دائمی نقشہ اوقات نماز کی شرعی حیثیت
متعدد علماء سے اس کی ممانعت و مخالفت منقول ہے لیکن راجح قول جواز کا ہی ہے۔
(صدیق حسن خانؒ) انہوں نے اسے علم نجوم کی ایک صورت کہتے ہوئے اس کا رد کیا ہے۔
[الروضة الندية 204/1]
(امیر صنعانیؒ ) بالاتفاق یہ بدعت ہے اور پوری دنیا کے علماء میں سے کوئی بھی عالم یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ دور نبوی یا دور خلفائے راشدین میں یہ عمل موجود تھا لہذا یہ عمل صرف بدعت ہے جو کہ غالباََ خلیفہ مامون الرشید کے عہد میں شروع ہوا۔
[سبل السلام 310/2-311]
(جلالؒ) ایسا کوئی عمل نہ تو نبی صلى الله عليه وسلم سے ثابت ہے اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء میں سے کسی سے اس کا ثبوت ملتا ہے لہذا یہ ظاہر بدعت اور سنت کی مخالفت ہے۔
[ضوء النهار 424/2]
بعض اہل علم نے تو یہاں تک دعوی کر دیا ہے کہ دلائل صحیحہ کے مطابق درست نقشہ اوقات نماز مرتب کرنے والے اہل علم کو کیلنڈر کی کتابت و طباعت پر زر تعاون مبلغ بیس ہزار (20,000) روپے حق خدمت دیا جائے گا۔ انشاء الله ہے کوئی عالم جو دائمی نقشہ اوقات نماز پنجگانہ وطریقہ نماز مسنون مرتب کرے۔
[اوقات نماز كي تحقيق از عبد الرشيد انصاري ص/17]
(البانیؒ) ظاہر ہوتا ہے کہ صاحب سبل السلام اور اس کے بعد شارح (الروضتہ الندیہ، صدیق حسن خانؒ ) ممنوع علم نجوم (جو کہ ستاروں کے ذریعے علم غیب کا دعوی کرنا ہے ) اور علم فلک و میقات اور سورج، چاند اور ستاروں کی منزلیں مقرر کرنے کے علم کے درمیان فرق نہیں جانتے حالانکہ یہ علوم ایسے قطعی دلائل سے صحیح ثابت ہیں جو کہ صحیح حساب پر مبنی ہیں اور انہی کے ذریعے کسوف و خسوف (سورج یا چاند گہن ) ، نماز اور مہینوں کے اوقات اور ان کے علاوہ دیگر اشیاء کے متعلق معلوم کیا جاتا ہے۔ فی الحقیقت یہ علم نہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھا اور نہ ہی خلفائے راشدین کے زمانے میں تھا لیکن ہم اسے بدعت کا نام نہیں دے سکتے۔ کیونکہ ہر ایسا جدید علم جو لوگوں کے لیے نفع رساں ہو مسلمانوں کے بعض احباب پر اس کا سیکھنا فرض ہے تا کہ مسلمانوں کو قوت مہیا ہو اور امت اسلامیہ ترقی کرے۔
اور بدعت صرف وہی چیز ہے جسے لوگ عبادات کی انواع و اقسام میں ایجاد کر لیں نہ کہ (وہ بدعت ہے ) جسے عبادات کے علاوہ دیگر اشیاء میں ایجاد و دریافت کیا گیا ہو اور نہ ہی یہ شریعت کے قواعد کے خلاف ہے اور نہ ہی اصلاً بدعت ہے۔
[التعليقات الرضية على الروضة الندية 234/1]
(خطابیؒ) وہ علم نجوم جس کے ذریعے تجربہ و مشاہدہ کے بعد زوال شمس اور سمت قبلہ معلوم کی جاتی ہے اس کا حاصل کرنا ممنوع نہیں ہے کیونکہ اس میں صرف یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ جب تک سایہ کم ہوتا جائے گا سورج مشرقی کنارہ سے وسط آسمان کی طرف بڑھتا جائے گا اور جب سایہ زیادہ ہونے لگے گا تو وسط آسمان سے سورج مغربی کنارے کی طرف گرنا شروع ہو جائے گا اور یہ ایک صحیح علم ہے جس کا ادراک مشاہدے سے ہوتا ہے البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ اس فن کے جاننے والوں نے ایسے آلات ایجاد کر لیے ہیں کہ جن کی وجہ سے آدمی سورج کی رفتار کا ہر وقت معائنہ کرنے کا محتاج نہیں رہا اور جو ستاروں کے ذریعے قبلہ کی سمت معلوم کی جاتی ہے تو وہ ایسے ستارے ہیں جن کے مطالعہ سے ایسے اہل علم نے قوانین وضع کیے ہیں جن کے دینی شغف اور معرفتِ اسلام میں ہمیں کوئی شک نہیں اور ہم انہیں اس معاملے میں سچا سمجھتے ہیں ۔
[فتح المجيد ص / 257]
(ابن تیمیہؒ) علم نجوم کی دو قسمیں ہیں:
➊ ایسا علم جس کے ذریعے ماہ و سال کا تعین کسوف و خسوف اور سمتوں کی معلومات حاصل کی جاتی ہے وہ علم ہیئت ہے اور جائز ہے۔
➋ ایسا علم جس میں ستاروں کے ذریعے انسانی زندگی کی قسمت کا حال معلوم کیا جاتا ہے وہ کفر و شرک ہے۔
[مزيد تفصيل كے ليے ملاحظه هو: مجموع الفتاوي 102/35-120 ، 139-142 ، 108/25-110]
(راجح) علم نجوم کی وہ قسم جسے جادو گر، کاہن اور نجومی اختیار کرتے ہوئے علم غیب، قسمت کا حال، گمشدہ اشیاء کا پتہ اور آئندہ حالات و واقعات کے علم کا دعوی کرتے ہیں وہ بلا شک و شبہ نا جائز ہے لیکن ایسا علم نجوم جسے دوسرے لفظوں میں علم ہیئت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور جس کے ذریعے سمتوں کا تعین ، ماہ و سال کی معلومات اور کسوف و خسوف (یعنی پہلے خبر دار کر دیا جاتا ہے کہ فلاں وقت میں سورج گہن ہوگا اور پھر دنیا دیکھتی ہے کہ اس وقت سورج گہن ہوتا ہے لیکن کوئی عالم بھی یہ فتوی نہیں لگا تا کہ یہ علم غیب کا دعوی ہے تو یقیناً ایسا ہی ہے کہ یہ علم غیب نہیں ہے بلکہ تجربہ ومشاہدہ کا نتیجہ ہے ) وغیرہ کے اوقات معلوم کیے جاتے ہیں وہ ممنوع نہیں ہے اس لیے اگر اس علم کے تحت نمازوں کے اوقات بھی مقرر کر دیے جائیں تو یقینا اس میں کوئی قباحت نہیں ۔