① تحفہ قبول کرنے کے حوالے سے سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کا واقعہ
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے اہل صفہ کے لوگوں کو لکھائی اور قرآن کی تعلیم دی۔ ان میں سے ایک نے انہیں ایک کمان بطور تحفہ دی۔ انہوں نے کہا کہ یہ کوئی مال نہیں ہے اور میں اسے اللہ کے راستے میں استعمال کروں گا۔ انہوں نے اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھنے کا ارادہ کیا۔ جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر تم چاہتے ہو کہ تمہیں آگ کا طوق پہنایا جائے، تو اسے قبول کرلو۔”
(حوالہ: سنن ابی داود، کتاب البیوع؛ سنن ابن ماجہ، مسند امام احمد، السنن الکبریٰ للبیہقی، المستدرک علی الصحیحین للحاکم)
امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔
اسی واقعے کو سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے ایک اور انداز میں بیان کیا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مصروف ہوتے اور کوئی مہاجر آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے قرآن کی تعلیم کے لیے کسی صحابی کے حوالے کرتے۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہاجر کو ان کے سپرد کیا، جو ان کے ساتھ گھر میں رہنے لگا۔ سیدنا عبادہ رضی اللہ عنہ نے اس کی مہمان نوازی کی اور قرآن پڑھایا۔ جب وہ واپس گیا، تو اس نے ایک کمان بطور تحفہ دی، جس کے بارے میں سیدنا عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”یہ آگ کا انگارہ ہے جو تمہارے کندھوں کے درمیان لٹکا ہوا ہے۔”
(حوالہ: مسند امام احمد، المستدرک علی الصحیحین للحاکم)
امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کی سند کو "صحیح الاسناد” قرار دیا ہے، اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اسے صحیح تسلیم کیا ہے۔
وضاحت:
یہ واقعہ بظاہر ان احادیث کے خلاف محسوس ہوتا ہے جن سے علماء نے دینی امور پر اجرت کے جواز کا استنباط کیا ہے۔ لیکن اس حدیث میں مذکور وعید کا تعلق قرآنی تعلیم پر اجرت لینے سے نہیں ہے۔ اس حدیث کی تشریح کرتے وقت کچھ اہم نکات کو نظر انداز کیا گیا، جس کی وجہ سے استدلال میں غلط فہمی پیدا ہوئی۔ اس کی تفصیل درج ذیل ہے:
تحفہ اور اجرت کے درمیان فرق:
حدیث میں واضح ہے کہ یہ اجرت کا معاملہ نہیں بلکہ تحفے کا تھا۔ مہاجر صحابی نے بغیر کسی مطالبے کے احسان کے بدلے میں تحفے میں کمان دی تھی۔ اگر اس تحفے کو قرآنی تعلیم کا سبب قرار دے کر وعید کا باعث سمجھا جائے، تو لازم آئے گا کہ کسی معلم کو بغیر مطالبے کے تحفہ دینا ناجائز ہو گا، جو درست نہیں ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ صحابہ کرام، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جو تحائف پیش کرتے تھے، کیا وہ دینی تعلیم کی وجہ سے تھے یا کسی دنیاوی سبب کی بنا پر؟ اگر دینی تعلیم کی بنا پر تھے تو کیا وہ تحائف ناجائز ٹھہرائے جا سکتے ہیں؟ اس پر مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ وہ تحائف جائز تھے۔
تحفہ کا سبب اور نیت:
سیدنا عبادہ رضی اللہ عنہ کو دی جانے والی کمان کی مثال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیے جانے والے تحائف کی طرح ہے۔ وہاں بھی قرآنی تعلیم اور بغیر مطالبے کے تحفہ، اور یہاں بھی یہی صورت حال ہے۔ اس پر علماء کا اتفاق ہے کہ یہ تحائف جائز ہیں۔ لہذا، سیدنا عبادہ رضی اللہ عنہ کو پیش کی گئی کمان کو بھی اسی نظر سے دیکھنا چاہیے۔
علماء کی تشریح:
علامہ سیوطی رحمہ اللہ، ابو اللیث سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دینی تعلیم تین طریقوں سے دی جا سکتی ہے: پہلی قسم وہ ہے جو بغیر معاوضے کے نیکی کی نیت سے ہو، دوسری وہ جس میں اجرت لی جائے، اور تیسری وہ جو بغیر شرط کے ہو لیکن تحفہ قبول کیا جائے۔ انبیا کا عمل پہلی قسم پر تھا، جبکہ دوسری قسم میں اختلاف ہے اور تیسری قسم کو جائز سمجھا گیا ہے۔
(حوالہ: الإتقان في علوم القرآن)
علامہ محمد بن عبد الہادی سندھی رحمہ اللہ نے بھی حدیث کی یہ توجیہ کی ہے کہ اس میں تحفے کا ذکر ہے، اجرت کا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ تحفہ قبول کرنا سب کے نزدیک جائز ہے، اور اسے حرام کہنا درست نہیں۔
اصحاب صفہ کی حالت:
اصحاب صفہ نادار لوگ تھے، جو پہلے ہی دوسرے صحابہ کے صدقات پر گزارا کرتے تھے۔ ایسے طالب علموں سے کچھ لینا ان کی حالت کی بنا پر منع تھا، نہ کہ قرآنی تعلیم کی وجہ سے۔
خصوصی ہدایت:
سیدنا عبادہ رضی اللہ عنہ نے مہاجر صحابی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر تعلیم دی تھی۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے معاوضہ لینے سے منع فرمایا تھا۔ کمان کے تحفے کے وقت سیدنا عبادہ رضی اللہ عنہ کو یہی ممانعت یاد آئی، اسی لیے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا استفسار کیا۔
اہل علم کی تشریحات:
فقیہ و محدث، حافظ خطابی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ اہل صفہ کے فقر کی بنا پر ان سے مال لینا ناپسندیدہ تھا، نہ کہ قرآنی تعلیم کی بنا پر۔
(حوالہ: معالم السنن)
علامہ امیر صنعانی رحمہ اللہ نے بھی اسی طرح بیان کیا کہ صرف اہل صفہ سے اجرت یا تحفہ لینا ناپسندیدہ تھا کیونکہ وہ خود محتاج تھے۔
(حوالہ: سبل السلام فی شرح بلوغ المرام)
یہاں یہ نکتہ واضح ہو جاتا ہے کہ سیدنا عبادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں جو وعید آئی ہے، اس کا سبب دینی تعلیم پر اجرت لینا نہیں تھا۔
② قرآنِ کریم کی تلاوت پر معاوضہ
سیدنا عبد الرحمن بن شبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"قرآنِ کریم کی تلاوت کرو، اس میں غلو نہ کرو، اس سے دُوری اختیار نہ کرو، اور نہ اس کے ذریعے کھاؤ اور نہ اس کے ذریعے زیادہ مال کی خواہش کرو۔”
(حوالہ: مسند الإمام أحمد، مسند أبي یعلی الموصلي، وسندہٗ صحیحٌ)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث کی سند کو ’’قوی‘‘ قرار دیا ہے۔
(حوالہ: فتح الباري)
اس حدیث میں واضح طور پر قرآن کی قراءت کا ذکر ہے اور اسے دینی تعلیم یا امور پر اجرت لینے کے خلاف دلیل کے طور پر نہیں پیش کیا جا سکتا، کیونکہ اس میں تعلیم کے معاوضے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
قرآن کی تعلیم پر اجرت کا جواز:
قرآنِ کریم کی تعلیم اور دم کرنے کے عمل پر اجرت لینا جائز اور حلال ہے۔ جو علماء اس بارے میں گفتگو کرتے ہیں، وہ صرف قراءت کے متعلق کرتے ہیں اور اس میں بھی ان کی آراء مختلف ہیں۔ کچھ علماء اس حدیث کو ناحق طریقے سے مال حاصل کرنے پر محمول کرتے ہیں، یعنی جو شخص قرآن پڑھ کر ناحق کمائے، جیسے یہود و نصاریٰ اللہ کی آیات میں تحریف کر کے دنیاوی فائدہ اٹھاتے تھے، وہ حرام ہے۔
جب کہ دم کر کے کھانے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جائز قرار دیا ہے، اور یہ بھی معلوم ہے کہ دم کرنے میں بھی قراءت شامل ہوتی ہے۔
③ بعض قرآنی آیات سے استدلال
بعض لوگوں نے کچھ قرآنی آیات سے دینی امور پر اجرت کے جواز کے خلاف استدلال کیا ہے، جیسے کہ:
فرمانِ باری تعالیٰ:
"وَمَا اَسْاَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ أَجْرٍ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعَالَمِیْنَ”
(الشعراء 26 : 109، 127، 145، 164، 180)
’’(ہر نبی نے کافروں سے فرمایا:) میں تم سے اس تبلیغِ دین پر کسی اجرت کا سوال نہیں کرتا۔ میرا اجر تو رب العالمین ہی کے پاس ہے۔‘‘
اس اور اس طرح کی دیگر آیات دینی اُمور پر اجرت کو حرام نہیں قرار دیتیں۔ ان آیات میں کفار سے خطاب کیا گیا ہے جو دین سے بیزار تھے اور تبلیغِ دین کو سننا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ انہیں بتایا گیا کہ دین کی تبلیغ تمہیں مفت میں کی جا رہی ہے، اور تم سے کسی قسم کا معاوضہ نہیں مانگا جا رہا، پھر تم کیوں ناراض ہو؟
فرمانِ باری تعالیٰ:
"اَمْ تَسْاَلُھُمْ اَجْرًا فَھُمْ مِّنْ مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُوْنَ”
(الطور 52 : 40)
’’(اے نبی!) کیا آپ اُن سے کسی اجرت کا سوال کرتے ہیں کہ وہ تاوان کے بوجھ تلے دبے جاتے ہیں؟‘‘
لیکن مسلمانوں کا معاملہ کفار و مشرکین سے مختلف ہے۔ مسلمان تو اہل علم کی مالی مدد کو انفاق فی سبیل اللہ سمجھتے ہیں اور اس کو دین کی خدمت تصور کرتے ہیں۔ ان آیات میں صرف مفت میں تبلیغ کی بات کی گئی ہے، اور سب مفت تبلیغ کو افضل سمجھتے ہیں۔ لیکن اس سے اجرت کا حرام ہونا کیسے ثابت ہو سکتا ہے؟
ایک مثال:
اگر کوئی کاریگر اپنے محلے کے کسی لڑکے کو مفت میں کوئی ہنر سکھانے کی پیشکش کرے اور وہ لڑکا سیکھنے سے انکار کرے، تو کاریگر اسے بتائے گا کہ وہ اس ہنر کی تعلیم پر کوئی معاوضہ طلب نہیں کر رہا، پھر تم کیوں انکار کر رہے ہو؟ اس کاریگر کا یہ اقدام ضرور قابل تحسین ہو گا، لیکن اس سے ہنر سکھانے پر اجرت لینا حرام نہیں ہو جاتا۔
④ دیگر آیات سے غلط استدلال
آیت:
"وَلَا تَشْتَرُوْا بِآیَاتِیْ ثَمَنًا قَلِیلًا وَّاِیَّایَ فَاتَّقُوْنِ”
(البقرۃ 2 : 41)
’’میری آیات کے بدلے میں تھوڑی قیمت وصول نہ کرو اور مجھ ہی سے ڈرو۔‘‘
اس آیت میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم عصر اہل کتاب سے خطاب ہے، جنہوں نے اللہ کی کتاب میں تحریف کی تھی۔ وہ اللہ کی آیات کو لفظی اور معنوی طور پر تبدیل کرتے تھے، جس کے بدلے میں دنیاوی فائدے حاصل کرتے تھے۔ اس لیے انہیں تنبیہ کی گئی کہ اللہ کی آیات کے بدلے میں دنیاوی فائدے کے لیے آخرت کو تباہ نہ کرو۔
دیگر آیات کا مفہوم:
فرمانِ باری تعالیٰ:
"فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ یَکْتُبُوْنَ الْکِتَابَ بِاَیْدِیْھِمْ ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ ھٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ لِیَشْتَرُوْا بِہٖ ثَمَنًا قَلِیْلًا”
(البقرۃ 2 : 79)
’’تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں، پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے، تاکہ اس کے بدلے تھوڑی قیمت حاصل کریں۔‘‘
فرمانِ باری تعالیٰ:
"اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ الْکِتَابِ وَیَشْتَرُوْنَ بِہٖ ثَمَنًا قَلِیْلًا اُولٰئِکَ مَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُونِھِمْ اِلَّا النَّارَ”
(البقرۃ 2 : 174)
’’جو لوگ اللہ کی نازل کردہ کتاب کو چھپاتے ہیں اور اس کے بدلے تھوڑی قیمت حاصل کرتے ہیں، وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھر رہے ہیں۔‘‘
یہ آیات اہل کتاب کے عمل کی مذمت کرتی ہیں، جو دنیاوی فائدے کے لیے اللہ کی کتاب کو تبدیل کرتے تھے۔ ان سے یہ مراد نہیں کہ کتاب اللہ کی تعلیم پر اجرت لینا حرام ہے۔
امام سدی رحمہ اللہ اور امام طبری رحمہ اللہ نے بھی ان آیات کی تفسیر میں یہی بات کی ہے کہ ان میں اہل کتاب کو دنیاوی فائدے کے لیے کتاب کی آیات کو چھپانے اور ان میں تحریف سے روکا گیا ہے۔
دینی اُمور پر اجرت کے حوالے سے علماء کے اقوال:
اس آیت کی تفسیر میں امام، ابو العالیہ رحمہ اللہ کا یہ قول بھی منسوب ہے کہ: "تم اس پر اُجرت نہ لو”۔ لیکن اس کی سند میں اضطراب کی وجہ سے یہ قول ثابت نہیں۔
امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اس حوالے سے بیان کیا ہے کہ کچھ روایات میں اضطراب پایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے انہیں قبول نہیں کیا جا سکتا۔
علمائے امت کا موقف:
یہ تمام دلائل علمائے سلف اور ائمہ دین کے سامنے تھے، مگر کسی نے بھی ان آیات کی بنیاد پر دینی اُمور پر اجرت کا حرام ہونا ثابت نہیں کیا۔ اگر یہ آیات واقعی اجرت کے حرام ہونے کی دلیل ہوتیں، تو علماء سلف ضرور اس کے قائل ہوتے۔
عظیم تبع تابعی، شیخ الاسلام، عبد الرحمن بن عمرو اوزاعی رحمہ اللہ نے فرمایا:
"آپ اسلاف کے آثار کو مضبوطی سے تھامے رہیں، چاہے لوگ آپ کو چھوڑ دیں، اور بعد والوں کی آراء سے بچیں، اگرچہ وہ اپنی بات کو مزین کر کے پیش کریں۔”
(حوالہ: الشریعۃ للآجری، جامع بیان العلم وفضلہ، شرف اصحاب الحدیث، المدخل الی السنن الکبریٰ)
یہی وجہ ہے کہ اہل علم نے قرآن کی تعلیم پر اجرت کو حلال سمجھا ہے، جبکہ قرآن کی تلاوت کے ذریعے ناحق طریقے سے دنیاوی فائدہ حاصل کرنے کو ناپسند کیا ہے۔
نصوص کے مقابلے میں قیاس کی غلطی
دینی اُمور پر اُجرت لینے کے جواز کی صریح نصوص اور فہمِ سلف کی روشنی میں دلائل پہلے ہی بیان کیے جا چکے ہیں۔ تاہم، کچھ لوگ ان نصوص کو اپنے قیاس کی بنیاد پر رد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جیسے نماز اور روزہ اللہ کو راضی کرنے کے لیے انجام دیے جانے والے اعمال ہیں اور ان پر اجرت لینا جائز نہیں، اسی طرح دینی امور بھی اللہ کی رضا کے لیے ہوتے ہیں، اس لیے ان پر بھی اجرت لینا درست نہیں۔
نصوص کے خلاف قیاس:
شریعت میں صریح نصوص کے خلاف قیاس کرنا جائز نہیں ہے۔ اس کے علاوہ، یہ قیاس بھی اصولی طور پر غلط ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نماز اور روزہ تو ایسے اعمال ہیں جو صرف انجام دینے والے شخص سے متعلق ہوتے ہیں، جبکہ تعلیم کا معاملہ دوسروں کے ساتھ بھی تعلق رکھتا ہے، کیونکہ یہ سیکھنے والوں تک منتقل ہوتا ہے۔
علامہ قرطبی رحمہ اللہ کی تشریح:
مشہور مفسر علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد قرطبی رحمہ اللہ (671-600ھ) اس قیاس کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"رہا مخالفین کا نماز اور روزے پر قیاس کرنا، تو یہ فاسد ہے، کیونکہ یہ نص کے مقابلے میں آتا ہے۔ پھر نماز و روزے اور قرآن کی تعلیم میں فرق یہ ہے کہ نماز اور روزہ ایسی عبادات ہیں جو کرنے والے کے ساتھ خاص ہوتی ہیں، جبکہ قرآن کی تعلیم ایسی عبادت ہے جو سکھانے والے کے ساتھ ساتھ سیکھنے والے تک بھی منتقل ہوتی ہے۔ اس لیے اسے سکھانے کی کوشش پر اجرت لینا جائز ہے، جیسے کہ قرآنِ کریم کی کتابت سکھانے کی اجرت لینا جائز ہے۔”
(حوالہ: الجامع لأحکام القرآن، ’تفسیر القرطبی‘)
دینی اُمور پر اجرت کا جواز
دینی اُمور پر اجرت لینا اور دینا جائز ہے اور اس میں کوئی قباحت نہیں۔ اُمتِ مسلمہ میں سے صرف کچھ متقدمین احناف نے اس کی حرمت کا فتویٰ دیا تھا، لیکن بعد کے احناف علماء نے ان کی رائے کو ردّ کر دیا اور دینی اُمور پر اجرت کو جائز قرار دیا۔
➒ عصرِ حاضر میں بعض گروہوں کی غلطی:
آج کے دور میں بعض تکفیری گروہ احناف کے ان پرانے دلائل کو اپنے طور پر دوبارہ پیش کرتے ہیں اور انہیں اہل حق کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ وہ دلائل خود احناف نے مسترد کر دیے ہیں۔ اس عمل کے دوران وہ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم، اسلافِ امت، اور ائمہ دین و محدثین کی توہین کا بھی ارتکاب کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ وہ حلت و حرمت کے معاملے کو، جس کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح احادیث اور فہمِ سلف پر عمل پیرا رہنے کی توفیق عطا فرمائے، اسی پر ہمیں زندگی گزارنے اور اسی پر موت عطا کرنے کا موقع عطا فرمائے۔ آمین۔