اعتراض
یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ اگر دعا تقدیر کو بدل دیتی ہے تو پھر اللہ تقدیر کا مالک کیسے ہوا؟ کیا وہ فطرت کے قوانین کے تحت مجبور ہو جاتا ہے کہ ان قوانین کو توڑ یا بدل نہیں سکتا؟
جواب
دعا کا تقدیر کو بدلنا حقیقت ہے، لیکن اس سے پہلے تقدیر کے میکینزم کو سمجھنا ضروری ہے تاکہ دعا اور تقدیر کے آپس میں تعلق کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔
تقدیر کا میکینزم
➊ تقدیر اللہ کی تخلیق کردہ ایک پیچیدہ نظام کا حصہ ہے
جس میں ہر چیز کا ایک مخصوص مقصد اور نتیجہ ہوتا ہے۔
تمام دعائیں نہ تو فوراً قبول ہوتی ہیں اور نہ ہی سب کو مسترد کیا جاتا ہے، بلکہ ایک اجتماعی توازن ہوتا ہے جو کائنات، معاشرتی نظام، اور افراد کی بہتری کے مطابق ترتیب دیا جاتا ہے۔
دعا کی قبولیت
➋ دعا کا اثر ہر ایک پر یکساں نہیں ہوتا
مثال کے طور پر، اگر کچھ لوگ دعا کریں کہ سورج دور ہو جائے تاکہ گرمی کم ہو، تو یہ ان کے لیے بہتر ہو سکتا ہے لیکن سرد علاقوں کے لوگوں کے لیے نقصان دہ ہو گا۔
اسی طرح کچھ لوگ دعا کرتے ہیں کہ وہ مالدار ہو جائیں، لیکن ان کے مالدار ہونے سے ان کی اپنی زندگی اور معاشرہ مشکلات میں مبتلا ہو سکتا ہے۔
کچھ لوگ اولاد مانگتے ہیں، مگر اللہ کے علم میں وہ ان کے حق میں بہتر نہیں ہوتی۔
اللہ کی حکمت اور انصاف
اللہ کے قانون انصاف کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ یہ کوئی مکتوب قانون نہیں ہے کہ وہ اس کا پابند ہو۔ اللہ اپنی حکمت اور مرضی کے مطابق فیصلہ کرتا ہے۔
➌ اللہ کا تدبر
بہت سے لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اگر اللہ موجود ہے تو ظالموں کو فوراً کیوں نہیں پکڑتا؟ مظلوموں کی دعائیں کیوں قبول نہیں ہوتی؟
حقیقت یہ ہے کہ اللہ کبھی فوراً انصاف کرتا ہے اور کبھی دیر سے۔ ہر فیصلہ اللہ کی حکمت کے مطابق ہوتا ہے، اور وہ ظالم کو مہلت دیتا ہے تاکہ وہ سنبھل جائے۔
الحاد کا نقطہ نظر
ملحدین اللہ کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا چاہتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی حکمت انسانوں کی سوچ سے کہیں بلند ہے۔
اللہ ہر ایک کے لیے الگ الگ نظام نہیں بنا سکتا، جیسا کہ دنیا میں بھی ایک کلاس کے سب بچوں کے لیے ایک ہی نصاب ہوتا ہے۔
خلاصہ
اللہ فطرت کے قوانین کا پابند نہیں، بلکہ وہ اپنی مرضی اور حکمت سے فیصلے کرتا ہے۔
دعا اور تقدیر کا تعلق اللہ کے عدل اور حکمت سے جڑا ہوا ہے، اور اللہ ہر فیصلہ ایک وسیع تر توازن کے تحت کرتا ہے۔