دائیں جانب تھوکنے کی ممانعت کے دلائل اور اسباب
یہ اقتباس الشیخ محمد منیر قمر کی کتاب احکام مساجد سے ماخوذ ہے۔

دائیں جانب تھوکنے کی ممانعت

قبلہ رو تھوکنے کی ممانعت کے بارے میں وارد احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اقوال محدثین رحمہم اللہ کے بعد کسی خوش فہمی و خود فریبی میں مبتلا رہنا مناسب نہیں ہے۔ بلکہ ہمیں اس طرف کچھ توجہ دینی چاہیے۔ اور یہ تو قبلہ و کعبہ اور بیت اللہ کی عظمت و بزرگی اور عقیدت و احترام کا معاملہ ہے۔ جب کہ لگے ہاتھوں یہ بھی ذکر کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دائیں جانب تھوکنے سے بھی منع فرمایا۔ کیونکہ دائیں جانب کو بائیں پر فوقیت و شرف حاصل ہے۔ چنانچہ صحیحین و سنن اربعہ اور مسند احمد میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
كان النبى صلى الله عليه وسلم يعجبه التيمن فى تنعله وترجله وطهوره فى شأنه كله
بخاری 269/1، 523 – مسلم مع نووی 160-161/3/2 – صحیح ابی داؤد 3487 – صحیح ترمذی 498 – صحیح نسائی 4684 – ابن ماجه 401 – شرح النسہ 216 – صحیح الجامع 4918
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جوتا پہننے، کنگھی کرنے اور طہارت کرنے حتی کہ تمام امور (کی ابتداء کرنے) میں دایاں پہلو محبوب تھا۔
یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھانے پینے، نہانے، کپڑا پہننے، کوئی چیز پکڑنے، پکڑانے، مسجد میں داخل ہونے، تسبیح کرنے، لیٹنے، غرض ہر معاملہ میں دائیں ہاتھ، دائیں پاؤں اور دائیں پہلو کو پسند فرماتے تھے۔ اور اسی کی اپنی امت کے افراد کو تاکید بھی فرمائی ہے۔
البتہ ناک صاف کرنے اور استنجاء کرنے کے لیے بائیں ہاتھ کو، اور لیٹرین میں داخل ہوتے وقت اور مسجد سے نکلتے وقت بائیں پاؤں کو اولیت دیتے تھے۔ اور اس کا سبب بھی بڑا واضح ہے کہ دائیں ہاتھ اور پاؤں کو جو شرف حاصل ہے، یہ امور اس کے شایانِ شان نہیں ہیں۔ لہذا ان کے لیے بائیں کو خاص کر دیا گیا ہے۔ اور دائیں یا بائیں ہاتھ، پاؤں یا پہلو سے متعلقہ ان سب امور کے دلائل کتب حدیث میں موجود ہیں۔ جن کا سرِ دست تذکرہ خارج از موضوع ہے۔ لہذا اس سے صرفِ نظر کرتے ہیں۔

ممانعت کے دلائل

البتہ دائیں جانب تھوکنے کے دلائل کے سلسلے میں عرض ہے کہ صحاح و سنن اور معاجم و مسانید میں جہاں جہاں قبلہ رو تھوکنے کی ممانعت آئی ہے۔ وہیں وہیں دائیں جانب تھوکنے کی ممانعت بھی وارد ہوئی ہے۔ جن میں سے قبلہ رو تھوکنے کی طرح ہی بعض احادیث نماز و مسجد کے ساتھ خاص ہیں۔ جب کہ بعض دیگر اس قید سے آزاد اور مطلق ممانعت پر دلالت کرتی ہیں۔ اور وہ احادیث چونکہ ذکر کی جا چکی ہیں، لہذا انہیں یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں۔ البتہ ان کے بارے میں شارحین حدیث اور آئمہ علماء نے جو تشریحی افادات رقم فرمائے ہیں۔ ان میں سے بعض اور چند آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے تذکرے پر ہی اکتفاء کرتے ہیں۔
➊ چنانچہ ابھی ہم نے جو حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ صحیحین کے حوالے سے ذکر کی ہے۔ اور بخاری والی حدیث حضرت انس رضی اللہ عنہ کہ جس میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
لا يتفلن أحدكم بين يديه ولا عن يمينه ولكن عن يساره أو تحت رجله
بخاری مع الفتح 510/1
تم میں سے کوئی شخص دائیں جانب ہرگز نہ تھوکے، بلکہ اپنی بائیں جانب یا پاؤں کے نیچے تھوکے۔
ان دونوں حدیثوں کی شرح میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
ليس فيها تقييد ذلك بحالة الصلاة
فتح الباری 510/1
ان دونوں حدیثوں میں (دائیں جانب تھوکنے کی ممانعت کے لیے) حالتِ نماز کی بھی کوئی قید یا شرط نہیں ہے۔
اور آگے ان روایات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ جن میں یہ قید وارد ہوئی ہے۔
➋ اور انہی کی طرح ہی علامہ بدرالدین عینی رحمہ اللہ نے بھی عمدۃ القاری میں ایک جگہ لکھا ہے:
ثم هذا الحديث غير مقيد بحالة الصلاة
عمدۃ القاری 152/4/2
ویسے بھی یہ حدیث نماز کے ساتھ مقید نہیں ہے۔
اور اس سے اگلے ہی صفحے پر لکھتے ہیں: وليس فيه بالصلاة اور اس حدیث میں نماز کی کوئی قید و شرط نہیں ہے۔
حافظ عسقلانی اور علامہ عینی رحمہ اللہ کی شرح بخاری میں ان تصریحات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ حال ہی میں ذکر کی گئی دونوں حدیثوں میں دائیں جانب تھوکنے کی ممانعت مطلق ہے، نماز کی کوئی قید و شرط نہیں ہے۔ اور یہ حدیثیں صحیح بخاری و مسلم کے علاوہ سنن و مسانید اور معاجم میں بھی مروی ہیں۔
➌ شارح مسلم امام نووی رحمہ اللہ نے دائیں جانب تھوکنے کو جزماً ممنوع قرار دیا ہے۔ وہ نماز کی حالت میں ہو یا حالتِ نماز کے بغیر، اور چاہے مسجد میں ہو یا مسجد کے باہر ہو ۔
شرح نووی 39/5/3 – فتح الباری 510/1
➍ اور علامہ صنعانی رحمہ اللہ نے ”بلوغ المرام“ کی شرح ”سبل السلام “میں لکھا ہے:
ومثل البصاق إلى القبلة البصاق عن اليمين فإنه منهي عنه مطلقا أيضا
سبل السلام 149/1/1
قبلہ رو تھوکنے کی طرح ہی دائیں جانب تھوکنا بھی مطلقاً ممنوع ہے۔
اور یہ بات ذکر کرنے کے بعد انہوں نے بھی وہ احادیث یا آثار ہی ذکر کیے ہیں، جو ان کی اس بات کے مؤید ہیں۔ اور یہ آثار دراصل سب سے پہلے حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے فتح الباری میں ذکر فرمائے تھے۔ اور پھر ”عمدۃ القاری“ میں علامہ عینی نے، ”سبل السلام “ میں امیر صنعانی نے، اور ”نیل الاوطار“ میں امام شوکانی رحمہ اللہ نے نقل کیے ہیں۔ ان میں سے:

اثر اول:

سب سے پہلا اثر مصنف عبدالرزاق اور دیگر کتب احادیث و آثار میں مروی ہے، جس میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں مذکور ہے:
أنه كره أن ينصق عن يمينه وليس فى الصلاة
فتح الباری 510/1 – عمدۃ القاری 152/4/2 – سبل السلام 149/1/1 – نیل الاوطار 141/2/1
وہ دائیں جانب تھوکنے کو مکروہ سمجھتے تھے، اگرچہ کوئی نماز کی حالت میں نہ ہو۔

اثر ثانی:

اور دوسرا اثر حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، جس میں وہ فرماتے ہیں:
ما بصقت عن يميني منذ أسلمت
حوالات بالا
میں جب سے مسلمان ہوا ہوں، تب سے میں نے کبھی دائیں جانب نہیں تھوکا۔

اثر ثالث:

جب کہ تیسرا اثر مجدد حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے بارے میں ہے، جس میں ہے:
إنه نهى ابنه عنه مطلقا
ایضاً
انہوں نے اپنے بیٹے کو مطلقاً تھوکنے سے منع فرما دیا تھا۔

اسباب ممانعت

اور یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رکھیں کہ قبلہ رو تھوکنے کی ممانعت تو ظاہر ہے کہ
① احترام و مقامِ قبلہ کی وجہ سے ہے جب کہ
② دائیں جانب تھوکنے کی ممانعت کا سبب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں تیمن یعنی دائیں ہاتھ، پاؤں، پہلو، اور جانب کا محبوب و مرغوب ہونا ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی اشارہ کیا جا چکا ہے۔ اور تیمن دائیں پہلو کے اس مشرف و فوقیت کے علاوہ دائیں جانب تھوکنے کی ممانعت کا۔
③ ایک اور سبب یہ بھی ہے کہ آدمی کے دائیں پہلو میں نیکیاں لکھنے والا فرشتہ ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں دائیں جانب تھوکنے کی ممانعت کے ساتھ ہی اس کا سبب بھی مذکور ہے کہ :
فإن عن يمينه ملكا
بخاری 512/1
اس کی دائیں جانب فرشتہ ہوتا ہے۔

بعض اشکالات اور ان کا حل

قبلہ رو یا دائیں جانب تھوکنے کے اس موضوع کو ختم کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ان بعض اشکالات کا حل بھی پیش کر دیا جائے۔ جو سابقہ تفصیلات میں سے بعض مقامات پر پیش آتے ہیں۔ یا بالفاظ دیگر اس سلسلے میں جو بعض سوالات ذہن میں اٹھتے ہیں۔ ان کا جواب دے دیا جائے، تا کہ کوئی خلش باقی نہ رہ جائے۔ چنانچہ اس سلسلے میں:

پہلا اشکال یا سوال:

تو یہ ذہن میں آتا ہے کہ اگر ابھی ذکر کی گئی حدیث کی رو سے کہا جائے کہ دائیں جانب والے فرشتے سے مراد کاتب یعنی نیکیاں لکھنے والا فرشتہ ہے، تو اس میں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ صرف دائیں جانب کو ہی کیوں مخصوص کیا گیا ہے؟ جب کہ بائیں جانب دوسرا فرشتہ بھی تو ہوتا ہے۔
پہلا جواب:
اس اشکال کو حل کرنے کے لیے اہل علم نے اس کے کئی جوابات دیے ہیں۔ جن میں سے پہلا جواب بعض قدماء نے یہ دیا ہے کہ دائیں جانب والے فرشتے کو خاص وجہ سے مخصوص کیا گیا ہے۔ لیکن یہ بات محلِ نظر ہے
فتح الباری 513/1
اور اس کے محلِ نظر ہونے کا باعث بڑا واضح ہے کہ اس سلسلے میں بائیں جانب والے فرشتے کا کیوں خیال نہیں رکھا گیا، جب کہ وہ بھی تو فرشتہ ہی ہے، اگرچہ وہ نیکیاں نہیں بلکہ برائیاں لکھنے پر مامور ہے۔
دوسرا جواب:
اور اس اشکال کا دوسرا جواب بعض متأخرین اہل علم نے یہ دیا ہے کہ نماز بدنی اعمال میں سے سب سے بڑا اور اہم عمل (ام الحسنات البدنیہ) ہے، لہذا دورانِ نماز برائیاں لکھنے والے فرشتے (کاتب السیئات) کو کوئی دخل ہی حاصل نہیں ہوتا۔ اور مصنف ابن ابی شیبہ کی موقوف روایت جو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اس سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے، کیونکہ اس میں ہے کہ دائیں جانب بھی نہ تھوکیں کیونکہ:
فإن عن يمينه كاتب الحسنات
ایضاً
اس کی دائیں جانب نیکیاں لکھنے والا فرشتہ ہوتا ہے۔
علامہ عینی رحمہ اللہ یہی جواب نقل کر کے لکھتے ہیں کہ:
یہ بات بھی محلِ نظر ہے، کیونکہ برائیاں لکھنے والا فرشتہ اگرچہ دورانِ نماز لکھتا نہیں، لیکن کم از کم اپنی جگہ سے غائب بھی تو نہیں ہوتا، بلکہ وہ بھی موجود رہتا ہے ۔
عمدۃ القاری 155/4/2
تیسرا جواب:
اور اس اشکال کا تیسرا جواب یہ ہے کہ طبرانی میں حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے:
فإنه يقوم بين يدي الله وملكه عن يمينه وقرينه عن يساره
بحوالہ فتح الباری ایضاً
نمازی اپنے اللہ کے سامنے اس طرح کھڑا ہوتا ہے کہ فرشتہ اس کی دائیں جانب اور قرین (شیطان) اس کی بائیں جانب ہوتا ہے۔
اس شکل میں دائیں جانب تو فرشتہ ہوا۔ لہذا ادھر تھوکنا ممنوع ہے۔ اور اگر بائیں جانب تھوکا جائے گا ۔ تو وہ قرین یا شیطان پر پڑے گا۔ اور ممکن ہے کہ اس وقت بائیں جانب والا فرشتہ ایسی جگہ ہوتا ہو کہ وہ تھوک سے بچ جاتا ہو۔ یا پھر نماز کی حالت میں بائیں جانب والا فرشتہ بھی دائیں جانب ہی چلا جاتا ہوگا۔ اور علامہ عینی رحمہ اللہ نے فاحسن ما يجاب به کہتے ہوئے یہی تیسرا جواب ہی پسند کیا ہے ۔
فتح الباری ایضاً – سبل السلام 151/1 – عمدۃ القاری 155/4/2
اور ان تینوں طرح کے جوابات کا تعلق بظاہر نماز کی حالت میں دائیں جانب تھوکنے کی ممانعت سے ہے۔ اور ممانعت کا کم از کم کوئی ایک سبب تو واضح اور ظاہر ہے۔ جب کہ نماز سے باہر اور عام حالت میں دائیں جانب کے تھوکنے کی ممانعت کا سبب بھی وہی ہے جو ذکر کیا جا چکا ہے۔ کہ دایاں پہلو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت محبوب تھا۔ لہذا اس طرف منہ کر کے تھوکنا بھی ممنوع کر دیا گیا ہے۔

دوسرا اشکال یا سوال:

اور سابق میں ذکر کیے گئے کے بارے میں دوسرا اشکال یعنی معتزلہ کی طرف سے پیدا کیا گیا ہے کہ قبلہ رو تھوکنے کی ممانعت کا جو یہ سبب احادیث میں آتا ہے کہ:
إن ربه بينه وبين القبلة
بخاری عن انس 508/1
اس کے اور قبلے کے مابین اس کا پروردگار ہوتا ہے۔
اور صحیح مسلم و ابوداؤد میں ہے:
فإن الله قبل وجهه
مسلم مع نووی 136-137/18/9 – صحیح ابی داؤد 454 – صحیح ترغیب 116/1
یقیناً اللہ تعالیٰ اس کے سامنے ہوتا ہے۔
اور ابوداؤد و مسند احمد، صحیح ابن خزیمہ اور مستدرک حاکم میں ہے:
فإنما يستقبل ربه
صحیح ابی داؤد 455
وہ اپنے رب کے سامنے ہوتا ہے۔
یا پھر ہے:
فإن الله عز وجل بين أيديكم
صحیح ترغیب 115/1
پس یقیناً اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے ہے۔
اس سے انہوں نے اپنے باطل نظریے کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اللہ تعالیٰ بذاتہ ہر جگہ موجود ہے۔
جواب:
ان کا یہ اشکال ان کی جہالت و کم عقلی کا منہ بولتا ثبوت ہے، کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ کو ان کے بقول ہر جگہ بذاتہ خود موجود مانا جائے، تو پھر بائیں جانب اور پاؤں کے نیچے تھوکنا بھی ممنوع ہونا ضروری تھا۔ حالانکہ ان دو جگہوں پر تھوکنے کے جواز کا ذکر بھی انہی احادیث میں مذکور ہے ۔جن میں قبلہ رو تھوکنے کی ممانعت کے سبب یعنی قبلہ رو اور تھوکنے والے کے مابین اللہ تعالیٰ کے ہونے کا بھی ہو سکتا ہے۔
اور ان احادیث سے اللہ تعالیٰ کے مستوي على العرش ہونے کی نفی بھی نہیں ہوتی۔ بلکہ ان احادیث میں تو یہ بتایا گیا ہے کہ بندہ جدھر بھی منہ کرے وہ اللہ تعالیٰ کے روبرو ہی رہتا ہے۔ بلکہ یہ اس کی تمام مخلوقات کے لیے عام ہے۔ اور اسے آسانی کے ساتھ اس مثال سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک دائرہ بنایا جائے تو اس کے مرکز سے نکلنے والے ہر خط کو جہاں سے بھی نکالیں وہ دائرے یا محیط کے روبرو ہی ہوگا۔
اور اللہ تعالیٰ کا معاملہ تو اس سے بھی کہیں واضح ہے کہ وہ تو ہر چیز کو محیط ہے۔ لہذا اس کی تمام مخلوقات گویا اس کے روبرو ہوتی ہیں۔ لہذا یہ تمام اشکالات و اعتراضات باطل ٹھہرتے ہیں۔ اور قبلہ رو تھوکنے کی ممانعت احترامِ قبلہ کے لیے ہے۔
اس موضوع کی تفصیل شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتب خصوصاً ”الحمویہ“ اور ”الواسطیہ “میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ایسے ہی فتح الباری (508/1) میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اللہ تعالیٰ کے ہر جگہ موجود ہونے کا رد کیا ہے۔ اور دورِ حاضر کے معروف شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے حاشیہ ”فتح الباری“ میں اللہ تعالیٰ کے مستوی علی العرش ہونے کی بھرپور تائید کی ہے۔ اور اسی بات کو محدثِ عصر شیخ البانی رحمہ اللہ نے ”صحیح الترغیب والترہیب“ جلد اول ص 116 کے حاشیے میں بڑے عمدہ طریقے سے سمجھایا ہے۔ اور یہ بھی تب ہے جب اللہ تعالیٰ کے روبرو ہونے کا کہا جائے، ورنہ تو اس کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ جیسا کہ امام خطابی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس کے سامنے اس کے پروردگار ہونے والی عبارت میں دراصل حذف ہے۔ اصل عبارت کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ اللہ کی عظمت یا اس کا ثواب سامنے ہوتا ہے۔ اور علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ کلام مجازاً کعبہ شریف کی عظمت و شان کے بیان کے لیے صادر ہوا ہے۔
فتح الباری 508/1
اگر ان میں سے کسی مفہوم کو لے لیا جائے تو نہ کوئی اعتراض رہتا ہے، نہ اشکال۔

تیسرا اشکال یا سوال:

اور اب آخر میں ایک تیسرا سوال یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ بعض احادیث میں جو آیا ہے کہ نماز کے دوران قبلہ رو اور دائیں جانب مت تھوکو۔ بلکہ بائیں جانب یا پاؤں کے نیچے تھوکو۔ لہذا اگر بائیں جانب یا پاؤں کے نیچے تھوکا جائے تو یہ مسجد میں تھوکنا بھی ہو سکتا ہے۔ جو کہ ناجائز ہے اور آدابِ مسجد کے خلاف ہے۔
جواب:
اس کا جواب امام نووی رحمہ اللہ نے یہ دیا ہے کہ قبلہ رو اور دائیں جانب تھوکنے کی ممانعت تو مسجد اور خارج از مسجد دونوں کے لیے عام ہے۔ جب کہ بائیں جانب اور پاؤں کے نیچے تھوکنے کا تعلق مسجد سے باہر ہونے کی صورت سے ہے۔ لہذا مسجد میں نماز پڑھنے والے کو اگر ناچار تھوکنا ہی پڑے تو وہ اپنے کپڑے میں تھوکے۔ جیسا کہ احادیث گزری ہیں۔
اور مسجد میں تھوکنا چونکہ گناہ ہے، لہذا مسجد میں نہ تھوکے۔ جیسا کہ صحیحین، ابوداؤد، ترمذی اور نسائی میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
البصاق فى المسجد خطيئة
بخاری 511/1 – مسلم مع نووی 41/5/3 – صحیح ابی داؤد 449، 450 – صحیح ترمذی 468 – صحیح نسائی 698 – صحیح الجامع 2886 – صحیح ترغیب 117/1
مسجد میں تھوکنا ناجائز ہے۔
اور اسی حدیث میں یہ بھی ہے:
وكفارتها دفنها
اور اگر کسی سے یہ خطا سرزد ہو ہی جائے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اسے مسجد کی زمین میں دفن کرے۔
اور یہ بھی تب ہے جب مسجد میں ریت، مٹی یا کنکریٹ ہو۔ اور اگر مسجد پختہ ہو تو پھر اسے باہر پھینک کر جگہ صاف کرے. جیسا کہ امام نووی رحمہ اللہ نے اس کی تفصیل ذکر کی ہے۔ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی فتح الباری میں لکھا ہے کہ اگر پاؤں کے نیچے پختہ جگہ یا قالین و دری وغیرہ ہو تو پھر کپڑے میں تھوکے اور کپڑا بھی نہ ہو تو پھر تھوک کو نگل لینا ہی اولیٰ ہے، بہ نسبت اس کے کہ ممنوع فعل کا ارتکاب کیا جائے۔
فتح الباری 511-512/1 – شرح مسلم 41/5/3
اور اس موضوع کی تفصیلات نیل الاوطار (341-342/2/1) امام شوکانی رحمہ اللہ، اور سبل السلام (150-151/1/1) امیر صنعانی رحمہ اللہ میں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔
المختصر مسجد میں ہرگز نہ تھوکیں، اگر کوئی چارہ ہی نہ رہے تو کپڑے میں تھوکیں، نہ ہونے کی صورت میں نگل لینا اولیٰ ہے۔ اور آخری شکل میں تھوکنا ہی پڑے تو پھر بعد میں صاف کریں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس تفصیل و تفریق کو اچھا قرار دیا ہے۔
فتح الباری 513/1 – نیل الاوطار 341/2/1
ویسے بھی نماز میں اور مسجد کے اندر تھوکنے کی حماقت تو کوئی شاذ ہی کرتا ہوگا، کیونکہ اب ایسا دور کہاں؟ البتہ عام حالات میں قبلہ رو تھوکنے یا دائیں جانب تھوکنے کی بات ہے۔ تو وہ لاعلمی کی وجہ سے عام ہے، اور اس کے بارے میں متنبہ کرنا ہماری اصل غرض ہے۔ اور لگے ہاتھوں قلیل الوقوع مسئلہ بھی بیان کر دیا جائے۔ لہذا اصولی طور پر، اور ضروری حد تک یہ موضوع تو مکمل ہو گیا ہے۔

نیکی قبول، گناہ معاف:

یہاں ہم ایک بات کی وضاحت کر دینا مناسب سمجھتے ہیں۔ اور وہ بات یہ ہے کہ اسلام وہ دینِ کامل اور دینِ میسر و آسانی ہے کہ اس کے احکام فطرتِ انسانی کے عین موافق ہیں۔ اور کوئی ایسا حکم نہیں دیا گیا جو انسانی طاقت سے باہر ہو، جیسا کہ سورہ بقرہ کی آخری آیت میں ارشادِ الہی ہے:
﴿لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾
اللہ تعالیٰ کسی شخص پر بوجھ نہیں ڈالتا مگر جتنا کہ وہ اٹھا سکے۔
اس آیت کی رو سے پہلی بات تو یہ کہ اسلام کا کوئی حکم ایسا نہیں کہ جس پر عمل کرنا ناممکن ہو۔ البتہ اتنا ہے کہ بعض احکام اگرچہ معمولی سے ہوتے ہیں۔ لیکن وہ انسان سے توجہ چاہتے ہیں۔ جیسے یہی قبلہ رو تھوکنے کی ممانعت کا حکم ہے۔ تو یہی انتہائی آسان سی بات ہے کہ اگر لاابالی پن یا لاپرواہی نہ برتی جائے تو اس میں کوئی مشکل ہی پیش نہیں آتی۔ اور مومن سے یہی توقع رکھی جاتی ہے کہ اس کا کوئی فعل ایسا نہیں ہوتا جو لاپرواہی میں اس سے سرزد ہو۔ بلکہ وہ ہر قدم پھونک پھونک کر رکھتا ہے کہ مبادا کہیں غلطی یا سنت کی خلاف ورزی کا ارتکاب نہ ہو جائے۔ لیکن اس تمام تر حزم و احتیاط کے باوجود بھی مومن سے خطا اور غلطی کا ارتکاب ہو جانا بشری تقاضا ہے۔ کیونکہ عصمت صرف اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے۔ والعصمة لله وحده
یا پھر وہ اپنی عنایتِ خاص سے اپنے انبیاء کو معصومیت کا شرف عطا کرتا ہے۔ کیونکہ انہوں نے امتوں کی رہنمائی و رہبری کا منصب سنبھالنا ہوتا ہے۔ انبیاء و رسل کے سوا کوئی انسانی طبقہ معصوم عن الخطاء نہیں ہے۔ نہ صحابہ رضی اللہ عنہم، نہ تابعین، نہ آئمہ، نہ اولیاء، بلکہ ہر کسی سے خطا کا سرزد ہو جانا ممکن ہے۔ اور جب خطا کا صدور ممکن ہے تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس عظیم نعمت سے بھی سرفراز رکھا ہے کہ ہماری خطائیں مختلف طریقوں سے معاف کرتا ہے۔ حتیٰ کہ نیک کام کرنے سے خطا معاف ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ خود ربِ کائنات کا سورہ ہود آیت 114 میں ارشادِ گرامی ہے:
﴿أَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ اللَّيْلِ ۚ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ۚ ذَٰلِكَ ذِكْرَىٰ لِلذَّاكِرِينَ﴾
اور (اے پیغمبر) دن کے دونوں کناروں پر (یعنی فجر و عصر یا فجر و مغرب کی) نماز درستی سے ادا کریں۔ اور رات کے حصوں میں (یعنی عشاء یا مغرب و عشاء)، یہ اس لیے کہ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ یہ ان لوگوں کے لیے نصیحت ہے جو نصیحت مانتے ہیں۔
اور نیکیوں سے برائیاں کیسے معاف ہوتی ہیں۔ اور کس نیکی سے کتنی، بلکہ کتنے سالوں کی برائیاں معاف کر دی جاتی ہیں۔ ان کی تفصیل ذکر کرنا شروع کر دی جائے تو بات پھر طویل ہو جائے گی۔ لہذا یہاں چند اشارات پر ہی اکتفا کرتے ہیں کہ زیادہ نہیں آپ کم از کم سورہ ہود کی اسی آیت کا پس منظر یا سببِ نزول ہی کتبِ تفسیر سے پڑھ لیں۔ یا پھر وضو کے فضائل، نمازِ پنجگانہ کے فضائل، عمرہ کے فضائل، رمضان کے فضائل، یومِ عرفہ و عاشوراء کے روزے کے فضائل، جمعہ کے فضائل، حج کے فضائل اور دو مسلمانوں کے باہم مل کر سلام و مصافحہ کے فضائل ہی پڑھ لیں۔ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی کہ اللہ تعالیٰ کس طرح نیکیوں کی وجہ سے برائیوں کو معاف کرتا ہے۔

بھول چوک معاف:

اور یہ تو برائیاں جو عمداً یعنی جان بوجھ کر کی جاتی ہیں۔ جو فطرتِ انسانی کے تقاضوں کے تحت شیطان کے بہکاوے میں آکر ہو جاتی ہیں۔ انہیں بھی اللہ تعالیٰ موقع بموقع نیک اعمال کے ذریعے معاف کرتا رہتا ہے۔ جب کہ وہ افعال جو ناجائز تو ہیں۔ لیکن ان کے ارتکاب میں انسان کی مرضی کو کوئی دخل نہیں ہوتا۔ وہ اضطراری و غیر اختیاری حالت میں ہوں یا بھول چوک سے ان کا ارتکاب ہو جائے۔ اور ارتکاب کرنے والے کو بوقتِ ارتکاب پتہ بھی نہ ہو کہ مجھ سے کوئی ایسا فعل سرزد ہو رہا ہے۔ جو ممنوع ہے، تو ایسی بھول چوک پر ربِ غفور رحیم ویسے ہی کوئی مواخذہ نہیں کرتا۔ یعنی ایسے امور پر کوئی پکڑ ہی نہیں ہوتی۔ کیونکہ کتبِ فقہ و اصول میں ایک جملہ حدیث کے طور پر معروف ہے، جس میں ہے کہ:
رفع عن أمتي الخطأ والنسيان
میری امت کی بھول چوک معاف کر دی گئی ہے۔
ایسے ہی الکامل لابن عدی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً مروی ہے:
عفا لي عن أمتي الخطأ والنسيان وما استكرهوا عليه
ارواء الغلیل 123/1. تلخیص الحیبر 283/1/1
میری امت کی بھول چوک اور مجبوری میں کیے گئے افعال معاف کر دیے گئے ہیں۔
لیکن اس روایت کی سند کے دو راوی عبدالرحیم اور اس کے باپ زید دونوں پر محدثین نے سخت تنقید کی ہے۔ اور پہلے کو کذاب اور دوسرے کو ضعیف کہا ہے۔
(حوالہ بالا)
لہذا یہ روایت تو قابلِ حجت نہیں۔ اور پہلا معروف جملہ حدیث کے طور پر مشہور ہے۔ لیکن وہ حدیث ثابت نہیں ہے۔ بلکہ اس مفہوم کی حدیث دراصل سنن ابن ماجہ و بیہقی میں ہے۔ جو کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ہی مرفوعاً مروی ہے۔ جس میں وہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إن الله وضع عن أمتي الخطأ والنسيان وما استكرهوا عليه
صحیح ابن حبان 348/7 – ارواء ایضاً، تلخیص الحبیر 281/1/1 – مشکوٰۃ 771/3 – نصب الرایہ 660-64/2 – 233/3 بیروت
بے شک اللہ تعالیٰ نے میری امت کو بھول چوک اور مجبوری میں کیے گئے افعال معاف کر دیے ہیں۔
جب کہ ابن ماجہ و بیہقی میں حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ہیں:
إن الله تجاوز عن أمتي الخطأ والنسيان وما استكرهوا عليه
صحیح ابن ماجہ 347/1 و مشکوٰۃ ایضاً
اللہ تعالیٰ نے میری امت کے بھول چوک اور مجبوری و ناچاری میں کیے گئے افعال کو معاف کر دیا ہے۔
اور یاد رہے کہ اس حدیث کا ایک دوسرا طریق بھی ہے۔ جسے امام طحاوی رحمہ اللہ نے ”شرح معانی الآثار“ میں، دارقطنی نے” سنن“ میں، حاکم نے ”مستدرک“میں، ابن حبان نے ”صحیح“ میں، اور ابن حزم نے” اصول الاحکام “میں روایت کیا ہے۔ اور یہ حدیث حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے تین دیگر طرق سے بھی مروی ہے۔ ان میں سے طریقِ ثانی کو امام حاکم نے بخاری و مسلم کی شرط کے مطابق صحیح قرار دیا ہے۔ اور علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ نے اس سے حجت اخذ کی ہے۔ اور علامہ احمد شاکر رحمہ اللہ نے اصول الاحکام کے حاشیے میں اسے صحیح کہا ہے۔ اور ابن حبان رحمہ اللہ نے بھی اسے صحیح کہا ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اسے اربعین اور ”روضہ الطالبی“ن میں حسن درجے کی حدیث شمار کیا ہے۔ جب کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ”تلخیص الحبیر“ میں امام نووی کی تحسین کو برقرار رکھا ہے۔
الاربعین نووی صفحہ 167 تحقیق عبدالرحیم انصاری قطر – تلخیص الحبیر 281، 283/1/1 – ارواء 123، 124/1
ایسے ہی یہ حدیث حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ، ابن عمر رضی اللہ عنہما، ابوبکرہ رضی اللہ عنہ، ابودرداء رضی اللہ عنہ سے، اور حسن بصری رحمہ اللہ سے مرسلاً بھی مروی ہے۔ اور ان سب میں بعض اسباب پائے جاتے ہیں۔ جن کی تفصیل علامہ زیلعی رحمہ اللہ نے ”نصب الرایہ“ میں اور حافظ ابن رجب رحمہ اللہ نے ”شرح الاربعین“ یعنی ”جامع العلوم والحکم“ (350-352) میں ذکر کی ہے۔
جب کہ امام سخاوی رحمہ اللہ نے ”المقاصد الحسنہ“ ص230 میں لکھا ہے کہ ان تمام طرق سے پتہ چلتا ہے کہ اس حدیث کی کوئی اصل ضرور ہے۔
النصب الرایہ 660-650/2 – احیاء التراث عربی – جامع العلوم والحکم فی 350-352 دار المعرفہ
اور اس سب کے بیان کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ ابن ابی حاتم نے اپنے والد سے اور عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اپنے والد سے اس حدیث کے بارے میں جو جرح نقل کی ہے۔ اور بعض دیگر اہل علم نے بھی کلام کیا ہے۔ اس کے بارے میں وضاحت ہو جائے کہ بعض نے جرح کی ہے تو کتنے ہی محدثین نے اسے حسن اور صحیح بھی قرار دیا ہے۔ اور دورِ حاضر کے معروف محدث شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے بھی ”ارواء الغلیل، تحقیق مشکوٰۃ“ اور صحیح ابن ماجہ میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
بحوالہ ارواء الغلیل 124/1
اور جرح کا معقول جواب دینے کے علاوہ صحیح مسلم شریف سے ایک حدیث بھی وارد کی ہے۔ جسے ان سے قبل علامہ ابن رجب رحمہ اللہ نے بھی ”شرح الاربعین“ میں نقل کیا ہے، اور اسے زیرِ بحث حدیث کی شاہد و مؤید قرار دیا ہے، جس میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں:
لما نزلت ﴿رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا﴾ قال الله تعالىٰ قد فعلت
مسلم مع نووی 846/2/1 ، جامع العلوم ص 357
جب یہ آیت نازل ہوئی جس میں ارشادِ الہی ہے: اے ہمارے پروردگار ہماری بھول چوک پر ہمارا مواخذہ نہ کرنا۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ایسا ہی کروں گا۔
اور صحیح مسلم میں ہی یہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔ اور حافظ ابن رجب رحمہ اللہ نے جو کہا ہے کہ کسی نے بھی اس حدیث کو مرفوعاً بیان نہیں کیا، تو بات دراصل یہ ہے کہ ان کے اس قول سے حدیث پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ کیونکہ یہ ایسی بات ہے کہ جس میں رائے یا اجتہاد کو کوئی دخل حاصل ہی نہیں۔ لہذا ایسی حدیث مرفوع کے حکم میں ہی ہوتی ہے۔
ایضاً
غرض اس ساری تفصیل سے معلوم ہوا کہ بھول چوک معاف ہے۔ اور قبلہ رو تھوکنا ممنوع ہے۔ اگر کوئی جان بوجھ کر تھوکے گا، تو اس کا مواخذہ ہوگا، جیسا کہ احادیث میں وعید گزری ہے۔ اور اگر کبھی بھول چوک سے ہو جائے تو اللہ غفور رحیم ہے۔ بھول چوک کے احکام کی تفصیل کے لیے دیکھیے جامع البیان والحکم لابن رجب، ص352-356، اور النسیان و آثره فی الاحکام الشرعیہ للشیخ یحییٰ حسین الفیفی، طبع مؤسسہ الرسالہ بیروت، فانہ کتاب مهم فی الموضوع
(اس سلسلے میں (قبلہ رو مت تھوکئے) اور احترامِ قبلہ کے عنوان کے تحت ہمارا ایک مفصل مقالہ ماہنامہ ”محدث“ بنارس اور ماہنامہ ”صراط مستقیم“ اور پاکستان کے بعض مجلات میں شائع ہو چکا ہے۔)
آدابِ مسجد اور آدابِ کعبہ کے مابین مشترک یہ موضوع تو ضروری حد تک مکمل ہوا، جب کہ دیگر کتنے ہی آداب و احکامِ مساجد بھی باقی ہیں۔جن میں سے خاص خاص امور کا تذکرہ ضروری ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے