خوارج کی ابتدا
امت مسلمہ میں سب سے پہلا گروہ جس نے سنتِ نبویؐ اور صحابہؓ کے تعامل کو نظرانداز کرتے ہوئے قرآن کو براہ راست اپنی عقل و فہم کی بنیاد پر سمجھنے کی کوشش کی، وہ "خوارج” تھا۔ نبی اکرم ﷺ نے اس گروہ کی پیشگوئی فرمائی تھی کہ یہ لوگ قرآن کی بہت زیادہ تلاوت کریں گے، ان کی عبادات عام مسلمانوں کو حیران کریں گی، لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا اور یہ قرآن کے نام پر لوگوں کو گمراہ کریں گے۔
ذوالخویصرہ کا اعتراض
مسلم شریف میں درج ہے کہ نبی اکرم ﷺ غزوہ حنین کے بعد مالِ غنیمت تقسیم فرما رہے تھے۔ اس موقع پر ذوالخویصرہ نے اعتراض کیا کہ حضورؐ عدل سے کام نہیں لے رہے۔ اس گستاخی پر حضرت عمرؓ اور حضرت خالد بن ولیدؓ نے اسے قتل کرنے کی اجازت مانگی، لیکن حضورؐ نے منع فرمایا۔ آپؐ نے پیشگوئی کی کہ اس شخص کی قوم میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو عبادات میں کمال کے باوجود دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکلتا ہے۔
حضرت علیؓ اور خوارج کا اختلاف
حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کے درمیان جنگِ صفین کے دوران جب حضرت معاویہؓ نے ثالثی کی پیشکش کی تو حضرت علیؓ نے اسے قبول کیا۔ مگر حضرت علیؓ کے لشکر میں شامل چھ ہزار افراد، جن کی اکثریت بنو تمیم سے تھی، نے اس فیصلے کو غلط قرار دیا۔ یہ افراد "حروراء” کے مقام پر جمع ہوئے اور عبد اللہ بن وہب راسی کو اپنا امیر مقرر کر لیا۔ اس علیحدگی کی وجہ سے یہ لوگ "خوارج” کہلائے۔
خوارج کے عقائد اور شدت پسندی
- خوارج کبیرہ گناہوں کے مرتکب کو کافر قرار دیتے تھے اور ان کا قتل جائز سمجھتے تھے۔
- خلافتِ راشدہ کو صرف حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ تک محدود مانتے تھے، جبکہ حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کو مخصوص اوقات تک خلیفہ تسلیم کرتے تھے۔
- ازارقہ: کبیرہ گناہ کرنے والے کی توبہ بھی قبول نہیں ہوتی اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔
- اباضیہ: خارجیوں کا ایک معتدل گروہ جو آج بھی عمان میں موجود ہے۔
نہروان کی جنگ اور خوارج کا تسلسل
حضرت علیؓ نے صفر 38ھ میں نہروان کے مقام پر خوارج کے خلاف جنگ کی اور انہیں شکست دی۔ تاہم، یہ گروہ ختم نہ ہوا بلکہ مختلف اوقات میں اپنی حکومتیں قائم کرتا رہا۔ 144ھ میں انہوں نے "سلطنت رستمیہ” کی بنیاد رکھی، جو 296ھ میں فاطمیوں کے ہاتھوں ختم ہوئی۔
خوارج اور علماء کے مکالمے
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کا مکالمہ
حضرت علیؓ کے حکم پر حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے خوارج سے بات کی اور ان کے تین اعتراضات کا جواب دیا:
- ان الحکم الا للہ: شریعت میں ثالثی کی دیگر مثالوں سے ان کا اعتراض رد کیا۔
- قیدیوں اور مالِ غنیمت کا سوال: حضرت عائشہؓ کو ام المومنین قرار دیتے ہوئے ان کے اعتراض کو غلط ثابت کیا۔
- امیر المومنین کے لقب کا معاملہ: صلح حدیبیہ کی مثال دیتے ہوئے وضاحت کی۔
حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا مکالمہ
حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے خوارج کے دو نمائندوں سے مدلل بات چیت کی اور ان پر واضح کیا کہ ان کا طرزِ عمل قرآن و سنت اور صحابہؓ کے طرز عمل کے خلاف ہے۔ حبشی نمائندہ ان کے دلائل سے متاثر ہو کر توبہ کر کے ان کے ساتھ شامل ہو گیا۔
امام ابو حنیفہؒ کا مکالمہ
جب خوارج کے سردار ضحاک نے کوفہ پر قبضہ کر لیا، تو امام ابو حنیفہؒ کو گرفتار کیا گیا۔ اپنی حکمت اور دانشمندی سے امام صاحب نے خوارج کو نہ صرف قائل کیا بلکہ کوفہ کے عام مسلمانوں کو قتل عام سے بچایا۔
خوارج کا نقصان اور اہل السنہ والجماعت کا اصول
خوارج نے قرآن کو اپنے محدود فہم کے تحت سمجھنے اور من مانی تشریحات کرنے کی روش اپنائی، جس سے امت کو خونریزی اور انتشار کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔
اس کے برعکس اہل السنہ والجماعت کا اصول یہ ہے کہ قرآن و سنت کو صحابہؓ کی تشریحات اور طرز عمل کی روشنی میں سمجھا جائے۔