حدیث کا متن اور اس کے راوی
اس حدیث کو ابو الفرج المعافى بن زکریا بن یحیی الجريري النہروانی نے اپنی کتاب "الجليس الصالح الكافي والأنيس الناصح الشافي” (صفحہ 444) میں ذکر کیا ہے۔ حدیث کے سلسلہ سند میں درج ذیل راوی موجود ہیں:
◈ محمد بن الحسن بن علی بن سعيد أبو الحسن الترمذي
◈ أبو سعيد محمد بن الحسين بن ميسرة
◈ أبو بكر محمد بن أبي شعيب الخواتيمي
◈ إبراهيم بن مخلد
◈ سليم الخشاب مولى لبني شيبة
◈ ابن جريج
◈ عطاء
◈ ابن عباس
حدیث کا متن
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع ادا کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ کعبہ کے دروازے کی دونوں حلقوں کو تھاما، پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا:
**”اے لوگو!”**
صحابہ کرام نے عرض کیا: **”لبیک یا رسول اللہ! ہمارے ماں باپ آپ پر قربان!”**
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم رونے لگے یہاں تک کہ آپ کے رونے کی آواز بلند ہوگئی۔
آپ نے فرمایا:
**”اے لوگو! میں تمہیں قیامت کی نشانیاں بتا رہا ہوں، قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہیں: نمازوں کا ضائع ہونا، خواہشات کی پیروی، ہوائے نفس کی طرف جھکاؤ، اور مالدار کو بڑا سمجھنا۔”**
اس حدیث کے متن میں کئی دیگر قیامت کی نشانیاں بھی مذکور ہیں، جن میں شامل ہیں:
◈ مومن کا دل نمک کے پانی میں گھلنے کی طرح پگھل جائے گا کیونکہ وہ برائی کو دیکھے گا لیکن اسے روکنے کی طاقت نہ رکھے گا۔
◈ لوگوں کے درمیان خوف اور ڈر کا ماحول ہوگا۔
◈ بارش غیر موسمی ہوگی، اولاد والدین کے لیے غم و پریشانی کا باعث بنے گی۔
◈ بدکردار لوگ بڑھ جائیں گے اور نیک لوگ کم ہوتے جائیں گے۔
◈ خیانت کرنے والوں کو معتبر سمجھا جائے گا اور دیانت داروں کو خائن قرار دیا جائے گا۔
◈ جھوٹے لوگ سچے سمجھے جائیں گے اور سچ بولنے والوں کو جھوٹا کہا جائے گا۔
◈ عورتیں حکمرانی کریں گی، اور غلاموں سے مشورے کیے جائیں گے۔
◈ بچے منبروں پر چڑھ کر بات کریں گے۔
◈ دین کو دنیا کے مقابلے میں کمتر سمجھا جائے گا، اور دنیا کو اہمیت دی جائے گی۔
◈ مسجدوں کو گرجا گھروں اور کلیساؤں کی طرح آراستہ کیا جائے گا۔
◈ قرآن کو محض گانے بجانے کے انداز میں پڑھا جائے گا۔
◈ جھوٹے حکمران حکومت کریں گے، وزراء بدکار ہوں گے، امانت دار خائن بن جائیں گے۔
◈ سود عام ہوگا، رشوت کا بازار گرم ہوگا، اور لوگ تجارت میں حیلے بہانے اختیار کریں گے۔
◈ مرد ریشمی لباس پہنیں گے اور سونے کے زیورات استعمال کریں گے۔
◈ عورتیں کاروبار میں اپنے شوہروں کے ساتھ شریک ہوں گی۔
◈ فحاشی اور موسیقی عام ہوگی۔
◈ مساجد میں راستے بنائے جائیں گے، اور دین کو دنیاوی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
◈ حج تفریح، تجارت، ریاکاری اور مانگنے کے لیے کیا جائے گا۔
◈ بچوں کے ساتھ وہ سلوک کیا جائے گا جو آج عورتوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
◈ عورتیں مردوں کی مشابہت اختیار کریں گی اور مرد عورتوں کی۔
◈ فاسق فاجر لوگ قرآن کی تلاوت کریں گے اور آپس میں الزام تراشی کریں گے۔
◈ تجارت کا زوال ہوگا اور بازار ویران ہوجائیں گے۔
◈ والدین کی نافرمانی عام ہوگی، اور دوستوں کے ساتھ تعلقات ختم ہوجائیں گے۔
◈ قیامت کی بڑی نشانیاں جیسے سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، دجال کا خروج، زمین کا دھنس جانا، اور دیگر بڑی علامتیں ظاہر ہوں گی۔
حدیث کی سند پر تحقیقی جائزہ
یہ حدیث موضوع (من گھڑت) ہے، اور اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے غلط طور پر منسوب کیا گیا ہے۔ اس حدیث کو امام جلال الدین السیوطی نے "الدر المنثور” (7/474) میں ابن مردویہ کے حوالے سے ذکر کیا ہے، لیکن ابن مردویہ کی تفسیر مفقود ہے۔
ضعف اور جرح کے دلائل
اس حدیث کی سند میں کئی راوی ایسے ہیں جن پر محدثین نے سخت جرح کی ہے، جن میں خاص طور پر سلیم الخشاب شامل ہیں:
➊ امام احمد بن حنبل: "یہ راوی کسی شمار میں نہیں، اس کی حدیث کچھ وقعت نہیں رکھتی۔”
➋ ابو حاتم الرازی: "یہ ضعیف اور منکر الحدیث ہے۔” (الجرح والتعديل، 4/315)
➌ ابن معین: "یہ کذاب (جھوٹا) ہے۔” (تاریخ ابن معین، 1/58)
➍ امام نسائی: "یہ متروک الحدیث (چھوڑ دیا گیا راوی) ہے۔” (الضعفاء والمتروكون، ص 244)
➎ ابن حبان: "یہ ثقہ راویوں سے من گھڑت روایات بیان کرتا تھا، جنہیں سننے والا بھی محسوس کر سکتا تھا کہ وہ جھوٹی ہیں۔” (المجروحين، ص 463)
حدیث کے دوسرے طریق کی تحقیق
یہ حدیث ایک اور سند سے بھی مروی ہے، جسے الصابونی نے "المائتین” میں نقل کیا ہے۔ اس روایت میں بھی کذاب اور متروک راوی شامل ہیں:
◈ موسی بن جابان: "یہ متروک الحدیث ہے۔” (لسان الميزان، 1726)
◈ میسرہ بن عبد اللہ: اس کے بارے میں محدثین کی جرح کچھ یوں ہے:
- امام بخاری: "یہ کذاب (جھوٹا) ہے۔”
- امام نسائی: "یہ متروک الحدیث ہے۔”
- ابو حاتم: "یہ حدیثیں گھڑنے کا عادی تھا۔” (تاریخ بغداد، 15/297)
نتیجہ
یہ حدیث ضعیف اور موضوع ہے، اس کے تمام طرق (روایات کے سلسلے) کمزور، متروک اور من گھڑت ہیں۔
**واللہ اعلم۔**