102-
مسلمان کو چاہیے کہ وہ احکام شرع کے سامنے سر تسلیم و رضا خم کر دے، چاہے اسے وجوب یا تحریم کی علت معلوم نہ بھی ہو، لیکن بعض احکام حرام کرنے کی علت ظاہر ہوتی ہے جس طرح سود حرام کرنے کی علت ہے، اس میں فقیر کی ضرورت سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے، اس پر قرض کا بوجھ دو چند ہو جاتا ہے، پھر اس کے نتیجے میں عداوت اور بغض جنم لیتے ہیں، سود کا عادی ہو جانے کی وجہ سے کام چھوڑ دیا جاتا ہے، سودی فوائد پر اعتماد ہوتا ہے، رزق تلاش کرنے کے لیے کوشش ترک کر دی جاتی ہے، نیز اس کے علاوہ بھی کئی بڑے بڑے نقصانات اور خرابیاں ہیں۔
[اللجنة الدائمة: 9450]
103- مسلمان کے عقیدے پر رشوت کے اثرات
رشوت اور دیگر گناہ ایمان کمزور کر دیتے ہیں، پروردگار کو غضبناک کر دیتے ہیں اور شیطان کو بندے پر، دیگر گناہوں میں مبتلا کرنے کے لیے، مسلط کرنے میں سبب بنتے ہیں، لہٰذا ہر مسلمان مرد و عورت کا فرض بنتا ہے کہ وہ رشوت اور ہر طرح کے گناہ سے بچے اور اگر ممکن ہو تو رشوت لوگوں کو واپس کر دے اور اگر مکن نہ ہو تو سچی توبہ کے ساتھ ساتھ اس مقدار کے مقابلے میں اس آدمی کی طرف سے فقیروں پر صدقہ کر دے، شاید اللہ تعالیٰ اس پر مہربانی کر دے۔
[ابن باز: مجموع الفتاوي و المقالات: 233/23]
104- رشوت کے معاشرے پر اثرات
بلاشبہ گناہ جب ظاہر ہو جائیں تو یہ معاشرے میں افتراق، افراد کے درمیان محبت کے تعلقات ختم کرنے، بغض اور عداوت پھیلانے اور اچھائی کے کاموں میں عدم تعاون کا سبب بنتے ہیں۔ رشوت اور دیگر گناہوں کے معاشروں پر قبیح ترین اثرات یہ ہوتے ہیں کہ اخلاق رذیلہ ظاہر ہونا اور پھیلنا شروع ہو جاتے ہیں جبکہ فضائل اور بلند اخلاق چھپ جاتے ہیں، رشوت، چوری، خیانت، دھوکا دہی اور جھوٹی گواہیوں کے ذریعے دوسروں کے حقوق میں دراندازی کر کے معاشرے کے افراد ایک دوسرے پر ظلم کرتے ہیں، اس طرح کی جتنی ظلم اور زیادتی کی صورتیں ہیں وہ قبیح ترین جرائم کی اقسام ہیں، یہ گناہ خدا کو غضبناک کرنے اور مسلمانوں کے درمیان دشمنی اور بغض کا بیچ بونے کا نیز عموی سزاؤں کا سبب اور موجب ہیں، جس طرح فرمان نبوی ہے:
”لوگ جب برائی دیکھیں گے اور اسے بدلیں گے نہیں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو عموی سزا دے۔“ [سنن ابن ماجه، رقم الحديث 4005]
[ابن باز: مجموع الفتاوي و المقالات: 230/23]
105- فریضہ حج ادا کرنے کے لیے رشوت دینا
اگر مسلمان نے فرض حج کر لیا ہو تو اس کے لیے نفل حج ادا کرنے کے لیے رشوت دیناجائز نہیں اور اگر اس نے فرض حج نہ کیا ہو، اور رشوت دیے بغیر کوئی چارہ نہ ہو تو اس کے لیے رخصت ہے جبکہ رشوت لینے والے کے لیے اسے لینا حرام ہے۔
[اللجنة الدائمة: 4529]