ بازوں پر قدرت نہیں ہے؟ اس نے جواب دیا ہے، میں نے اس سے کہا:

تم بھی وہی کرو جو اللہ عزوجل کی طرف دعوت دینے والے دعاۃ نے کیا ہے۔

عقیدہ توحید کے استحکام اور مضبوطی سے جنات اور شیطان دور بھاگتے ہیں :

جب شیخ قرعاوی ہمارے پاس اس خطے میں آئے تو بہت سے لوگ صاحب فراش مریض تھے بستر سے اٹھ نہیں سکتے تھے، اس کی وجہ کیا تھی ؟ جنات ، زار ( خبیث روحوں کا چکر ) ، اور یہ اور وہ، جب وہ راتوں کو نکلتے تو انہیں درختوں پر اور راہوں میں اور ایسے اور ویسے جنات ملا کرتے تھے۔ شیطان ان پر مسلط رہتے تھے۔ وہ جاہل لوگ تھے ان کے پاس توحید نہیں تھی ۔ پھر وہ تشریف لائے اور انھوں نے توحید کی نشر واشاعت شروع کی ، نہ کوئی رقیہ اور دم جھاڑا کیا نہ کچھ اور۔ اللہ آپ کو برکتوں سے نوازے۔ یہ سب چیزیں ختم ہو گئیں ہاں جب تو حید اور علم کی نشر واشاعت ہوئی تو سب کچھ جاتارہا، جب توحید اور علم کی نشر واشاعت ہوتی ہے تو یہ چیزیں خود بخود در خصت اور زائل ہو جاتی ہیں، اور جب جب جہالت بڑھتی ہے جادوگروں، کاہنوں اور شیطانوں کی کثرت ہو جاتی ہے والخ۔ اس کام میں جادوگروں، کاہنوں اور شیطانوں کے درمیان تعاون ہوتا ہے۔ میں نے اسے نصیحت کی کہ دیکھو بھائی تم بھی وہی کر وجو دعوت توحید کا کام کرنے والے اور شرک وخرافات کے خلاف محاذ قائم کرنے والے مصلحین نے کیا ہے، شیاطین خود بخو درفو چکر ہو جائیں گے، لوگوں کو شیطانوں اور جادوگروں وغیرہ سے بچنے کے لئے رقیہ کی کوئی حاجت ہی نہیں رہے گی، مگر وہ نہیں مانا اور اس نے رقیہ کا کام شروع کر دیا۔ اللہ آپ کو برکتوں سے نوازے۔!

پیشہ وارانہ مقابلہ آرائی کے بعد :

اس کے بعد جناب کے کمپیٹیشن اور مقابلے میں کئی لوگ کھڑے ہو گئے: ایک ریاض میں ہے، دوسرا تبوک میں ، تیسرا جدہ میں ۔ تب اس نے اخبار میں لکھا کہ شیطان انسان کے اندر داخل ہی نہیں ہوتا ہے!!

اور جب وہ رقیہ کرتا تھا تو انسان کو بری مار مارتا تھا، اس سے کہتا تھا: نکل ۔ اے اللہ کے دشمن نکل ! یعنی اس بات کا معترف تھا کہ شیطان انسان کے اندر داخل ہوتا ہے !! پھر جب اس کے پیشہ ورانہ رقیبوں کی کثرت ہوگئی تو اس نے کہا:

شیطان انسان کے اندر داخل ہی نہیں ہوتا!! فنکاریاں اور حیلے ہیں۔ اللہ آپ کو برکتوں سے نوازے۔

رقیہ میں بھی رسول کی اتباع ضروری ہے :

رسول کی اتباع :

آپ بھی وہی کریں جو انھوں نے کیا ہے، تکلف نہ کریں، اللہ عزوجل کے ساتھ اخلاص رکھیں، اللہ عزوجل سے دعا کریں، اللہ عز وجل آپ کو نفع دے گا۔ بہتر طریقہ محمد ﷺ کا طریقہ ہے، رقیہ کے سلسلے میں بھی ان کا طریقہ موجود ہے، توسع نہ اختیار کیجئے ، عقیدہ، علم، عمل ہر چیز میں آنحضرت علیہ الصلاۃ والسلام – کا طریقہ ہی اپنائیے، یہاں تک کہ رقیہ میں بھی انہیں کی راہ چلے ، ایسی کسی چیز کا تکلف نہ کیجئے جو رسول علیہ الصلاۃ والسلام نے نہ کی ہو۔‘‘

رقیہ کے لئے خود کو فارغ کر لینے والا اپنے دین میں متہم ہے :

اسی مقالے میں جو رقیہ اور رقاۃ کے متعلق سوال و جواب کا مجموعہ ہے ایک جگہ فرماتے ہیں: ” رہے وہ لوگ جو رقیہ ہی کے لئے خاص ہو رہتے ہیں اور اسی میدان میں خود کو مشہور کرتے ہیں، بلکہ بعض لوگ تو اخباروں میں بھی اپنا اشتہار دیتے ہیں! کچھ لوگ سینٹر کھول کر بیٹھ رہتے ہیں! یہ سب فریبی اور چالباز لوگ ہیں ! اللہ جو رقیہ کے لئے اپنا تقرر کر لیتا ہے وہ تہم ہے، وہ اپنے دین میں متہم ہے، آخر کس چیز نے اسے اس بات پر آمادہ کیا ہے؟! میرے بھائی! آپ بھی جملہ مسلمانوں میں سے ایک فرد ہیں، کون سی خصوصیت آپ کے اندر آگئی ہے؟ اس امت میں بہت سے لوگ آپ سے زیادہ متقی ، آپ سے افضل اور آپ سے زیادہ علم رکھنے والے ہیں … والخ ۔ آپ کو یہ خصوصیت کیسے حاصل ہو گئی ؟!! پھر آپ رقیہ شرعی پر اکتفا بھی نہیں کرتے بلکہ نئی نئی چیزوں کی ایجاد میں لگ جاتے ہیں !! اللہ تعالیٰ سب کو (نیک) توفیق دے۔

راقیوں کی بے حیائی اور تجربات میں غیر شرعی توسع :

شیخ سے ایک سائل نے پوچھا :

ہمارے پاس ایک راقی ( جھاڑ پھونک کرنے والا) ہے جو آسیب زدہ خاتون سے کہتا ہے کہ وہ اپنی آگے پیچھے کی شرمگاہ اور چھاتیوں کی گھنڈیوں اور ہونٹوں پر مشک رکھ لے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس طرح کرنے پر جو جن اس پر سوار ہے اس کے ساتھ جماع نہیں کر سکے گا اور کہتا ہے کہ یہ خود اس کا مجرب طریقہ ہے جو تجربے سے ثابت شدہ ہے، کیا اس کا یہ کرنا درست ہے؟ آپ ہمیں مستفید فرما ئیں۔ اللہ آپ کو برکتوں سے نوازے۔

جواب:

جادو ایک حقیقت ہے مگر اذن الہی کے بغیر کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا ہے، اور ساری ہی چیز یں اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر نہ واقع ہوتی ہیں نہ نقصان پہنچاتی ہیں۔ اور ان کا۔ یعنی جادو، نظر اور زہریلی چیزوں کے ڈنک کا۔سب سے موثر علاج قرآن وسنت سے رقیہ شرعیہ کرنا ہے، بشرطیکہ صدق و اخلاص متوفر ہو؛ کیونکہ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان کے پاس اللہ سبحانہ وتعالیٰ پر بھروسہ ہی نہیں ہوتا ہے ممکن ہے اس کے یہاں ۔ معاذ اللہ۔ کچھ بدلنی اور بدگمانی بھی پائی جاتی ہو، بیبھی ہو سکتا ہے کہ راقی ( جھاڑ پھونک کرنے والا ) خود ہی دجال کذاب ہو، قرآن کو استعمال ہی میں نہ لاتا ہو، بلکہ دوسرے حیلوں کا سہار ا لیتا ہو!

رقیہ کے لئے خود کو فارغ کر کے تشہیر کرنا دجل و فریب اور عیاری ہے :

بہت سے لوگ رقیہ کے کام پر لگے ہوئے ہیں، اس کے لئے خود کو خاص کر لیا ہے، اپنا اعلان دیتے رہتے ہیں اور ان کے متعلق اس بات کی نشر و اشاعت ہوتی رہتی ہے کہ ماشاء اللہ ! جناب راقی ہیں !!

بہت سے لوگوں نے خود کو رقیہ ( جھاڑ پھونک ) اسپیشلسٹ بنالیا ہے، وہ لوگ خود کو اس کام کے لئے مخصوص و متعین کر کے اپنے متعلق اعلان کرتے ہیں اور ان کے متعلق شہرت دی جاتی ہے کہ صاحب ما شاء اللہ راقی ہیں !! یہ شعبدہ بازی، دجل وفریب اور عیاری کے کاموں میں سے ہے، اور لوگوں کا مال باطل کے ساتھ کھانے کے زمرے میں آتا ہے، ایسے افراد لوگوں کے لئے کچھ مفید نہیں ہوتے ، ان کا اعتماد زیادہ تر حیلوں پر ہوتا ہے، یہ کھوکھلا اسلوب ہے!!

ذرا دیکھو تو سہی یہ کہتا ہے کہ اس کے پاس ایک عورت آتی ہے، دوسری آتی ہے، تیسری آتی ہے! اور وہ ایسے خسیس انداز میں اسے مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے:

اپنی آگے کی شرمگاہ پر رکھ لو. پیچھے کی شرمگاہ پر رکھ لو! بد خلق کہیں کا یہ بر با شخص ہے ! میں اس شخص کو نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرے اور رقیہ بازی چھوڑ دے۔

کوئی بھی مسلم مخلص ہو صادق ہو نیکی اور تقوی سے موصوف ہور تقیہ کر دے ، مگر خود کو رقیہ اسپیشلسٹ نہ بنائے ،لوگوں میں یہ اعلان نہ کرے کہ وہ راقی (دم جھاڑا کرنے والا) ہے اور اس کے پاس دور اور نزدیک سے آنے والے مردوں عورتوں کا جمگھٹا لگارہے، یہ ہرگز مشروع نہیں ہے رسول نے اس طرح اپنا تقررنہیں کیا تھا وہ اپنا بھی رقیہ کرتے تھے اور ضرورت پڑنے پر دوسروں کا بھی ، مگر آدمی خود کو اس کام کے لئے مخصوص کر لے اور منصب افتا کی طرح۔ منصب رقیہ پر فائز ہو جائے تو یہ سراسر غلط ہے، بالخصوص جبکہ وہ اس طرح کے اسلوبوں کا سہارا لیتا ہو جن سے سوء قصد و ارادہ اور حماقت کا پتہ چلتا ہے۔

علاج میں تکلف سے گریز اور شریعت کی پابندی لازم ہے :

اے بھائی! علاج کرو مگر تکلف نہ کرو (وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ ) ( ص:۸۶) میں تکلف کرنے والوں میں سے نہیں ہوں ۔ رسول نے آپ کو قرآن سے رقیہ بتایا ہے ، سنت سے رقیہ بتایا ہے، سب معاملے اللہ عزوجل کے ہاتھ میں ہیں، بس آپ مشروع سبب کو کام میں لائیں حیلوں اور تیج تجربوں اور کھوکھلی باتوں کا سہارا نہ لیں۔

رسول کی سچی اتباع یہی ہے کہ رقیہ میں ایجادات نہ کی جائیں :

رسول کی سچی اتباع یہی ہے کہ تم بھی ویسا ہی کرو جیسا رسول نے کیا ہے اور جس طور کیا ہے، اس میں کچھ تبدیلی نہ کرو، نہ کیفیت میں، نہ صفت میں نہ اور کسی چیز میں، ویسا ہی کرو جیسا انھوں نے کیا ہے، نماز پڑھو رسول کی نماز کی طرح، حج کرو رسول کے حج کی طرح، اور جیسا کہ تم ہر چیز میں ان کی پیروی کرتے ہو، اور انہیں کے عمل جیسا عمل کرتے ہو ۔ جہاں تک اس باب میں۔ یعنی رقیہ کے باب میں۔ ایجادات اور اس طرح کے کام کرنے کا معاملہ ہے تو اس میں کوئی لزوم نہیں ہے۔ جب قرآن سے آپ کے رقیہ نے فائدہ نہ دیا، آپ نے قرآن سے رقیہ کیا نفع نہیں ہوا، سنت سے رقیہ کیا فائدہ نہیں ہوا؛ ہوسکتا ہے جس کا رقیہ کیا جارہا ہے اس میں کچھ خلل ہو، یا کوئی ایسی بات ہو جو اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادے کے تحت آتی ہو، پھر آپ کو دوسرے وسائل کی طرف جانے کی کیا ضرورت ہے، کیوں آپ دوسری چیزیں ایجاد کر رہے ہیں؟! کس نے آپ کو مکلف کیا؟ آخر مال کی محبت شہرت کی چاہت اور کھوکھلی باتوں کے سوا اس کے پیچھے اور کونسا جذبہ کارفرما ہے؟! میں کسی کو جھاڑ پھونک نہیں کرتا ہوں اور انہیں لوگوں کے کرتوتوں کی وجہ سے رقیہ کو نا پسند کرنے لگا ہوں جنھوں نے لوگوں کا مال کھانے کے لئے خود کور قیہ اسپیشلسٹ بنا رکھا ہے اور اس طرح کے اسلوبوں اور حیلوں کا سہارا لیتے ہیں !!

اگر واقعی سلفی ہو تو رقیبہ میں شہرت طلبی سے دور رہو اور رقیہ کے اجارہ دار نہ بنو :

اگر یہ شخص سلفی ہے تو میں اسے نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اللہ عزوجل سے ڈرے اور شہرت طلبی سے کنارہ کش ہو جائے اور رقیہ کے لئے خود کو متعین ومخصوص نہ کرے، اس طریقے سے منہ موڑ لے۔ آپ مسلمانوں میں سے ایک فرد ہیں، کسی انسان کو آپ کی ضرورت ہوتی ہے تو شرعی طریقے سے اس کا رقیہ کر دیجئے، بس اتنا کافی ہے، اس کے بعد دوسروں کو موقع دیجئے ، رقیہ کے ذخیرہ اندوز نہ بنیں۔ اللہ آپ کو برکتوں سے نوازے۔ یہ ذخیرہ اندوزی بدنیتی کی دلیل ہے۔ معاشرے میں آپ سے افضل لوگ موجود ہیں، اور ان کی دعائیں آپ کی دعاؤں سے زیادہ قبول ہوتی ہیں ؛ پھر آپ اس منصب پر کنڈلی مار کر کیوں بیٹھ رہیں اور اس طرح کے وسائل کا سہارا لیں؟! میں ان صاحب کو نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈریں سبیل المؤمنین کی پیروی کریں اور رسول علیہ الصلاۃ والسلام کی سنتوں کی اتباع کریں، خود کو رقیہ کے منصب پر فائز نہ کریں، ان چیزوں کا تکلف نہ کریں اور دوسروں کو بھی موقع فراہم کریں، جس مسلمان کے اندر خیر ہو تقوی ہو اس کی دعا کی قبولیت متوقع ہے، جب وہ قرآن پڑھے، دعا کرے تو اسے قبولیت حاصل ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو قبول کرے گا، اور اس کے سبب سے۔ اس کے اخلاص وصدق کے سبب سے۔ اور اس مریض کی شفا کے لئے اس کے اختیار کردہ شرعی وسیلہ کے سبب سے اللہ تعالیٰ شفا دے دے گا۔

سوال :

کیا رقیہ میں تجربہ کی گنجائش ہے :

جواب :

تجربہ طب میں ہوتا ہے ، طبابت تجربوں پر قائم ہے اور رقیہ میں بہتر یہی ہے کہ مسلمان صرف رقیہ شرعیہ پر اکتفا کرے، اور جہاں تک تجربوں کی بات ہے تو پہلی بات یہ ہے کہ آپ کو پتہ کیسے چلے گا اور آخر یہ تصور آپ کے ذہن میں آیا کہاں سے؟

سوال :

کیا مسلمان جن کو مخاطب کرنا جائز ہے؟

جواب :

ناجائز ہے۔ آپ کو کیسے پتہ چلے گا کہ وہ مسلمان ہے؟ ہو سکتا ہے کہ وہ منافق ہو اور کہتا ہو کہ میں مسلمان ہوں! ہو سکتا ہے کہ کا فر ہو اور کہتا ہو کہ میں مسلمان ہوں! جن کو تو آپ جانتے نہیں ہیں، آپ کو تو غیب کا علم ہے نہیں، اللہ آپ کو برکت دے یہ جائز نہیں ہے۔ ایک انسان آپ کے سامنے اسلام کا دعوی کرتا ہے آپ اس کے ظاہر کو لے لیتے ہیں ، آپ دیکھتے ہیں کہ وہ آپ کے سامنے نماز پڑھتا ہے اور .. ور … پھر بھی آپ اسے نہیں جانتے مگر ایک جن کسی انسان کے اندر داخل ہوتا ہے وہ آپ سے کہتا ہے میں مسلمان ہوں، ہو سکتا ہے کہ وہ فاجر ہو، بس آپ سے کہتا ہو کہ میں مسلمان ہوں! یہاں تکلف کا کوئی داعیہ نہیں ہے، آخر میرے بھائی آپ کو مکلف کس نے کیا؟! یہاں بہت سے ہاسپٹل کھلے ہوئے ہیں مریض اگر صبر کرے گا تو اللہ عز وجل اسے ثواب دے گا۔

ایک نا بینا نبی ﷺ کے پاس آتا ہے اور اپنے لئے شفاء کی دعا کا طلبگار ہوتا ہے آپ اس سے فرماتے ہیں:

اگر تم چاہو تو میں تمہارے لئے دعا کر دوں اور اگر چاہو تو تم صبر کرلو، اور ایک لونڈی آپ کے پاس آتی ہے اور عرض کرتی ہے :

اے اللہ کے رسول مجھ پر دورہ پڑتا ہے، آپ میرے لئے دعا کر دیجئے تو آپ اس سے فرماتے ہیں:

اگر تم چاہو تو میں تمہارے لئے دعا کر دوں اور اگر چاہو تو صبر کرو اور تمہیں جنت ملے۔ دیکھو یہاں کوئی تکلف نہیں ہے! کیا آپ رسول اللہ ﷺ سے زیادہ رحیم ہیں؟ اللہ اپنے بندوں کو بیماریوں سے آزماتا ہے، کسی بھی مومن کو کوئی بھی تھکان ہم اور مشکل در پیش ہوتی ہے یہاں تک کہ اگر فکر مندی بھی اس سے لاحق ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے اس کے گناہوں کا کفارہ کر دیتا ہے۔

رقبہ طلب کرنا مکروہ ہے اس سے تو کل میں اور ایمان میں نقص پیدا ہو جاتا ہے

ہاں صاحب! مومن کو تو بیماریوں کا سامنا ہوتا ہی ہے اور اسے ثواب سے نوازا جاتا ہے ، شرط یہی ہے کہ وہ صبر کرے:

(وَبَشِّرِ الصَّبِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَبَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ)

[البقرہ: ۱۵۵-۱۵۶]

’’اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے جنہیں ، جب کبھی کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں“۔

مثلاً اس طرح کی بیماریاں جب لاحق ہوتی ہیں تو صبر کرتے ہیں۔

اور رسول علیہ الصلاۃ والسلام ان ستر ہزار لوگوں کے متعلق جو جنت میں داخل ہوں گے فرماتے ہیں :

’’ لا يسترقون ولا يكتوون، وعلى ربهم يتوكلون‘‘

’’نہ وہ رقیہ طلب کرتے ہیں، نہ دغواتے ہیں اور اپنے رب پر توکل کرتے ہیں“۔

کسی سے رقبہ طلب نہیں کرتے ۔ اور یہ جو رقیہ طلب کرنے جاتا ہے اور ایسا اور ویسا تو اس کے ایمان میں نقص پیدا ہو جاتا ہے، اللہ عز وجل پر اس کا تو کل کم ہو جاتا ہے، اسے یہ باتیں بتادو اور اس سے کہو کہ میاں صبر کرو اور رقبہ طلب نہ کرو، اور اللہ سے التجا کرو، اللہ عز وجل سے دعا کرو، کیونکہ رقیہ ایک طرح کا سوال ہے اس لئے وہ اللہ عزوجل کے توکل کے مسئلے پر اثر انداز ہوتا ہے، اس لئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا:

’’ لا يسترقون‘‘ ’’وہ رقیہ طلب نہیں کرتے ہیں‘‘ کیونکہ رقیہ ایک سوال ہوتا ہے جس سے اس کے ایمان میں کمی ہو جاتی ہے، اس کے تو کل میں نقص واقع ہو جاتا ہے۔

مومن تو اس زندگی میں بیماریوں ،تکلیفوں اور مصیبتوں سے دو چار ہوتا ہی رہتا ہے، جس کا فائدہ اسے یہ ملتا ہے کہ اگر وہ صبر کرے تو اس کے درجات بلند ہو جاتے ہیں، اللہ آپ کو برکت دے:

’’إن الله إذا أحب قوما ابتلاهم فمن صبر؛ فله الصبر، ومن جزع فله الجزع‘‘

’’جب اللہ تعالی کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو انھیں آزماتا ہے پھر جو صبر کرتا ہے تو اس کے لئے صبر ہے اور جو گھبراہٹ کا مظاہرہ کرتا ہے اس کے لئے گھبراہٹ ہے۔‘‘

چنانچہ پہلی بات تو یہ ہے کہ مومن کو اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر صبر کرنا چاہئے اور اگر بلند ہوکر اللہ عزوجل کے فیصلے پر رضا کے درجے تک پہنچ جائے تو یہ تو ان شاء اللہ ایمان کے اعلیٰ ترین درجات میں سے ہے ، ہاں بھائی صبر واجب ہے اور جزع فزع حرام ہے، اس لئے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی تقدیروں پر جزع فزع کا اظہار نہ کرو:

(قُل لَّن يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللهُ لَنَا)

[التوبه :۵۱]

آپ کہہ دیجئے کہ ہمیں سوائے اللہ کے ہمارے حق میں لکھے ہوئے کہ کوئی چیز پہنچ ہی نہیں سکتی۔ اگر اللہ چاہے گا کہ آپ کو شفاء نہ ملے تو نہ آپ کو کوئی رقیہ فائدہ دے گا اورنہ کوئی چیز ہر چیز اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ارادہ اور مشیت سے ہوتی ہے، اسی لئے مومن سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کے قضا و قدر پر ایمان رکھتے ہوئے اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی پر اعتماد کرتا ہے اور اس پر صبر کرتا ہے۔ اللہ آپ کو برکت دے۔ پھر اگر وہ شخص دوا کرنا چاہے تو دوا کرائے اور اگر رقیہ کرانا چاہے تو ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ حرام ہے مگر وہ مکروہ ضرور ہے ۔ اللہ آپ کو برکت دے ۔ اس سے اس کا درجہ کم ہو جائے گا۔

اور جو شخص رقیہ پر اُتارو ہو جاتا ہے اور اپنی تشہیر کا کام کرتا ہے بلکہ بعض لوگ اخباروں میں بھی اشتہار دیتے ہیں! اور بعض لوگ دفاتر کھول کر بیٹھ رہتے ہیں، یہ سب کے سب عیار اور فریبی ہیں، اللہ کی قسم جو رقیہ کے لئے اپنا تقرر کر لیتا ہے وہ اپنے دین میں متہم ہے۔ آخر اس بات پر اسے کونسی چیز آمادہ کرتی ہے؟! آپ اے برادر! سارے مسلمانوں میں سے ایک فرد ہیں، آخر آپ میں کونسی خصوصیت آگئی ہے؟ اس امت میں آپ سے زیادہ متقی ، آپ سے افضل ، اور آپ سے زیادہ جاننے والے موجود ہیں … والخ.

آخر آپ کے پاس یہ خصوصیت کیسے آگئی؟ پھر آپ رقیہ شرعیہ پر اکتفا بھی نہیں کرتے ، بلکہ نئی نئی چیزیں ایجاد کرنے چلے جاتے ہیں !!

سوال :

پانی پر قرآن پڑھنے کا کیا حکم ہے؟

جواب :

نہیں پڑھنا چاہئے ، اگر چہ بعض علماء اس کے قائل ہیں، اس کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ نہ رسول اللہ ﷺ نے یہ کیا ہے نہ صحابہ نے کیا ہے ۔ اللہ آپ کو برکت دے یہ لوگ جو لکھنے کو، اور بعض چیزوں کو ، اور دھونے کو ، اور اس طرح کی اشیاء کو جائز ٹھہراتے ہیں ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ، جبکہ اصول یہ ہے کہ رسول علیہ الصلاۃ والسلام کے سوا ہر ایک کی کچھ باتیں قابل اخذ ہوتی ہے اور کچھ باتیں رد کر دی جاتی ہیں۔

وفق الله الجميع لما يحب ويرضى وصلى الله على نبينا محمد وعلى آله وسلم.

(یہ اقتباسات اسنلة مهمة حول الرقية والرفاة ، تفريغ احمد الديواني و مراجعہ فواز الجزائری سے لئے گئے ہیں)

وہ علماء جو رقیہ کے لئے تفرغ یار قی سینٹر یا کلینک کے مخالف ہیں اور انھیں غیر شرعی کام سمجھتے ہیں

❀ محدث عصر و امام زمانہ علامہ محمد ناصر الدین البانیؒ

(رقیہ کو پیشہ بنانے کے سخت مخالف ہیں اور مختلف فتووں میں پیشہ ور راقیوں پر سخت نگیر کی ہے)

❀ محدث دیار ہند یہ علامہ عبید اللہ مبارکپوریؒ

(صاحب مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح) (رقيہ کو پیشہ بنانے کے مخالف ہیں۔ دیکھئے : فتاوی شیخ الحدیث مبارکپوری: ۳۴/۱ ، ۳۸/۱ و غیره)

❀ معالى الشيخ الدكتور صالح بن فوزان بن عبد الله الفوزان

(عضو هيئة كبار العلماء و عضو اللجنة الدائمة للافتاء ) ( متعد د فتووں میں رقیہ کو پیشہ بنانے اور رقیہ سینٹر کھولنے کو ناجائز بتایا ہے )

❀ فضیلة الشیخ علامہ محدث ربیع بن هادی المدخلی حفظہ اللہ

سابق رئيس قسم السنة جامعه اسلامیه مدینه منوره

سابق ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ شعبہ حدیث اسلامک یونیورسٹی مدینہ منورہ

(پیشہ ور راقیوں اور رقیہ میں ایجادات کے سخت مخالف ہیں اور رقیہ سینٹر کھولنے والوں کو فریبی اور چالباز قرار دیتے ہیں)

❀ سماحتہ الشيخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن محمد آل الشیخ حفظہ اللہ

مفتی اعظم مملکت سعودی عرب (رقیہ میں توسیع سے روکا ہے اور اسے ہر فرد کے لئے متروک بتایا ہے اور رقیہ سینٹ کھولنے کو مبالغہ آرائی اور رقیہ کو اس کی شرعیت سے نکال دینے کا سبب بتایا ہے) (دیکھئے: https://goo.gl/HxKihf)

❀ معالى الدكتور عبد الرحمن بن عبد اللہ بن محمد السند

الرئيس العام لهيئة الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر في السعودية و مدير الجامعة الإسلامية بالمدينة المنورة سابقا

( دیکھئے: اُن کی کتاب أحكام الرقية الشرعية )

(پیشہ ور راقیوں کے منکرات کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے اور رقیہ کے لئے تفرغ کی مخالفت کی ہے)

❀ معالي الدكتور اشیخ صالح بن عبد العزیز بن محمد آل الشیخ حفظہ اللہ

سابق وزیر الشئون الاسلامیہ مملکت سعودی عرب اپنی کتاب الاجوبة والبحوث والمدارسات المشتملة عليها الدروس العلمية تحت عنوان الرقية الشرعية وضوابطها (ج: اص: ۸۵) میں رقیہ کو پیشہ بنانے والوں کو روکنے اور انھیں سزا دینے کو واجب بتایا ہے

❀ فضیلۃ الشیخ صالح السحیمی حفظہ اللہ

أستاذ مشارك في كلية الدعوة وأصول الدين قسم العقيدة بالجامعة الإسلامية بالمدينة النبوية

(رقیہ کے پیشہ بنانے کو بدعت قرار دیا ہے اور رقیہ کے منکرات پر سخت نکیر کی ہے)

(دیکھئے: https://youtu.be/qGiay OAuMUs نیز دیکھئے: بعض الأخطاء المتعلقة بالرقية والرقاة)

❀ فضیلتہ الشیخ دكتور محمد بن علی البار

عضوء الكلية الملكية للاطباء بلندن وخبير في المجمع الفقهى الاسلامي لرابطة العالم الاسلامي، مجمع الفقه الاسلامي في منظمة المؤتمر الاسلامي۔

(دیکھئے : كتاب الرقية النافعة للأمراض الشائعة کی تقریظ میں راقیوں پر نکیر : ص ۲۴)

❀ فضیلۃ الشیخ ابو عبد المعز محمد علی فرکوس الجزائری حفظہ اللہ

اپنی کتاب المنية في توضيح ما أشكل من الرقية ص: ۵۲ پر رقیہ کو پیشہ بنانے سے روکا ہے۔

❀ فضیلۃ الشیخ محمد بن ابراہیم شقرة حفظہ اللہ (شاگرد علامہ ابن باز و علامہ البانی)

الرقية الشرعية من الكتاب والسنة النبوية تاليف محمد بن يوسف الحوراني (ص۱۵)

میں رقیہ کو پیشہ بنانے پر سخت نکیر کی ہے۔

❀ فضيلة الشيخ/ د. ناصر بن عبد الکریم العقل حفظہ اللہ

أستاذ العقيدة والمذاهب المعاصرة بكلية أصول الدين بجامعة الإمام محمد بالرياض

(دیکھئے ان کا طویل محاضرة بعنوان: الرقية ما لها وما عليها / المكتبة الشاملة)

❀ عبد اللہ بن عبد الرحیم البخاری حفظہ اللہ

أستاذ مشارك في قسم فقه السنة ومصادرها في كلية الحديث الشريف والدراسات الإسلامية جامعه اسلاميه مدینه منوره

(دیکھئے ان کی کتاب: صفة الرقية وأخطاء الرقاة)

❀ فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر اسماعیل المقدم مصری حفظہ اللہ

( رقیہ کے پیشہ بنانے کو دین کے نام پر چلنے والا ایک خبیث شکار قرار دیا ہے اور پیشہ وراقیوں پر سخت نکیر کی ہے، اپنے محاضرات وقفة مع الجن میں دیکھئے : المكتبة الشاملة دروس الشيخ محمد اسماعيل المقدم)

❀ فضیلۃ الشیخ سعید عبدالعظیم حفظہ اللہ

(اپنی کتاب: الرقيه النافعة للأمراض الشائعة میں رقیہ کے لئے تفرغ پر نکیر کی ہے : ص: ۷۹)

❀ فضيلة الشيخ محمد بن صالح الجزاع حفظہ اللہ

اپنی کتاب الأحكام الفقهية في الرقية الشرعية (ص۳۹۰) میں فرماتے ہیں:

رقیہ کو پیشہ بنانا مفاسد کا حامل ہے اس لئے رقیہ کی خاطر تفرغ جائز نہیں ہے

❀ فضیلۃ الشیخ ابوانس محمد بن فتحی آل عبد العزیز اور فضیلۃ الشیخ ابوعبدالرحمان محمود بن محمد الملاح حفظہما الله (فتح الرحمان في بيان هجر القرآن (ص ۳۳۴) رقیہ کے لئے تفرغ بہت سے مفاسد کا حامل ہے اس لئے اس کی مخالفت کی ہے اور ڈاکٹر علی نفیع علیانی نے رقیہ کے لئے تفرغ کے جو مفاسد بیان کئے ہیں ان پر اپنی موافقت کا اظہار کیا ہے)

❀ فضیلتہ اشیخ فتحی بن فتحی الجندی حفظہ اللہ

اپنی کتاب : النذير العريان لتحذير المرضى والمعالجين بالرقى والقرآن (ص ۲۴۳-۲۴۸) میں رقیہ کے لئے تفرغ اور رقیہ سنٹروں کے عمل کو دین کے نام پر خبیث شکار قرار دیا ہے۔ (ص۲۳۹) رقیہ میں بہت سے مفاسد ہیں اور الرقی لعلی نفیع علیانی کے حوالے سے انہیں نقل کر کے ان پر صاد کیا ہے )

❀ فضیلۃ الشیخ و فہد بن ضويان بن عوض الحیمی حفظه الله (استاذ جامعه اسلامیه مدینه منوره)

(اپنی کتاب : احكام الرقى والتمائم (ص ۸۱) میں فرماتے ہیں: رقیہ کے لئے تفرغ سلف صالحین کے عمل کے خلاف ہے، اس لئے رقیہ پر اجرت تولی جاسکتی ہے مگر اسے تجارتی پیشہ بنانا درست نہیں ہے اور رقیہ کی عیادات ( کلینکوں اور سنٹروں ) کو بند کر دینا چاہیے )

❀ صاحبة الفضیلہ میثاء بنت عواد الشمری حفظہا الله

النوازل في الرقية (ص۱۳۶) رقیہ کو حرفت و تجارت بنانا اور اس کے لئے کامل تفرغ اختیار کرنا غیر مشروع ہے۔

وإنما هذا من الأمور المحدثة ولا يجوز العمل به۔

یہ ایک نو ایجاد عمل ( یعنی بدعت ہے ) اور اس پر عمل جائز نہیں ہے۔

❀ فضیلۃ الشیخ / دعلی بن نفيع العلیانی حفظہ اللہ

(الرقى على ضوء عقيدة أهل السنة والجماعة رقیہ کو پیشہ بنانے اور اس کے لئے تفرغ پر طویل گفتگو کی ہے اور اس کے بارہ مفاسد ذکر کئے ہیں، دیکھئے: ص ۶۴ متعدد اہل علم نے اپنی کتابوں میں ان مفاسد کا تذکرہ کر کے رقیہ کے لئے تفرغ کو غیر مشروع قرار دیا ہے)

❀ فضیلۃ الشیخ علی بن حسن بن علی بن عبدالحمید الحلبی الاثری حفظہ اللہ (شاگرد علامہ البانی)

(برهان الشرع في اثبات المس والصرع ص:۱۹ پر رقیہ کو پیشہ بنانے اور پیشہ ور راقیوں پر نکیر کی ہے، الدکتور علی بن نفیع کے بیان کردہ مفاسد پر غور کرنے کی دعوت دی ہے)

❀ فضیلة الاستاذ الدكتور محمد بن عبد الله الصغیر حفظہ اللہ

(اپنی کتاب : توعية المرضى بأمور التداوي والرقی میں ص: ۴۹ پر پیشہ ور راقیوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے)

حسب ذیل سوالات پر غور کیجئے :

➊ رقیہ میں رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کا طریقہ کیا تھا؟

➋ کیا رسول ﷺ کے بعد صحابہ نے رقیہ میں ایجادات کئے تھے؟ کیا صحابہ کا اجتہادی رقیہ بسند صحیح موجود ہے؟

➌ کیا غیبی امور میں تجربات درست ہیں جن کی کوئی ضابطہ بندی ممکن نہیں؟

➍ کیا رقیہ میں ہمارے لئے رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کا طریقہ کافی نہیں ہے؟

➎ کیا رسول ﷺ نے دعوت الی اللہ کے لئے راقیوں کو تیار کیا تھا؟

➏ کیا رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کی اصلاح کے لئے رقیہ سینٹر قائم کئے تھے؟

➐ جب جن، جادو، جھاڑ پھونک اور تعویذ گنڈوں کی کثرت کے باوجو د رسول اللہ ﷺ نے معاشرے کی اصلاح میں راقیوں اور رقیہ سینٹروں سے کام نہیں لیا تو کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ دعوت و اصلاح کا یہ انبیائی طریقہ نہیں ہے؟

➑ جب رسول اللہ ﷺ اور صحابہ نے عقیدہ توحید کی نشر و اشاعت کو اصلاح معاشرہ اور اصلاح عقیدہ کا ذریعہ بنایا تو کیا آج ہمارے لئے یہ ذریعہ کافی نہیں ہے؟

➒ کیا صحابہ اور سلف صالحین میں سے کسی نے خود کو رقیہ کے لئے فارغ کیا تھا اور اس کو اپنا پیشہ بنایا تھا جبکہ ان میں کچھ لوگ مستجاب الدعوات بھی تھے؟

➓ کیا صحابہ اور تابعین کے دروازوں پر بھی رقیہ اور جھاڑ پھونک کرانے والوں کی بھیڑ لگا کرتی تھی ؟

تب آپ رقیہ میں سلفی کیوں نہیں بنتے ہیں؟

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
لنکڈان
ٹیلی گرام
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل