داڑھی مونڈنے والے کی کمائی کا شرعی حکم
تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

شیو کی کمائی

سوال : کیا داڑھی مونڈنے والا حجام بھی گنہگار ہوگا؟ اور اس کی کمائی کا کیا حکم ہے؟
جواب : اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین شکل و صورت کے ساتھ پیدا فرمایا ہے اور مرد و زن کے درمیان جو امتیازات رکھے ہیں ان میں سے ایک امتیاز اور فرق داڑھی ہے۔ داڑھی مرد کی زینت ہے اور یہ ایسی زینت ہے کہ جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام انبیاء ورسل کو مزین فرمایا۔ اگر یہ بدصورتی اور قباحت کا باعث ہوتی تو یہ کسی نبی اور رسول کو اللہ تعالیٰ عطا نہ کرتا۔ داڑھی فطرتِ اسلام میں داخل ہے۔
جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
« عَشْرٌ مِّنَ الْفِطْرَةِ قَصُّ الشَّارِبِ وَاِعْفَاءُ اللِّحْيَةِ » [مسلم، كتاب الطهارة : باب خصال الفطرة 261]
”دس خصلتیں فطرت سے ہیں، ان میں سے مونچھیں تراشنا اور داڑھی بڑھانا بھی ہے۔“
«إعفاء اللحية» کا معنی یہ ہے کہ داڑھی کو اس کے حال پر چھوڑ دے، اس میں کاٹ چھانٹ نہ کرے۔
امام نووی رحمہ اللہ «اَعْفُوْا، اَوْفُوْا، اَرْخُوْا، اَرْجُوْا، وَفِّرُوْا» پانچ طرح کے الفاظ نقل کر کے فرماتے ہیں :
”ان سب کا معنی ہے داڑھی کو اپنی حالت پر چھوڑ دو۔“ [شرح مسلم 129/1]
قاضی شوکانی رحمہ اللہ ایک مقام پر رقمطراز ہیں :
«ان هٰزه الاشياء ازا فعلت اتصف فاعلها بالفطرة التى فطره الله العباد عليها و حثهم عليها واستحبها لهم ليكونوا علٰي اكمل الصفات واشرفها صورة“» [نيل الأوطار 130/1]
”ان اشیاء پر عمل کیا گیا تو ان کا عامل اس فطرت سے موصوف ہوا جس پر اللہ تعالیٰ نے بندوں کو پیدا کیا اور ان کو اس پر رغبت دلائی اور ان کے لیے پسند فرمایا تاکہ وہ صورت کے لحاظ سے کامل ترین اور اعلیٰ صفات کے مالک بن جائیں۔“
اس کے بعد مزید فرماتے ہیں :
«هِيَ السُّنَّةُ الْقَدِيْمَةُ الَّتِيْ اِخْتَارَهَا الْاَنْبِيَاءُ وَاتَّفَقَتْ عَلَيْهَا الشَّرَائِعُ فَكَاَنَّمَا اَمْرٌ جِبِلِّيٌّ يَنْطُوُوْنَ عَلَيْهَا» [نيل الأوطار 130/1]
”یہ سنت قدیمہ ہے جس کو تمام انبیاء علیہم السلام نے اختیار کیا اور تمام شریعتیں اس پر متفق ہیں کیونکہ یہ پیدائش اور طبعی چیز ہے جس پر سب اکھٹے ہیں۔“
صحیح مسلم کی اس حدیث سے واضح ہوا کہ داڑھی بڑھانا فطری اور جبلی امر ہے، اس کو منڈوانا یا کتروانا فطرت کو بدلنا ہے اور شیطانی عمل ہے۔ علاوہ ازیں دیگر متعدد صحیح احادیث میں داڑھی رکھنے کا حکم موجود ہے اور یہ بات اصول میں ثابت ہے کہ حکم وجوب پر دلالت کرتا ہے اور وجوب پر عمل نہ کرنا اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے اور جو شخص کسی دوسرے شخص کی داڑھی مونڈتا ہے وہ اس کے ساتھ گناہ پر تعاون کرتا ہے جو شرعاً بلکل منع ہے۔ جب داڑھی مونڈنا حرام اور گناہِ کبیرہ ہے تو اس پر تعاون کرنا گناہ پر تعاون ہے اور شرعاً حرام ہے۔ نیز یہ بھی یاد رہے کہ جس کام کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے اس کی اجرت اور کمائی بھی حرام ہے، لہٰذا داڑھی مونڈنا پھر اس پر اجرت لینا حرام ہے۔ اسی طرح داڑھی مونڈنے والے کو دکان کرائے پر دینا اس کے ساتھ فعلِ حرام پر تعاون ہے، یہ بھی حرام ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1