آیت "لاَ إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ” کا مطلب یہ ہے کہ دین کے معاملے میں کسی پر زبردستی نہیں کی جا سکتی، اور ہم اپنی دعوت میں بھی کسی کو جبراً مسلمان بنانے کی کوشش نہیں کرتے۔ اس آیت کے معنی کو مزید وضاحت سے سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آنے والے افراد کو پہلے سے آگاہ کیا جائے کہ دین اسلام میں داخلے کا راستہ کھلا ہوا نہیں ہے، یعنی ایک بار داخل ہونے کے بعد واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اسی لیے جو بھی شخص اسلام میں داخل ہونے کا فیصلہ کرے، اسے پہلے سے اچھی طرح سوچ لینا چاہیے کہ وہ کبھی پلٹنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔
منافقانہ رویے پر مجبور نہ کرنا
مرتد کے قتل کو منافقانہ روش پر مجبور کرنے کے طور پر پیش کرنا غلط ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمارا مقصد ایسے افراد کو اپنی جماعت سے دور رکھنا ہے جو مذہبی اعتقاد کو تفریح اور نظریاتی تبدیلی کے کھیل کے طور پر لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو سنجیدہ نظامِ زندگی کی تعمیر میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔
جماعت کی سنجیدگی اور نظم
کسی بھی نظامِ زندگی کی تعمیر نہایت سنجیدگی کا تقاضا کرتی ہے۔ لہذا، ایسی جماعت جو اسلام کی تعمیر کے لیے اٹھی ہو، اس میں ان لوگوں کی کوئی جگہ نہیں جو اپنے عقائد میں پختگی نہیں رکھتے۔ جماعت کو صرف ان افراد پر مشتمل ہونا چاہیے جو پوری سنجیدگی سے اسلام کو قبول کرتے ہیں اور جب اس میں داخل ہوں، تو دل و جان سے اس کے قیام اور استحکام میں لگ جائیں۔
داخلے سے پہلے احتیاط
اسی بنا پر ضروری ہے کہ جو شخص بھی جماعت میں شامل ہونا چاہتا ہے، اسے پہلے سے خبردار کر دیا جائے کہ اس جماعت سے نکلنے کی سزا موت ہے۔ اس سے وہ داخل ہونے سے پہلے کئی بار سوچے گا کہ آیا اسے واقعی اس جماعت میں شامل ہونا چاہیے یا نہیں۔ اس طرح وہ پوری اطمینان کے ساتھ اسلام کو قبول کرے گا۔
نفاق کی مذمت
ہم نفاق کو سختی سے مذموم سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہماری جماعت میں ہر شخص دل سے ایمان لانے والا ہو۔ اگر کوئی شخص اپنی حماقت سے ایک ایسے دروازے میں داخل ہوتا ہے جس کے بارے میں اسے معلوم تھا کہ یہ واپسی کے لیے کھلا نہیں ہے، تو یہ اس کا اپنا قصور ہے۔ اس صورت میں ہم اپنی جماعت کے نظم کو توڑ نہیں سکتے تاکہ اسے اس حالت سے نکالا جا سکے۔