رضاعت کے مسائل

 

تحریر : فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالستار الحماد حفظ اللہ

يَحْرُمُ مِنِ الرَّضَاعِ مَا يَحْرُمُ مِنِ النَّسَبِ
”دودھ پلانے سے بھی وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب کی بنا پر حرام ہیں۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب الشَّهَادَاتِ: 2645]
فوائد :
ہمارے معاشرہ میں رضاعت کے سلسلہ میں بہت لا پرواہی اور غفلت سے کام لیا جاتا ہے حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ پینے کے رشتے کو بہت اہمیت دی ہے۔ چنانچہ ایک دوسری حدیث میں ہے :
”رضاعت کی بنا پر وہ تمام رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو ولادت کے تعلق سے حرام ہیں۔“ [سنن ابي داود/كِتَاب النِّكَاحِ: 2055]
بچے کو دودھ پلانے والی رضاعی ماں، اس کا شوہر رضاعی باپ، شوہر کا بھائی رضاعی چچا بن جاتا ہے جس طرح دودھ پلانے والی عورت سے بچے کا تعلق جڑتا ہے ویسے ہی اس کے شوہر اور عزیزوں سے بھی جڑ جاتا ہے لیکن بچے کے بہن بھائیوں کے ساتھ کوئی تعلق قائم نہیں ہوتا ہے۔
دودھ کی وجہ سے رشتے کی حرمت دو چیزوں پر موقوف ہے :
➊ بچے نے کم از کم پانچ مرتبہ دودھ پیا ہو، ایک مرتبہ پینے سے مراد یہ ہے کہ بچہ ماں کی چھاتی کو منہ میں لے کر دودھ پینا شروع کرے، پھر سانس لینے یا دوسری چھاتی کی طرف منتقل ہونے کے لئے خود بخود اسے چھوڑ دے۔ ایک یا دو دفعہ پینے سے رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔ پانچ دفعہ پینے سے حرمت ثابت ہو گی جیسا کہ احادیث میں اس کی صراحت ہے۔ [صحيح مسلم/كِتَاب الرِّضَاعِ: 3597]
➋ بچے کو دو سال کی عمر تک دودھ پلایا گیا ہو۔ اگر بڑی عمر میں دودھ پیا ہے جبکہ اس کی غذا کا انحصار صرف دودھ نہیں تو اس صورت میں دودھ پینا حرمت کے لئے موثر نہیں ہو گا جیسا کہ حدیث میں ہے۔ رضاعت وہی معتبر ہے جو بھوک کی بنا پر ہو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الشَّهَادَاتِ: 2647]
”ایک دوسری حدیث میں ہے کہ وہی رضاعت معتبر ہے جو دودھ چھڑانے کی مدت (دو سال) سے پہلے ہو۔“ [سنن ترمذي/كتاب الرضاع: 1152]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: