رسول اللہ کے گھر میں جماعت کروانے والی روایت کا حکم
ماخوذ: فتاوی علمیہ، جلد1، كتاب الصلاة، صفحہ 258

سوال:

ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے اطراف سے واپس آئے اور نماز ادا کرنا چاہتے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ لوگ نماز پڑھ چکے ہیں، تو آپ گھر چلے گئے اور اپنے اہلِ خانہ کو جمع کر کے ان کے ساتھ نماز ادا کی۔ کیا یہ روایت صحیح ہے؟

الجواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ روایت نہ صحیح ہے اور نہ ہی حسن۔

روایت کی سند اور اس کی تحقیق:

یہ روایت حافظ ابن عدی رحمہ اللہ نے الکامل (ج 6، ص 2398) اور امام طبرانی رحمہ اللہ نے المعجم الاوسط (ج 5، ص 304، حدیث 4598) میں نقل کی ہے۔

اس روایت کی سند درج ذیل ہے:

"الوليد بن مسلم قال اخبرنى ابو مطيع معاوية بن يحيى عن خالد الحذاء عن عبد الرحمن بن ابى بكرة عن ابيه”

شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو حافظ ہیثمی رحمہ اللہ کے قول "ورجاله ثقات” (اور اس کے راوی ثقہ ہیں) کی بنیاد پر حسن قرار دیا ہے۔
(مجمع الزوائد، ج 2، ص 45)
(دیکھئے تمام المنہ، ج 1، ص 155، مجلہ الدعوۃ لاہور، محرم 1418ھ، مئی 1997، ص 44)

روایت کے ضعف کی وجوہات:

حدیث کے اصولوں کے مطابق کسی سند کے راویوں کا ثقہ ہونا اس وقت تک روایت کے صحیح ہونے کی دلیل نہیں جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ:

◄ سند متصل ہو (یعنی تمام راویوں کا آپس میں سماع ثابت ہو)
◄ حدیث غیر شاذ ہو
◄ حدیث غیر معلول ہو (یعنی اس میں کوئی خفیہ علت نہ ہو)

1. سند کا اتصال مشکوک ہے:

اس روایت کا بنیادی راوی ولید بن مسلم ہے، جو ثقہ ہونے کے باوجود مدلس (تدلیس کرنے والے) تھے۔

شیخ البانی رحمہ اللہ خود لکھتے ہیں:
"ثم إن الوليد بن مسلم وإن كان ثقة فقد كان يدلس تدليس التسوية”
"بے شک ولید بن مسلم اگرچہ ثقہ ہیں، مگر تدلیس تسویہ کرتے تھے۔”
(السلسلۃ الضعیفۃ، ج 2، ص 81، حدیث 213)

2. تدلیس کی وجہ سے روایت قابلِ حجت نہیں:

شیخ البانی رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
"فالمحققون لا يحتجون بما رواه الوليد إلا إذا كان مسلسلاً بالتحديث أو السماع”
"محققین (محدثین) ولید بن مسلم کی روایت سے حجت نہیں پکڑتے جب تک کہ وہ مسلسل تحدیث (‘حدثنا’ یا ‘أخبرنا’ وغیرہ کے ساتھ) یا سماع کی تصریح کے ساتھ نہ ہو۔”
(السلسلۃ الضعیفۃ، ج 3، ص 409-410، حدیث 1253)

اس روایت کی سند میں سماع کی تصریح نہیں ہے، اس لیے یہ حجت کے قابل نہیں۔
اسے حسن قرار دینا محققین کے اصولوں کے خلاف ہے۔

نتیجہ:

◄ یہ روایت ضعیف ہے اور اس سے کوئی شرعی استدلال نہیں کیا جا سکتا۔
◄ بغیر صحیح سند کے کسی روایت کو ثابت نہیں سمجھا جا سکتا۔
◄ محققین کے مطابق یہ روایت قابلِ احتجاج نہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

(ہفت روزہ الاعتصام، لاہور، 27 جون 1997، ج 9، شمارہ 24)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1