دوغلے لوگوں سے نمٹنے کا شرعی طریقہ
یہ تحریر علمائے حرمین کے فتووں پر مشتمل کتاب 500 سوال و جواب برائے خواتین سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ حافظ عبداللہ سلیم نے کیا ہے۔

سوال :

میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو مجھ سے اور دوسرے لوگوں سے گفتگو کرتے وقت دوغلے پن (دورخی) کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ کیا اس پر خاموش رہوں یا انہیں ان کی حقیقت بتا دوں ؟

جواب :

لوگوں سے دو رخی گفتگو کرنا جائز نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
«تجدون شر الناس ذا الوجهين الذى يأتي هؤلاء بوجه وهؤلاء بوجه » [البخاري، المناقب باب 1، الأدب 52، الأحكام 37 – و مسلم البر والصلة، : باب 99]
”تم سب لوگوں سے بدتر دو رخ آدمی کو پاؤ گے جو ان کے پاس ایک چہرے کے ساتھ آتا ہے جبکہ دوسروں کے پاس دوسرے چہرے کے ساتھ۔“
اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی انسان کے سامنے اس کی تعریف کرتا ہے اور دنیوی مقصد کے تحت اس کی تعریف میں مبالغہ آرائی سے کام لیتا ہے، جبکہ اس کی عدم موجودگی میں لوگوں کے سامنے اس کی مذمت کرتا اور عیب جوئی کرتا ہے، اکثر لوگوں کے ساتھ اس کا یہی رویہ ہوتا ہے۔
لہٰذا جو شخص بھی اس کے اس رویے سے آگاہ ہو اسے لوگوں کی خیر خواہی کرتے ہوئے اس منافقانہ عمل سے بچنے کی تلقین کرنی چاہیئے۔ ایک نہ ایک دن لوگ اس کے اس قابل مذمت رویے سے آگاہ ہوں گے۔ پھر وہ اس سے نفرت کا اظہار کریں گے اور احتیاطاً اس کی صحبت سے دور رہیں گے۔ اس طرح اس کے غلط مقاصد کی تکمیل ممکن نہ ہو سکے گی۔ اگر وہ نصیحت سے فائدہ نہ اٹھائے تو لوگوں کو اس سے اور اس کے کردار سے خبردار کرنا چاہے۔ چاہے اس کی عدم موجودگی میں ہی ایسا کرنا پڑے حدیث میں ہے :
«أذكروا الفاجر بما فيه كى يحذره الناس» [الكاف الشاف فى تخريج أحاديث الكشاف لابن حجر 157]
”لوگوں کو فاسق کے کردار سے آگاہ کرو تاکہ لوگ اس سے خبردار رہیں۔“
(ابن جبرین)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے