درازئی عمر کی دعا کا شرعی حکم قرآن و سنت کی روشنی میں
ماخوذ: فتاویٰ الدین الخالص ج1ص43

سوال

لوگ دعا میں کہتے ہیں ’’اللہ عمر دراز کرے‘‘، ’’اللہ تادیر باقی رکھے‘‘۔ کیا اس طرح کی دعائیں کرنا جائز ہے؟ اگر نہیں، تو اس کی ممانعت کی کیا دلیل ہے؟

جواب

الحمد للہ، والصلاة والسلام على رسول الله، أما بعد!

اسلام میں دعا کے آداب اور الفاظ کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ درازئی عمر اور تادیر باقی رہنے کی دعا کے متعلق مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔

درازئی عمر کی دعا کے عدم استحباب پر دلائل

1. امام ابن قیم رحمہ اللہ کی رائے

امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "زاد المعاد” (2/42) میں اس طرح کی دعاؤں کو مکروہ قرار دیا اور فرمایا:

"أطال الله بقاءك” (اللہ تمہیں تادیر باقی رکھے)
"وأدام أيامك” (اللہ آپ کے ایام کو دوام بخشے)
"عشت ألف سنة” (آپ ہزار سال جئیں)

یہ دعائیں مکروہ اس لیے ہیں کہ انسان کی عمر کا طول محض نفع بخش نہیں ہوتا، بلکہ اگر عمر گناہوں میں بسر ہو تو یہ نقصان دہ بھی ہو سکتی ہے۔

2. شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کی وضاحت

شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ نے "مجموع فتاوی” (2/225-226) میں فرمایا:

"طول البقاء” (زیادہ لمبی عمر) کی دعا کرنا مناسب نہیں، کیونکہ لمبی عمر بعض اوقات فائدہ مند ہوتی ہے اور بعض اوقات نقصان دہ۔

"بدترین لوگ وہ ہیں جن کی عمر لمبی ہو اور وہ برے اعمال کریں۔”
(مسند احمد: 15233، صحیح الجامع: 3297)

اگر کوئی یوں دعا کرے:

"أطال الله بقائك على طاعته” (اللہ آپ کو اپنی طاعت کے لیے طویل عمر دے)

تو یہ دعا جائز ہے، کیونکہ یہ لمبی عمر کے ساتھ نیک اعمال کی قید لگا رہی ہے۔

3. "اللہ آپ کے ایام کو دوام بخشے” کہنا درست نہیں

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:

"أدام الله أيامك” (اللہ آپ کے ایام کو دوام بخشے) دعا میں حد سے تجاوز ہے، کیونکہ دنوں کا دوام محال ہے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿كُلُّ مَن عَلَيها فانٍ ﴿٢٦﴾ وَيَبقىٰ وَجهُ رَ‌بِّكَ ذُو الجَلـٰلِ وَالإِكر‌امِ ﴿٢٧﴾
(الرحمٰن: 26-27)

"زمین پر موجود ہر چیز فنا ہو جائے گی، اور صرف تمہارے رب کی جلیل و کریم ذات باقی رہے گی۔”

اسی طرح فرمایا:

﴿وَما جَعَلنا لِبَشَرٍ‌ مِن قَبلِكَ الخُلدَ ۖ أَفَإِي۟ن مِتَّ فَهُمُ الخـٰلِدونَ﴾
(الأنبیاء: 34)

"ہم نے تم سے پہلے کسی بشر کے لیے ہمیشہ کی زندگی نہیں رکھی، تو کیا اگر تم مر جاؤ گے تو یہ لوگ ہمیشہ زندہ رہیں گے؟”

یہ واضح دلیل ہے کہ کسی بھی انسان کے لیے دائمی زندگی ممکن نہیں، اس لیے "اللہ آپ کے ایام کو ہمیشہ رکھے” کہنا غلط اور غیر شرعی ہے۔

عمر کی درازی کی دعا کے جواز پر دلائل

1. انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے لیے نبی ﷺ کی دعا

نبی اکرم ﷺ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے لیے دعا فرمائی:

اللهم اكثر ماله و ولده واطل عمره واغفرله
(صحیح الادب المفرد للبخاری: 653، الصحیحۃ للالبانی: 2541)

"اے اللہ! اس کے مال اور اولاد میں برکت دے، اس کی عمر دراز کر اور اس کے گناہ معاف فرما۔”

یہ واضح دلیل ہے کہ لمبی عمر کی دعا کی جا سکتی ہے، بشرطیکہ اس کے ساتھ نیک اعمال اور مغفرت کی دعا بھی شامل ہو۔

نتیجہ

1. مکروہ دعائیں:

"اللہ آپ کے ایام کو ہمیشہ رکھے” → کیونکہ دوام صرف اللہ کے لیے ہے۔
"اللہ آپ کو ہزار سال کی عمر دے” → کیونکہ لمبی عمر ہمیشہ فائدہ مند نہیں ہوتی۔

2. جائز دعائیں:

◈ "اللہ آپ کی عمر میں برکت دے”
◈ "اللہ آپ کو طویل عمر دے اور نیک اعمال کی توفیق دے”
◈ "اللہ آپ کے مال، اولاد اور عمر میں خیر و برکت عطا فرمائے”

یہ دعائیں قرآن و سنت کے مطابق ہیں اور نبی ﷺ نے صحابہ کے لیے ایسی دعائیں کی ہیں۔

لہذا، اگر کوئی طویل عمر کی دعا کرنا چاہے تو اسے نیک اعمال اور مغفرت کے ساتھ مشروط کرنا چاہیے، ورنہ صرف "اللہ آپ کی عمر دراز کرے” کہنا شرعی لحاظ سے ناپسندیدہ ہے۔

واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1