دوران حج پردہ کرنا

 

تحریر : فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالستار الحماد حفظ اللہ

لَا تَنْتَقِبْ الْمَرْأَةُ الْمُحْرِمَةُ، وَلَا تَلْبَسْ الْقُفَّازَيْنِ
” احرام والی عورت نقاب نہ پہنے اور نہ دستانے استعمال کرے۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب جَزَاءِ الصَّيْدِ: 1838]
فوائد :
اس حدیث میں محرم عورت کو نقاب ڈالنے سے منع کیا گیا ہے۔ اس نقاب سے مراد ایک خاص قسم کا کپڑا ہے جو ناک پر یا آنکھ کے نیچے باندھا جاتا ہے۔ اس سے مراد وہ نقاب نہیں ہے جو آج کل معروف ہے اور جسے چہرے کے پردے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ نقاب نہ پہننے کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ احرام والی عورت، اجنبی مردوں سے چہرہ نہیں چھپائے گی بلکہ احرام والی عورت کے لئے ضروری ہے کہ وہ حجاب کے معاملہ میں کسی قسم کی سستی اور مداہنت کا شکار نہ ہو۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ :
”اے نبی ! اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور اہل ایمان کی خواتین سے کہہ دیں کہ وہ اپنی چادروں کے پلو اپنے اوپر لٹکا لیا کریں۔“ [الاحزاب : 59 ]
پھر چہرہ ہی وہ چیز ہے جو مرد کے لئے عورت کے تمام بدن سے زیادہ پرکشش ہوتا ہے اگر اسے ننگا رکھنا ہے تو حجاب کے باقی احکام بےسود ہیں۔ پردے کا حکم حالت احرام میں بھی ہے جیسا کہ فاطمہ بنت منذر بیان کرتی ہیں کہ ہم حالت احرام میں اپنے چہرے ڈھانپا کرتی تھیں اور اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا بھی ہمارے ساتھ ہوا کری تھیں۔ [مستدرك حاكم : 454/1 ]
اس کے علاوہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حالت احرام میں ہوتیں اور قافلے ہمارے سامنے سے گزرتے تھے۔ جب وہ ہمارے سامنے آتے تو ہم اپنی چادریں چہرے پر لٹکا لیتیں اور جب ہو گزر جاتے تو چہرہ کھول لیتیں۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ: 1833]
ان احادیث کے پیش نظر عورت کو چاہئے کہ وہ حالت احرام میں نقاب نہ پہنے البتہ اجنبی مردوں سے اپنے چہرے کو ضرور چھپائے۔ والله اعلم

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
لنکڈان
ٹیلی گرام
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل