دوران خطبہ خاموشی کی اہمیت اور کلام کی ممانعت
تحریر: عمران ایوب لاہوری

دونوں خطبوں کے درمیان خاموش رہنا

➊ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا قلت لصاحبك يوم الجمعة أنصت والإمام يخطب فقد لغوت
”جمعہ کے دن دوران خطبہ جب تم اپنے کسی ساتھی سے کہو کہ خاموش ہو جاؤ تو (یاد رکھو ) بے شک تم نے لغو حرکت کی ہے۔“
[بخارى: 934 ، كتاب الجمعة: الإنصات يوم الجمعة ، مسلم: 581 ، مؤطا: 103/1 ، أبو داود: 1112 ، ترمذي: 512 ، ابن ماجة: 1110 ، دارمي: 364/1 ، نسائي: 104/3 ، ابن خزيمة: 299]
➋ جن افعال کی وجہ سے ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک اور مزید تین دن کے گناہوں کی بخشش کا ذکر حدیث میں ہے ان میں یہ بھی ہے:
ثم أنصت حتى يفرغ الإمام من خطبته
”پھر انسان اس وقت تک خاموش رہے جب تک کہ امام اپنے خطبے سے فارغ نہ ہو جائے ۔“
[مسلم: 757 ، كتاب الجمعة: باب فضل من استمع وأنصت فى الخطبة]
➌ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من تكلم يوم الجمعة والإمام يخطب فهو كمثل الحمار يحمل أسفار والذى يقول له أنصت ليست له الجمعة
”جس شخص نے جمعہ کے دن اس وقت کلام کیا کہ جب امام خطبہ دے رہا ہو تو وہ ایسے گدھے کی طرح ہے جس نے کتابیں اٹھا رکھی ہیں اور جو شخص کسی کو کہتا ہے کہ خاموش ہو جاؤ اس کا جمعہ نہیں ہوا۔“
[ضعيف: الضعيفة: 1760 ، تمام المنة: ص/ 338 ، أحمد: 230/1 ، كشف الاستار للبزار: 209/1 ، مجمع الزوائد: 187/2 ، اس كي سند ميں مجالد بن سعيد راوي هے جو جمهور كے نزديك ضعيف هے۔ ميزان الاعتدال: 438/3 ، المغنى: 542/2 ، التاريخ الكبير: 9/8 ، الجرح والتعديل: 361/7 ، المجروحين: 10/3]
➍ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ”جو شخص امام کے قریب ہو کر بیٹھا اور اس نے لغو حرکت کی ، خطبہ توجہ سے نہ سنا ولم ينصت ”اور خاموش نہ رہا“ تو اس پر (گناہوں کے) بوجھ کا ایک حصہ ہو گا اور جس نے کسی کو کہا ٹھہر جاؤ اس نے لغو حرکت کی ومن لغا فلا جمعة له ”اور جس نے کوئی لغو حرکت کی اس کا کوئی جمعہ نہیں ۔“
[ضعيف: ضعيف أبو داود: 230 ، كتاب الصلاة: باب فضل الجمعة ، أبو داود: 1051 ، أحمد: 93/1 ، اس كي سند ميں عطاء خراساني كي بيوي كا آزاد كرده غلام مجهول هے۔ الروضة الندية: 349/1]
➎ ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
كفي لغوا إذا صعد الإمام المنبر أن تقول لصاحبك أنصت
”اتنی لغو حرکت ہی کافی ہے کہ جب امام منبر پر چڑھے تو تم اپنے ساتھی سے اتنا کہہ دو کہ تم خاموش ہو جاؤ ۔“
[طبراني: 9543 ، ابن أبى شيبة: 5292 ، امام ہيثميؒ فرماتے هيں كه اس كے رجال صحيح كے رجال هيں۔ مجمع الزوائد: 189/2]
ان تمام احادیث سے معلوم ہوا کہ دوران خطبہ کلام کرنا ممنوع ہے اور لغو حرکت ہے۔ اور جن احادیث میں کلام کی وجہ سے جمعہ ضائع ہونے کا ذکر ہے وہ ضعیف ہیں اس لیے اس عمل سے جمعہ تو ضائع نہیں ہو گا البتہ اجر و ثواب میں نقص و کمی اور ممانعت سے گریز نہ کرنے کا گناہ بہر حال ضرور ہو گا۔
(جمہور ) دوران خطبہ خاموش رہنا واجب ہے اور ہر قسم کا کلام حرام ہے۔
علاوہ ازیں فقہاء نے اس مسئلہ میں مزید فروعات پیش کی ہیں کہ یہاں جنکا بیان طوالت سے اجتناب کی غرض سے ناممکن ہے۔
[مزيد تفصيل كے ليے ملاحظه هو: الأم: 345/1 ، المجموع: 393/4 ، بدائع الصنائع: 264/1 ، المبسوط: 27/2 ، الهداية: 84/1 ، المغنى: 197/3 ، بداية المجتهد: 127/1]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1