خلاصہ
- دنیا کا ہر نظامِ زندگی ایک آئیڈئیل تصور پر مبنی ہوتا ہے، جس کا مقصد معاشرے کو ایک مثالی حالت کی طرف لے جانا ہوتا ہے۔
- علم معاشیات کا مکمل مسابقتی نظام بھی ایک آئیڈئیل ہے، جیسے اسلام میں خیر القرون کا تصور۔
- جدید دنیا کی تبدیلیاں جمہوریت کی بجائے مخصوص علمی ڈسکورس کے تحت ہو رہی ہیں۔
- اسلامی آئیڈئیل خیر القرون ہے، اور اس کی طرف مراجعت ضروری ہے تاکہ اسلامی طرز زندگی کو اپنایا جا سکے۔
- جو لوگ خیر القرون کو ممکن نہ ہونے کی بنیاد پر رد کرتے ہیں، انہیں معاشیات کے مکمل مسابقتی نظام کو بھی اسی بنیاد پر رد کرنا چاہیے۔
علم معاشیات میں مثالی نظام (Ideal-Type) کا تصور
علم معاشیات میں "مکمل مسابقت” (Perfect Competition) کا تصور اسی آئیڈیل یا مطلوبہ نظام کی ایک مثال ہے۔ اس میں مفروضہ یہ ہے کہ اگر تمام لوگ ذاتی اغراض کی جستجو کریں اور تمام معاشرتی اور معاشی عوامل کامل معلومات اور آزادی کے تحت کام کریں، تو ایک ایسا نظام وجود میں آئے گا جس میں سرمائے کی زیادہ سے زیادہ افزائش ممکن ہو جائے گی۔ یہ نظام بظاہر ایک مثالی حالت کی نمائندگی کرتا ہے، جو حقیقت میں کبھی مکمل طور پر حاصل نہیں ہو سکتا، لیکن یہ معاشی پالیسیاں بنانے کے لیے ایک پیمانہ فراہم کرتا ہے۔
اس تصور کے تین بنیادی مقاصد ہیں:
- معیاری پیمانہ فراہم کرنا: تاکہ موجودہ حالات کا موازنہ کیا جا سکے کہ وہ مطلوبہ آئیڈیل سے کتنے دور یا نزدیک ہیں۔
- حکمت عملی کی سمت متعین کرنا: تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ کس طرف معاشرے کو تبدیل کرنا ہے۔
- عملی اقدامات کی نشاندہی کرنا: تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ مطلوبہ آئیڈیل کی طرف پہنچنے کے لیے کون سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
آئیڈیل کا کردار اور اس کی اہمیت
آئیڈیل کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ وہ مکمل طور پر حاصل ہو جائے، بلکہ یہ ایک رہنمائی فراہم کرتا ہے کہ معاشرہ کس سمت میں آگے بڑھے۔ جیسے علم معاشیات میں مکمل مسابقت کا تصور ایک مثالی حالت ہے، اسی طرح اسلام میں "خیر القرون” (بہترین زمانہ) یعنی رسول اللہ ﷺ کے زمانے اور اس کے بعد صحابہ کرام کے دور کو ایک مثالی دور کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس آئیڈیل کی طرف مراجعت کرنا یعنی اس طرز زندگی کو اپنانا اسلام کی بنیاد پر معاشرتی اور سیاسی اصلاحات کا مقصد ہونا چاہیے۔
جدید دنیا اور اسلام کا آئیڈئیل
موجودہ تبدیلی کا مقصد
جدید دنیا میں جو تبدیلیاں ہو رہی ہیں، وہ یونہی نہیں ہو رہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک مخصوص علمی ڈسکورس ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد پر کام کرتا ہے۔ اسی طرح، اسلام کا آئیڈیل "خیر القرون” ہے، جس کی طرف مراجعت کا مقصد اسلامی طرز زندگی کو اپنانا ہے۔
جمہوری عمل یا علمی ڈسکورس
جدید دنیا میں جمہوری عمل بظاہر عوام کی رائے پر مبنی ہے، لیکن درحقیقت یہ مخصوص علمی ڈسکورس کے زیر اثر تشکیل پاتی ہے۔ یہ ڈسکورس نہ صرف پالیسی سازی میں بلکہ لوگوں کی رائے بنانے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔
اسلام کا آئیڈئیل
اسلام کا آئیڈئیل وہی ہے جو رسول اللہ ﷺ نے خیر القرون کے طور پر بیان کیا۔ یہ آئیڈئیل صرف ماضی کی بات نہیں بلکہ ہر دور میں رہنمائی فراہم کرنے والا پیمانہ ہے۔
مکمل مسابقت اور خیر القرون کی مماثلت
اگر کوئی خیر القرون کو ممکن نہ ہونے کی بنیاد پر رد کرتا ہے، تو انہیں علم معاشیات کے مکمل مسابقتی نظریے کو بھی رد کرنا چاہیے، کیونکہ وہ بھی ایک نظریاتی تصور ہے جو حقیقت میں کبھی مکمل طور پر نہیں پایا جا سکتا۔
پالیسی سازی اور آئیڈئیل
پالیسی سازی ہمیشہ کسی آئیڈئیل کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ اگر کوئی نظریہ اپنے آئیڈئیل سے کٹ جائے تو وہ اپنی شناخت کھو دیتا ہے اور دیگر نظریات میں اپنی بقا تلاش کرتا ہے، جیسے کہ بعض جدید مسلم مفکرین نے اسلام کو جمہوریت یا سوشلزم کے ساتھ نتھی کرنے کی کوشش کی۔
سوشل سائنسز کا حقیقی مقصد
سوشل سائنسز، جیسے معاشیات، مثبت (positive) علوم نہیں بلکہ نارمیٹو (normative) علوم ہیں، جن کا مقصد دنیا کو سرمایہ دارانہ نظم کے تحت ڈھالنے کا منصوبہ بنانا ہے، اور یہ کسی بھی آئیڈئیل نظام کی طرح اپنے مقاصد کے حصول کے لیے پالیسیاں بناتی ہیں۔