اللہ کا سب کو دولت مند نہ بنانا
یہ سوال اکثر ذہن میں آتا ہے کہ اللہ اگر سب کو امیر، صحت مند، حسین، طاقتور یا صاحب اقتدار بنا دیتا تو اس کے خزانے میں کون سی کمی آتی؟ لیکن اصل سوال اللہ کے خزانوں کی کمی بیشی کا نہیں بلکہ اس کائنات کے ‘امتحانی نظام’ کا ہے۔ اس دنیا کی بنیاد امتحان پر رکھی گئی ہے، جہاں انسانوں کے رویے آزمائے جاتے ہیں۔
◄ کسی کو دے کر آزمایا جاتا ہے، کسی کو محروم کر کے۔
◄ کبھی عطا کی جاتی ہے اور کبھی چھین لیا جاتا ہے۔
◄ یہی وہ کشمکش ہے جس سے انسانی رویوں کی حقیقت کھلتی ہے۔
کون کتنا پائے اور کون کتنا محروم ہو، یہ فیصلہ اللہ کی حکمت پر منحصر ہے کیونکہ وہی کائنات کے "گرینڈ پلان” کو مکمل طور پر سمجھتا ہے۔ انسان اس تصویر کا محض ایک چھوٹا سا حصہ ہے، مکمل تصویر تو اللہ ہی کے علم میں ہے۔
کیوں سب کو برابر نہیں بنایا گیا؟
◄ اگر سب امیر ہوتے تو کون غریب کا سہارا بنتا؟
◄ کون یہ ظاہر کرتا کہ اس کے پاس دولت کے باوجود وہ غریبوں کے ساتھ ہمدرد ہے؟
◄ اور کون غربت میں صبر و شکر کا دامن تھامتا؟
اسی طرح اگر سب صاحب اقتدار ہوتے تو کیسے جانچا جاتا کہ کون رحم دل حکمران ہے اور کون ظالم؟ اسی کشمکش کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کہ کون انصاف کرتا ہے اور کون اپنے اختیار کا ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے۔
قرآن حکیم میں ارشاد ہے:
وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوفْ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ
(البقرہ، 2:155)
’’اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف، بھوک، مال، جانوں اور پھلوں کی کمی سے۔ اور (اے حبیب!) آپ صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجیے۔‘‘
دنیا انصاف پر نہیں بلکہ امتحان پر بنی ہے
یہ حقیقت بھی سمجھنا ضروری ہے کہ یہ دنیا مکمل انصاف کے اصول پر نہیں چلتی۔ یہاں ظلم بھی ہوتا ہے، ناانصافی بھی۔ طاقتور اکثر مظلوموں پر ظلم کرتا ہے اور مجرم سزا سے بچ نکلتے ہیں۔
◄ جو محنت کرتا ہے، وہ غربت کی چکی میں پستا رہتا ہے، جبکہ ناجائز دولت کمانے والے مزے کرتے ہیں۔
◄ عدالتوں میں بھی مکمل انصاف نہیں ہوتا۔ مثلاً اگر کوئی بوڑھا قاتل کسی نوجوان کو قتل کر دے تو اسے سزا ملنے کے باوجود مقتول کا نقصان پورا نہیں ہو سکتا۔
◄ نوجوان کی موت کے اثرات اس کی بیوی اور بچوں پر پڑتے ہیں، اور یہی کمی اس دنیا میں انصاف کو نامکمل کر دیتی ہے۔
قیامت کا دن: مکمل انصاف کی جگہ
دنیا کی یہی ناانصافیاں انسان میں یہ تقاضا پیدا کرتی ہیں کہ کوئی ایسی عدالت ہو جہاں ہر چیز کا مکمل اور حقیقی انصاف ہو۔ دین ہمیں اسی عدالت کی خبر ’روز حساب‘ کے ذریعے دیتا ہے، جہاں نیک کو اس کی نیکی کا اور بد کو اس کی بدی کا پورا بدلہ ملے گا۔
نعمتوں کی قدر ضدوں سے ہے
یہ کائنات تضادات کا مجموعہ ہے:
◄ اگر تاریکی نہ ہو تو روشنی کی قدر کیسے ہوگی؟
◄ تکلیف نہ ہو تو راحت کا احساس کیونکر ہوگا؟
◄ بدصورتی نہ ہو تو خوبصورتی کی پہچان ممکن نہیں۔
◄ اگر موت نہ آئے تو زندگی کی خواہش اور اس کی قدر کون کرے گا؟
نعمتوں کی پہچان تبھی ممکن ہے جب ان کے مقابلے میں ان کی ضد موجود ہو۔ اس لیے یہ دنیا تضادات سے بھری ہے، تاکہ انسان نعمتوں کا شعور رکھ سکے۔
شرعی اصول: کوشش کرنا ضروری ہے
دین ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ انسان کو اسباب اختیار کرنے کا پابند کیا گیا ہے۔ غربت سے نکلنے کے لیے کوشش کے بغیر امید رکھنا غلط ہے، بالکل اسی طرح جیسے دوا کے بغیر بیماری کا ٹھیک ہو جانا ناممکن ہے۔