قرآن و سنت کی روشنی میں دینی تعلیم پر اجرت لینا جائز ہے جس کے دلائل درج زیل ہیں۔
دینی خدمات پر اجرت کے دلائل
① ہماری پہلی دلیل:
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام کا ایک گروہ ایک مقام پر پہنچا جہاں کسی شخص کو موذی جانور نے کاٹ لیا تھا۔ اس کے اہل خانہ نے صحابہ سے مدد مانگی۔ ایک صحابی نے بکریوں کے عوض سورۂ فاتحہ پڑھ کر دَم کیا اور مریض شفا یاب ہوگیا۔ مدینہ واپسی پر صحابہ نے نبی اکرم ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جن چیزوں پر اجرت لینا جائز ہے، ان میں سب سے بہتر قرآن ہے۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الطب، رقم: 5737)
اسی واقعے کو حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے یوں بیان کیا کہ ایک قبیلے کے سردار کو موذی جانور نے کاٹ لیا تو قبیلے والوں نے صحابہ سے مدد مانگی۔ صحابہ نے مہمان نوازی نہ کرنے کی وجہ سے اُجرت کے بغیر مدد کرنے سے انکار کر دیا۔ قبیلے والوں نے بکریاں دینے کا وعدہ کیا تو ایک صحابی نے سورۂ فاتحہ پڑھ کر دَم کیا، جس سے مریض ٹھیک ہوگیا۔ صحابہ نے بکریاں قبول کرنے سے پہلے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا، آپ ﷺ نے ہنستے ہوئے فرمایا: ’’تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ یہ دَم ہے؟ بکریاں لے لو اور مجھے بھی اس میں سے حصہ دو۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الطب، رقم: 5736؛ صحیح مسلم، کتاب السلام، رقم: 2201)
اس روایت سے متعلق محدثین و فقہاء کا فہم
❀ امام بخاری رحمہ اللہ (256-194ھ):
انہوں نے اس حدیث کو کتاب الإجارۃ اور کتاب الطبّ میں شامل کیا، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کریم اور دینی امور پر اجرت لینا جائز ہے۔
❀ علامہ ابو الحسن علی بن خلف ابن بطال رحمہ اللہ (م: 449ھ):
اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
’’دَم کی اجرت اور قرآن کریم کی تعلیم پر اجرت میں کوئی فرق نہیں، کیونکہ دونوں میں فائدہ پایا جاتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اجرت لینے کے حوالے سے سب سے بہتر چیز کتاب اللہ ہے۔ یہ حکم عام ہے، جس میں تعلیم وغیرہ پر اجرت کا جواز شامل ہے۔‘‘
(شرح صحیح البخاری: 406/6)
❀ علامہ ابو محمد محمود بن احمد عینی (855-762ھ):
وہ اپنی شرح میں لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں قرآن پڑھنے، اس کی تعلیم دینے اور دم کرنے کے بدلے اجرت لینے کا جواز ہے، کیونکہ حدیث کے الفاظ میں عمومی حیثیت موجود ہے۔
(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری: 95/12)
❀ علامہ محمد بن اسماعیل امیر صنعانی رحمہ اللہ (1182-1099ھ):
ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس حدیث میں تعلیم پر اجرت کا ذکر صراحت سے نہیں ہے، لیکن قرآن کی تلاوت کے بدلے معاوضہ لینے کی گنجائش موجود ہے۔ امام بخاری نے اس حدیث کو تعلیم یا علاج کے لیے قرآن پڑھنے پر اجرت لینے کے جواز کے لیے بیان کیا ہے۔
(سبل السلام: 117/2)
❀ امام شافعی رحمہ اللہ (204-150ھ):
امام ترمذی ان سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ امام شافعی نے معلم کے لیے یہ رخصت دی ہے کہ وہ قرآن کی تعلیم کے بدلے اجرت لے سکتا ہے۔ اس رخصت کے حق میں انہوں نے اسی حدیث کو دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔
(سنن الترمذی، تحت الحدیث: 2063)
اس حدیث سے متعلق مخالفین کا موقف
بعض لوگ اس حدیث کے واضح مطلب کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ بکریاں دم کی اجرت کے طور پر نہیں، بلکہ حق ضیافت کے طور پر لی گئی تھیں۔
مخالفین کے اس موقف پر وضاحت
✔ پہلی بات:
یہ کہنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح ارشادات کے برخلاف ہے، کیونکہ آپﷺ نے صراحتاً اسے قرآن کی اجرت قرار دیا اور اس اجرت کو بہترین کہا۔
✔ دوسری بات:
حدیث کے کسی بھی طریق میں صحابہ کے حق ضیافت کے طور پر بکریاں لینے کا ذکر نہیں ہے۔
✔ تیسری بات:
اسلاف امت نے اسے دم کی اجرت ہی قرار دیا ہے، نہ کہ حق ضیافت۔
صحابہ کرام نے ان لوگوں سے دم کا معاوضہ لیا تھا نہ کہ ضیافت کا۔ ان کی مثال اس طرح سمجھی جا سکتی ہے کہ اگر کوئی شخص آپ پر احسان کرے تو آپ اس کا کام بغیر اجرت کے بھی کر سکتے ہیں، لیکن اگر کوئی مصیبت کے وقت میں آپ کی مدد سے انکار کر دے تو اس سے اجرت لینا جائز اور درست ہے۔
مخالفین کی طرف سے اس ضمن میں پیش کردہ دلیل
بعض لوگ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"إِنْ نَّزَلْتُمْ بِقَوْمٍ، فَأُمِرَ لَکُمْ بِمَا یَنْبَغِي لِلضَّیْفِ؛ فَاقْبَلُوا، فَإِنْ لَّمْ یَفْعَلُوا؛ فَخُذُوا مِنْہُمْ حَقَّ الضَّیْفِ”
ترجمہ: ’’اگر تم کسی قوم کے پاس پڑاؤ ڈالو اور تمہیں مہمان کے شایانِ شان ضیافت مل جائے تو قبول کر لو، اور اگر وہ ضیافت نہ کریں، تو اُن سے حقِ مہمان (زبردستی) لے لو۔‘‘
(صحیح بخاری، کتاب المظالم والغصب، باب قصاص المظلوم، رقم الحدیث: 2461)
ہمارا موقف
✔ صحابہ کرام کا عمل:
اگر اس حدیث پر عمل مقصود ہوتا، تو صحابہ کرام فوری طور پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ان سے زبردستی حقِ ضیافت وصول کرتے۔ دم کر کے بکریاں لینے کی ضرورت نہیں تھی۔ اگر ان کے سردار کو موذی چیز نہ ڈستی، تو کیا صحابہ کرام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی (معاذ اللہ) خلاف ورزی کرتے؟
✔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح بیان:
اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ صحابہ کرام نے حقِ ضیافت ہی لیا تھا، تو پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا کیا مطلب ہوگا جو آپ نے یہ واقعہ سن کر فرمایا کہ "قرآن کریم پر لی جانے والی اجرت سب سے بہترین ہوتی ہے”؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسے قرآن کی اجرت کہنا واضح کرتا ہے کہ اسے حق ضیافت قرار دینا درست نہیں۔
✔ عمومی حکم اور خصوصی واقعہ:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ایک عمومی حکم ہے، جبکہ یہ واقعہ مخصوص حالات میں پیش آیا۔ اگر بفرضِ محال بکریاں حقِ ضیافت تھیں بھی، تو پھر بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان قرآن پر اجرت لینے کے جواز کے لیے واضح دلیل ہے۔
✔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ کا بیان
حافظ ابو عبداللہ محمد بن احمد بن عثمان ذہبی رحمہ اللہ (748-673ھ) فرماتے ہیں:
’’ہمارے بعض اصحاب نے جواب دیا کہ حقِ ضیافت واجب تھا، لیکن ان لوگوں نے ضیافت نہ کی… میں کہتا ہوں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمومی فرمان پر عمل کریں گے، نہ کہ کسی خاص واقعے پر۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (عمومی طور پر) فرمایا: بلاشبہ سب سے بہترین چیز جس پر تم اجرت لے سکتے ہو، وہ کتاب اللہ ہے۔‘‘
(تنقیح التحقیق في أحادیث التعلیق: 132/2)
✔ سیدنا علاقہ بن صحار رضی اللہ عنہ کا واقعہ:
اگر اس حدیث میں بکریاں حقِ ضیافت قرار دینے کی کوشش کی جائے تو پھر سیدنا علاقہ بن صحار رضی اللہ عنہ کے واقعے کا کیا جواب ہوگا؟ انہوں نے دم کے بدلے سو بکریاں لیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دم کی اجرت قرار دیا اور اس کے جواز کی تصدیق کی۔ یہاں نہ حقِ ضیافت طلب کیا گیا اور نہ ہی ان لوگوں نے ضیافت سے انکار کیا۔
② ہماری دوسری دلیل:
سیدنا علاقہ بن صحار رضی اللہ عنہ نے ایک مجنون شخص پر دم کیا اور سو بکریاں لیں۔ جب انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’خُذْہَا، فَلَعَمْرِي مَنْ أَکَلَ بِرُقْیَۃِ بَاطِلٍ، لَقَدْ أَکَلْتَ بِرُقْیَۃِ حَقٍّ‘‘
ترجمہ: ’’بکریاں لے لو، مجھے قسم ہے، جو لوگ باطل دم کر کے کماتے ہیں، یقینا آپ نے تو حق پر مبنی دم کر کے کمایا ہے۔‘‘
(مسند الإمام أحمد: 155/36، سنن أبي داؤد، کتاب الطبّ، باب کیف الرقی؟، رقم الحدیث: 3896)
اس حدیث کو امام ابن حبان اور امام حاکم نے صحیح قرار دیا ہے، جبکہ حافظ نووی نے بھی اس کی سند کو معتبر تسلیم کیا ہے۔
اس روایت سے متعلق محدثین و فقہاء کا فہم
❀ امام ابوداؤد، سلیمان بن اشعث، سجستانی رحمہ اللہ (275-202ھ):
امام ابوداؤد نے اس حدیث کو کتاب البیوع (خرید و فروخت) اور ابواب الاجارہ (اجرتوں کے بیانات) میں ذکر کیا ہے اور اس پر باب قائم کیا:
بَابٌ فِي کَسْبِ الْـأَطِبَّائِ
ترجمہ: ’’طبیبوں کی کمائی کا بیان۔‘‘
❀ امام ابن حبان رحمہ اللہ:
انہوں نے باب قائم کیا:
ذِکْرُ إِبَاحَۃِ أَخْذِ الرَّاقِي الْـأُجْرَۃَ عَلٰی رُقْیَتِہٖ
ترجمہ: ’’دم کرنے والے کے لیے اپنے دم پر اجرت لینے کے جواز کا بیان۔‘‘
(صحیح ابن حبان: 474/13)
❀ حافظ ضیاء الدین مقدسی رحمہ اللہ (643-569ھ):
انہوں نے اس حدیث کو کتاب البیوع (خرید و فروخت کا بیان) میں ذکر کرتے ہوئے باب قائم کیا:
بَابُ أَجْرِ الرَّاقِي
ترجمہ: ’’دم کرنے والے کی اجرت کا بیان۔‘‘
(السنن والأحکام عن المصطفٰی: 470/4)
❀ علامہ عینی رحمہ اللہ (855-762ھ):
حالانکہ وہ دینی اُمور پر اجرت لینے کے مخالف تھے، لیکن اس حدیث کو ذکر کر کے فرماتے ہیں:
وَیُسْتَنْبَطُ مِنْہُ أَحْکَامٌ؛ جَوَازُ أَخْذِ الْـأُجْرَۃِ عَلَی الْقُرْآنِ
ترجمہ: ’’اس حدیث سے کئی مسائل کا استنباط ہوتا ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ قرآن کریم پر اجرت لینا جائز ہے۔‘‘
(نخب الأفکار في تنقیح مباني الأخبار: 357/16)
③ ہماری تیسری دلیل:
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ اس نے اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہبہ کر دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے عورتوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ ایک صحابی نے عرض کیا: اس عورت سے میری شادی کر دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے (حق مہر میں) کوئی کپڑا دے دیجیے۔ اس نے عرض کیا کہ میرے پاس کپڑا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے کوئی چیز ضرور دیجیے، خواہ لوہے کی انگوٹھی ہو۔ اس نے پھر معذرت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آپ کو قرآن کتنا یاد ہے؟‘‘ اس نے عرض کیا: فلاں فلاں سورت۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں نے آپ کے ساتھ اس عورت کی شادی اس قرآن کے عوض کر دی ہے جو تمہیں یاد ہے۔‘‘
(صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن، رقم الحدیث: 5029؛ صحیح مسلم، کتاب النکاح، رقم الحدیث: 1425)
اس روایت سے متعلق محدثین و فقہاء کا فہم
❀ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ:
اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں کہ امام بخاری کا مقصد یہ تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صحابی کو قرآن کی تعلیم دینے کا حکم دیا، اور یہی تعلیم ان کا حق مہر قرار پایا۔ اس پر علما کے درمیان اختلاف ہے کہ آیا اس طرح کی چیز کو حق مہر بنایا جا سکتا ہے یا قرآن کی تعلیم پر اجرت لی جا سکتی ہے؟
(تفسیر القرآن العظیم: 68/1)
❀ امام مالک بن انس رحمہ اللہ (179-93ھ):
اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس صحابی کو قرآن کے عوض نکاح کرنے کا حکم دیا، اس میں قرآن کی تعلیم اجرت کے طور پر تھی۔‘‘
(التمہید لما في الموطّأ: 120/21)
❀ امام شافعی رحمہ اللہ (204-150ھ):
امام بیہقی رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں کہ امام شافعی نے دینی تعلیم پر اجرت لینے کے جواز کے حق میں اس حدیث سے استدلال کیا ہے، جس میں قرآن کی تعلیم پر نکاح کرنے کا ذکر ہے۔
(مختصر خلافیات للبیہقي: 172/4)
❀ امام بیہقی رحمہ اللہ (458-384ھ):
وہ فرماتے ہیں:
’’قرآن کریم کی تعلیم کے عوض نکاح والی حدیث دینی اُمور پر اجرت کے جواز کی دلیل ہے۔‘‘
(السنن الکبرٰی: 205/6)
④ ہماری چوتھی دلیل:
سیدنا ابو محذورہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
’’میں ایک قافلے کے ساتھ سفر پر نکلا اور ہم حنین کے راستے میں تھے جہاں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس جا رہے تھے۔ وہاں آپ ﷺ سے ہماری ملاقات ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن نے نماز کے لیے اذان دی، جسے ہم نے مذاق میں دہرایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بلا کر فرمایا: ’’تم میں سے کس کی آواز سب سے زیادہ بلند تھی؟‘‘ لوگوں نے میری طرف اشارہ کیا، تو آپ ﷺ نے سب کو واپس بھیجا اور مجھے روکا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اٹھو اور نماز کے لیے اذان دو۔‘‘ میں نے اذان دی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک گٹھڑی عنایت کی جس میں چاندی تھی۔‘‘
(مسند الإمام أحمد: 98/24؛ سنن النسائي، رقم الحدیث: 632؛ سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث: 708)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ اور امام ابن حبان نے صحیح قرار دیا ہے۔
اس روایت سے متعلق محدثین و فقہاء کا فہم
❀ امام بیہقی رحمہ اللہ (458-384ھ):
امام بیہقی نے اس حدیث کو مؤذن کی اجرت کے جواز کے لیے دلیل بنایا ہے۔
(السنن الکبریٰ: 631/1)
❀ امام طحاوی رحمہ اللہ (321-238ھ):
وہ لکھتے ہیں کہ بعض لوگوں نے اس حدیث سے اذان پر اجرت لینے کے جواز پر استدلال کیا ہے۔
(شرح مشکل الآثار: 263/15)
❀ امام ترمذی رحمہ اللہ (279-209ھ):
امام ترمذی نے اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد فرمایا:
’’اہل علم کے نزدیک مستحب ہے کہ مؤذن بغیر اجرت کے اذان دے، لیکن اجرت لینے کو حرام قرار نہیں دیا۔‘‘
(سنن الترمذي، باب ما جاء في کراہیۃ أن یّأخذ المؤذّن علی الأذان أجرا)
❀ علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ (620-541ھ):
وہ فرماتے ہیں کہ اذان پر اجرت لینا دیگر اعمال کی طرح جائز ہے، اور اس میں کسی نے اختلاف نہیں کیا۔
(المغني: 301/1)
❀ امیر صنعانی رحمہ اللہ (1182-1099ھ):
وہ لکھتے ہیں کہ اذان پر اجرت کی حرمت کے بارے میں کوئی صریح دلیل موجود نہیں ہے۔
(سبل السلام: 117/2)
❀ حافظ ابن عبد الہادی رحمہ اللہ:
وہ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ حدیث میں اجرت لینے کے بارے میں صرف کراہت کا ذکر ہے، حرمت کا نہیں۔
(تنقیح التحقیق: 183/4)
اس حدیث سے متعلق مخالفین کا موقف
بعض افراد اعتراض کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے دی گئی چاندی دراصل تالیف قلب کے لیے تھی۔ لیکن اس اعتراض کو رد کرتے ہوئے واضح کیا جاتا ہے کہ یہ واقعہ صریحاً اذان کے بدلے میں اجرت کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔
مخالفین کی ایک اور دلیل:
کچھ لوگ اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ایسا مؤذن مقرر کریں جو اذان پر اجرت نہ لے۔‘‘
(مسند الإمام أحمد: 235/29؛ سنن أبي داود، رقم الحدیث: 531)
✔ وضاحت
اس حدیث میں اجرت نہ لینے کی تاکید کو کراہت پر محمول کیا گیا ہے، حرمت پر نہیں، کیونکہ اگر اجرت لینا حرام ہوتا تو اس پر صریح ممانعت کی جاتی۔
✔ مثال
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگی لگانے والے کی کمائی کو "خبیث” قرار دیا، لیکن آپ ﷺ نے خود سینگی لگوانے پر اجرت دی:
’’سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگی لگوانے پر دو صاع غلہ دینے کا حکم فرمایا۔‘‘
(صحیح مسلم، رقم الحدیث: 1577)
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بعض اُجرتوں کے لیے کراہت کا حکم ہے، مگر وہ حرام نہیں۔ اسی طرح اذان پر اجرت لینا بھی کراہت کے زمرے میں آتا ہے، حرام نہیں۔
دینی اُمور پر اجرت سے متعلق سلف کا موقف
✿ امام شعبہ بن حجاج رحمہ اللہ:
وہ بیان کرتے ہیں:
’’میں نے معاویہ بن قرہ تابعی سے معلم کی اجرت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ میں اس کے لیے اجرت کو جائز سمجھتا ہوں۔ پھر میں نے حکم بن عتیبہ تابعی سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں نے کسی صحابی یا تابعی فقیہ کو اس کے خلاف کہتے نہیں سنا۔‘‘
(مسند علي بن الجعد، رقم: 1105-1103، وسندہٗ صحیحٌ)
✿ خالد حذا تابعی رحمہ اللہ:
وہ بیان کرتے ہیں:
’’میں نے ابو قلابہ عبداللہ بن زید تابعی سے معلم کے اجرت لینے کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے اسے جائز قرار دیا اور کوئی حرج نہ سمجھا۔‘‘
(المصنّف في الأحادیث والآثار: 340/4، رقم: 20831، وسندہٗ صحیحٌ)
✿حافظ ابو سلیمان حمد بن محمد خطابی رحمہ اللہ (388-319ھ):
’’(دَم کے بدلے بکریاں لینے والی) حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مصاحف کی خرید و فروخت اور ان کی کتابت پر اجرت لینا جائز ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کے بابرکت ناموں سے دم کرنا جائز ہے اور طبیب و معالج کی اجرت بھی درست ہے۔ چونکہ قراءت، دم اور پھونک دینا جائز ہیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر اجرت لینا جائز قرار دیا ہے، اسی طرح طبیب کے مشورے، بیماری کی تفصیلات اور علاج تجویز کرنا بھی فعل ہیں۔ ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔‘‘
(معالم السنن: 101/3)
✿ امام ابن حبان رحمہ اللہ (م: 354ھ):
انہوں نے اپنی کتاب میں ایک باب قائم کیا جس کا عنوان ہے:
’’کتاب اللہ پر اجرت لینے کے جواز پر دلالت کرنے والی حدیث کا بیان۔‘‘
(صحیح ابن حبان: 546/11)
✿ حافظ ابن حزم رحمہ اللہ (456-384ھ):
ان کا کہنا ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم اور حدیث کی تعلیم پر اجرت لینا، ماہانہ یا یک مشت، سب جائز ہے۔ انہوں نے دلیل دی کہ اس کی ممانعت کی کوئی صریح نص موجود نہیں، بلکہ اس کا جواز ثابت ہے۔
(المحلّی بالآثار: 18/7)
✿ امام بیہقی رحمہ اللہ (458-384ھ):
انہوں نے اپنی کتاب میں باب قائم کیا:
’’کتاب اللہ پر اجرت لینے کا بیان۔‘‘
(السنن الکبرٰی: 397/7)
✿ حافظ نووی رحمہ اللہ (676-631ھ):
وہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ ان سے بکریاں لے لو اور میرا بھی حصہ نکالو، اس بات کی صراحت کرتا ہے کہ سورۂ فاتحہ اور ذکر الٰہی کے ذریعے دم کرنے کی اجرت لینا جائز ہے۔ اسی طرح، قرآن کی تعلیم پر اجرت لینا بھی جائز ہے۔
(المنہاج شرح مسلم بن الحجّاج: 188/14)
✿ علامہ قرطبی رحمہ اللہ (671-600ھ):
وہ لکھتے ہیں کہ قرآن کی تعلیم پر اجرت لینے کو امام مالک، شافعی، احمد بن حنبل، ابو ثور اور اکثر علما جائز قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی دم والی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا کہ سب سے بہترین اجرت وہ ہے جو کتاب اللہ پر لی جائے۔
(الجامع لأحکام القرآن: 335/1)
اجرت نہ لینے کو ترجیح دینا
بعض اہل علم نے اجرت نہ لینے کو اختیار کیا، لیکن یہ حرام سمجھنے کی وجہ سے نہیں تھا، بلکہ نہ لینے کو بہتر سمجھنے کی وجہ سے تھا۔ صحابہ و تابعین میں سے کسی نے بھی دینی اُمور پر اجرت کو حرام قرار دینے کا نظریہ نہیں اپنایا۔
نتیجۂ کلام
دینی تعلیم، قرآن کی تدریس، اذان، اور دیگر دینی خدمات پر اجرت لینا شریعت کے اصولوں کے مطابق جائز ہے اور اس پر علما کا اتفاق ہے۔ یہ اجرت دین کو فروخت کرنے کے مترادف نہیں، بلکہ ایک جائز ذریعۂ معاش ہے جو معلمین اور علما کی خدمات کا اعتراف ہے۔ ان معاملات میں احادیث، صحابہ کرام کا طرز عمل، اور علما کے اجماعی فتاویٰ سب ایک ہی بات کی تائید کرتے ہیں۔ اس لیے دینی اُمور پر اجرت کے مسئلے کو حل شدہ اور شرعی طور پر جائز سمجھنا چاہیے، جبکہ مخالفین کا موقف محض غلط فہمی اور تضاد پر مبنی ہے۔