212- داڑھی مونڈنے کی اجرت لینا
خط کرنا اور داڑھی مونڈنا حرام اور علانیہ برائی ہے، مسلمان کے لیے ایسا کرنا جائز ہے نہ اس سلسلے میں کوئی معاونت فراہم کرنا ہی روا ہے، لہٰذا اس کی اجرت اور کمائی حرام کی کمائی ہے۔ جو ایسا کرتا ہے اس کو چاہیے کہ وہ اس سے توبہ کرے اور آئندہ نہ کرنے کا عزم کرے۔
اگر اس کو اس کی حرمت کے متعلق شرعی حکم معلوم ہے تو جو کمائی اس نے اس کام کے ذریعے کمائی ہے اس کا صدقہ کر دے، اگر اس کو اس کی حرمت کے متعلق شرعی حکم کا علم نہیں تھا تو پھر جو ہوا سو ہوا، اس میں کوئی پکڑ نہیں، لیکن آئندہ کے لیے خبردار ہو جانا چاہیے، جس طرح اللہ تعالیٰ سود خوروں کے متعلق فرماتے ہیں:
«فَمَن جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَىٰ فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَنْ عَادَ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ» [البقرة: 275]
”پھر جس کے پاس اس کے رب کی طرف سے کوئی نصیحت آئے پس وہ باز آجائے تو جو پہلے ہو چکا وہ اسی کا ہے اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے اور جو دوبارہ ایسا کرے تو وہی آگ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔“
صحیحین میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”مونچھیں چھوٹی کرواؤ، داڑھی چھوڑ دو اور مشرکوں کی مخالفت کرو۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 5893 صحيح مسلم 259/52]
اور صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مونچھیں کاٹو، داڑھی لٹکاؤ اور مجوسیوں کی مخالفت کرو۔“ [صحيح مسلم 260/55]
لہٰذا ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ داڑھی بڑھانے اور مونچھیں چھوٹی کرنے کے متعلق اللہ تعالیٰ کا حکم مانے اور اس بات سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے کہ لوگوں کی اکثریت اس سنت کی مخالفت اور کھلم کھلا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کر رہی ہے۔
[ابن باز: مجموع الفتاوي و المقالات: 337/19]
——————
213- بیماروں پر پڑھائی کر کے اجرت لینے کا حکم
بیمار کو دم کر کے اجرت لینے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ صحیحین میں ثابت ہے کہ چند صحابہ کرام عرب کے ایک قبیلے کے پاس حاضر ہوئے، انہوں نے ان کی مہمان نوازی نہ کی، اس دوران میں ان کے سردار کو کوئی زہریلی چیز نے ڈس لیا، انہوں نے ہر کوشش کی لیکن بے سود، آخر کار ان میں چند لوگ ان صحابہ کرام کے پاس آئے اور کہنے لگے: تم میں کوئی دم کرنے والا ہے؟ ہمارے سردار کو کسی چیز نے ڈس لیا ہے۔ انہوں نے کہا: ہاں، لیکن تم نے ہماری مہمان نوازی نہیں کی، اس لیے ہم اجرت کے بغیر دم نہیں کریں گے، انہوں نے بکریوں کے ایک ریوڑ پر اتفاق کر لیا، ایک صحابی نے سورت فاتحہ پڑھ کر اسے دم کیا تو وہ تندرست ہو گیا اور انہوں نے وہ ریوڑ ان کو دے دیا۔
کچھ صحابہ کرام کہنے لگے: جب تک ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس معاملے کی خبر نہ دے لیں تب تک ہم کچھ نہیں کریں گے، جب وہ مدینہ طیبہ پہنچے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انہوں نے اس معاملے کی خبر دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے درست کیا۔ [صحيح البخاري، رقم الحديث 2276]
لہٰذا مریض، جادو زدہ یا کسی پاگل کو پانی اور تیل پر دم کر کے علاج کرنے اور اس کی اجرت لینے میں کوئی حرج نہیں، لیکن مریض پر پڑھ کر اس کو پھونک مارنا زیادہ مناسب اور افضل ہے۔
سنن ابو داود میں صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس بن شماس کے لیے پانی پر دم کیا اور وہ ان پر بہا دیا۔ [ضعيف۔ الضعيفة، رقم الحديث 1005]
نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
”دم میں اگر کوئی شرکیہ چیز نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔“ [صحيح مسلم 2200/64]
یہ صحیح حدیث مریض پر دم کرنے اور پانی اور تیل وغیرہ پر دم کرنے میں عام اور سب کو شامل ہے۔
[ابن باز: مجموع الفتاوي و المقالات: 339/19]
——————
214- کرائے دار کو گھر میں ٹیلی ویژن رکھنے سے منع کرنے کا حکم
اگر ایک معین مدت تک معاہدہ ہو تو وہ اس وقت تک اس کو منع نہیں کر سکتا جب تک مدت ختم نہ ہو جائے، جب مدت ختم ہو جائے تب کہہ سکتا ہے کہ اسے اٹھاؤ یا ہم معاہدہ ختم کر رہے ہیں۔
اس حالت میں یعنی کرائے کی مدت کے دوران میں اگر کرائے دار ٹیلی ویژن رکھتا ہے تو مالک کو کوئی گناہ نہیں کیونکہ اس نے اس کام کے لیے اسے گھر کرائے پر نہیں دیا تھا۔
[ابن باز: مجموع الفتاوي و المقالات: 8/150]
——————
215- عورتوں کو کرائے پر سونا چاندی دینے کا حکم
اس میں کوئی حرج نہیں کہ کوئی آدمی کسی عورت کو ایک دو دن یا ایک دو گھنٹے کے لیے سونے اور چاندی کے زیورات پہنے کے لیے کرائے پر دے، کیونکہ یہاں ان سے فائدہ اٹھانا مباح اور جائز ہے اور جو جائز فائدہ ہو اسے کرائے پر دینا بھی جائز ہے۔
[ابن باز: مجموع الفتاوي و المقالات: 26/150]
——————
216- ایسے شخص کو گھر کرائے پر دینے کا حکم جس کے متعلق علم ہو کہ وہ اس میں ڈش لگائے گا
کسی انسان کے پاس کوئی گھر، ریسٹ ہاؤس یا کوئی کیمپ وغیرہ ہو اور کوئی انسان اسے کرائے پر لینے کا خواہش مند ہو، مالک کو علم ہو کہ یہ کرائے دار اس میں ڈش لگائے گا، جو عقائد، اخلاق اور عادات تباہ کر دینے والی چیز ہے، تو اس کو کرائے پر دینا جائز نہیں، لیکن اگر وہ اس میں رہائش رکھنا چاہتا ہو اور کرائے پر دینے والے کو علم نہ ہو کہ وہ اس میں ڈش لگائے گا، کرائے دار جب وہاں منتقل ہو گیا اور اس نے ڈش لگائی تو عقد اجارہ (کرائے پر دینا) درست ہوگا، لیکن جب معاہدہ ختم ہو جائے تو مالک کہہ سکتا ہے کہ یا ڈش نکال یا تو خود نکل جا۔ جہاں تک مال کا حکم ہے اگر اجارہ حرام ہو تو کرایہ بھی حرام ہوگا۔
[ابن عثيمين: لقاء الباب المفتوح: 18/119]
——————
217 – ملازم کا کمپنی کی اجازت کے بغیر اس کی گاڑی استعال کرنے کا حکم
کمپنی کی اجازت کے بغیر ملازم کے لیے ایسا کرنا جائز نہیں کیونکہ یہ اس کے پاس امانت ہے، اس لیے کمپنی یا حکومت کی اجازت کے بغیر اس کی گاڑی استعمال کرنا جائز نہیں، اگر کمپنی یا حکومت میں اس کی ڈیوٹی کا تعلق اس کے ساتھ ہو تو پھر کوئی حرج نہیں۔
[ابن باز: مجموع الفتاوي و المقالات: 342/19]
——————
218- اپنے کام میں لاپروائی کرنے والے ملازم کی تنخواہ کا حکم
جس تنخواہ میں کوئی شبہ ہو اس سے بچنا چاہیے اور اپنے کام پر توجہ دینی چاہیے تاکہ تنخواہ شبہے سے پاک ہو، کیونکہ یہ ملازم کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنی ذمے داری اچھی طرح نبھائے تاکہ اس کی تنخواہ حلال ہو، اگر کوئی ملازم لا پروائی کرتا ہے تو اس کی تنخواہ کا کچھ حصہ حرام ہو جاتا ہے، لہٰذا اس سے بچنا چاہیے اور خدا کا خوف دل میں رکھنا چاہیے۔
[ابن باز: مجموع الفتاوي و المقالات: 343/19]
——————
219- نمائندگی نہ کرنے پر نمائندگی کا الاؤنس لینا
آپ پر واجب ہے کہ اسے واپس کر دیں اور کیونکہ آپ نمائندگی نہ کرنے کی وجہ سے اس کے حقدار نہیں، اگر واپس کرنا آسان نہ ہو تو پھر اسے نیکی کے کاموں میں صرف کریں، غریبوں پر صدقہ کر دیں، اس کے ساتھ ساتھ توبہ و استغفار کریں اور دوبارہ ایسا کام کرنے سے بچیں۔
[ابن باز: مجموع الفتاوى و المقالات: 343/19]
——————
220- تعویذ لکھنا اور لٹکانا
سوال: اللہ تعالیٰ سورۂ بقرہ میں فرماتے ہیں:
«فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَٰذَا مِنْ عِندِ اللَّهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۖ فَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا يَكْسِبُونَ»
[البقرة: 79]
”پس ان لوگوں کے لیے بڑی ہلاکت ہے جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں، پھر کہتے ہیں یہ اللہ کے پاس سے ہے، تاکہ اس کے ساتھ تھوڑی قیمت حاصل کریں، پس ان کے لیے بڑی ہلاکت اس کی وجہ سے ہے جو ان کے ہاتھوں نے لکھا اور ان کے لیے بڑی ہلاکت اس کی وجہ سے ہے جو وہ کماتے ہیں۔“
اس آیت کا کیا مطلب ہے؟ کیا تعویذ لکھنے والے اور اس کی اجرت کا تقاضا کرنے والے بھی اس میں داخل ہیں؟
جواب: اس آیت کریمہ کا یہ معنی ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتے ہیں، پھر اپنے ہاتھ سے کوئی کلام لکھتے ہیں اور لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جاہ وحشمت یا مال وغیرہ کی طرح کا کوئی دنیوی فائدہ اٹھا سکیں، تو ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے ڈرایا ہے۔ پھر یہ بیان کیا ہے کہ یہ وعید جھوٹ لکھنے اور جھوٹی کتابت کے ذریعے کمائی جانے والی روزی دونوں کو شامل ہے۔
لیکن وہ لوگ جو تعویذ لکھتے ہیں، جنھیں مریض کے گلے میں کسی بیماری سے تندرستی پانے یا احتیاطا بیماری سے بچانے کی خاطر پہنایا جاتا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ انہیں لگانا جائز بھی ہے کہ نہیں؟ اگر یہ علم نہ ہو کہ ان تعویزوں میں کیا لکھا ہوا ہے یا ان میں حرام چیزیں لکھی ہیں، جیسے شیطانوں اور جنوں وغیرہ کے نام تو ایسے تعویزات لٹکانا کسی صورت جائز نہیں، اگر ان تعویذوں میں قرآنی آیات یا احادیث مبارکہ لکھی ہوں تو ان کے حلال ہونے میں علما کے دو اقوال ہیں اور راجح یہی ہے کہ انہیں کھانا جائز نہیں، کیونکہ نا جائز طریقے سے اللہ تعالیٰ کی عبادت اور بندگی کرنا بدعت ہے، نیز کسی ایک چیز کے سبب ہونے کا عقیدہ رکھنا، جسے اللہ تعالیٰ نے سبب نہ بنایا ہو، شرک کی ایک قسم ہے، اس بنیاد پر راجح اور صحیح قول یہ ہے کہ مریض پر کوئی چیز بھی لٹکانی نہیں چاہیے، خواہ وہ قرآنی ہو کہ غیر قرآنی، اس طرح یہ تعویذات لکھ کر مریض کے سرہانے وغیرہ کے نیچے رکھنا بھی جائز نہیں۔
[ابن عثیمين: نورعلي الدرب: 13/231]
——————