سوال
دراج بن سمعان راوی کو دکتور بشار عواد اور دکتور شعیب ارناؤط نے (تحریر تقریب التهذيب :۱۸۲۴) میں ضعیف لکھا ہے، کیا فی الواقع یہ ضعیف ہی ہے؟
(ایک سائل)
جواب
دراج بن سمعان بعض محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں، مثلاً:
➊ امام احمدؒ نے فرمایا :
”هذا روى مناكير كثيرة “
(سؤالات أبي داود للإمام أحمد :259)
➋ امام نسائیؒ نے فرمایا :
"ليس بالقوي“
(الضعفاء والمتروكون :187)
➌ امام دارقطنیؒ نے فرمایا:
”ضعیف“
(سؤالات الحاكم للدارقطني: 261)
➍ امام ابو حاتم الرازیؒ نے فرمایا:
”دراج في حديثه صنعة “
(علل الحديث لإبن أبي حاتم 3/674)
◈ ان کے مقابلے میں جمہور محدثین نے دراج بن سمعان کی توثیق فرمائی ہے جو اختصار کے ساتھ پیش خدمت ہے:
➊ امام یحیٰی بن معین نے فرمایا :
”ثقة”
(تاریخ ابن معين ، رواية الدارمي: 315)
➋ امام عثمان بن سعید نے فرمایا :
’’صدوق“
(الجرح والتعديل 442/3)
➌ امام ابن حبان نے کتاب الثقات (۱۱۴/۵) میں ”ثقہ‘‘ قرار دیا۔
➍ امام ابن شاہین نے ”ثقة‘‘ قرار دیا۔
(تاریخ اسماء الثقات : 349)
➎ امام ترمذی
(سنن الترمذي: 2033)
➏ امام ابن الجارود
(المنتقى: 336,1035)
➐ امام ابن خزیمہ
(صحيح ابن خزيمة :653,1502)
➑ امام حاکم
(المستدرك 232/2)
➒ ابو الحسن ابن القطان
(بيان الوهم والإيهام في كتاب الأحكام: 273,378/4)
➓ حافظ ذہبی
(تلخیص المستدرك: 426/2,534/2)
⓫ حافظ ابن حجر
(الأمالي المطلقة ص223، التقريب: 1824 و قال: صدوق)
ان تمام محدثین نے تصحیح و تحسین کے ذریعے سے دراج بن سمعان کی توثیق فرمائی ہے۔
⓬ حافظ ہیشمی نے فرمایا:
’’ثقة‘‘
(مجمع الزوائد: 187/1)
تنبیه :
مذکورہ بالا تمام علماء و محدثین نے ”دراج عن أبی الهیثم“ کے سلسلے کو بھی صحیح قرار دیا ہے، جیسا کہ امام ابن شاہین نے امام ابن معین سے نقل کیا :
"ما كان بهذا الإسناد فليس به۔
(تاریخ اسماء الثقات: 34)
ہمارے نزدیک راجح یہی ہے کہ بعض متاخرین کے علاوہ متقدمین میں سے کسی نے دراج عن ابی الہیشم کے سلسلے کو ضعیف نہیں کہا : یعنی متقدمین میں سے بعض نے محض دراج کو ضعیف کہا ہے۔ (جو مرجوح ہے) نہ کہ سلسلہ دراج عن ابی الہیثم کو اور اس کے برعکس ایک جماعت نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
◈اس سلسلے میں مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو:
اضواء المصابيح في تحقيق مشكوة المصابيح للأستاذ الحافظ زبير علي زئيؒ(1/288)
خلاصة التحقيق :
دراج بن سمعان صدوق وحسن الحدیث راوی ہیں، کیونکہ جمہور نے ان کی توثیق فرمائی ہے اور جن بعض محدثین نے انھیں مجروح قرار دیا ہے وہ جرح جمہور کے مقابلے میں ہونے کی وجہ سے ناقابل التفات ہے۔ واضح رہے کہ دکتور شعیب ارناؤط وغیرہ نے بھی دراج مذکور کو صدوق و حسن الحدیث ہی قرار دیا ہے۔
دیکھئے مسند أحمد ، الموسوعة الحديثية (1/444)
اور یہی راجح ہے، لہذا تحریر تقریب التهذیب میں ان میں دراج کو ضعیف کہنا درست نہیں ہے۔