خلفائے راشدین سے محبت

مشہور صحابی سیدنا ابو عبدالرحمٰن سفینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، مولی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
خلافة النبوة ثلاثون سنة، ثم يؤتي الله الملك أو ملكه من يشاء
خلافتِ نبوت تیس سال رہے گی، پھر اللہ جسے چاہے گا اپنا ملک عطا فرمائے گا ۔
[سنن ابي داؤد ، كتاب السنة باب فى الخلفاء ح ۴۶۴۶ وسنده حسن]
اس حدیث کو ترمذی نے حسن [۲۲۲۶] ابن حبان [الإحسان: ۶۹۴۳/۶۹۰۴]
اور احمد بن حنبلؒ نے [السنة للخلال: ۶۳۶] نے صحیح کہا ہے ۔
نیز دیکھئے: [الحديث: ۸ ص۱۱]
اس حدیث کے راوی سیدنا سفینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے شاگرد کو خلفائے راشدین کی تعداد گن کر سمجھائی۔
➊ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دو سال۔
➋ عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دس سال۔
➌ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارہ سال۔ اور
➍ علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چھ سال۔
امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ:
”خلافت کے بارے میں سفینہ کی (بیان کردہ) حدیث صحیح ہے اور میں خلفاء (راشدین کی تعداد) کے بارے میں اس حدیث کا قائل ہوں۔ “
[جامع بيان العلم فضله ۲۲۵/۲، الحديث: ۸ ص ۱۲]
سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ:
صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم، ثم أقبل علينا، فوعظنا موعظة بليغة ذرفت منها العيون ووجلت منها القلوب، قال قائل: يا رسول الله ! كان هذه موعظة مودع، فماذا تعهد إلينا؟ فقال: أوصيكم بتقوي الله والسمع والطاعة و إن عبد حبشي، فإنه من يعش منكم بعدي فسيري اختلافا كثيرا، فعليكم بسنتي وسنة الخلفاء المهديين الراشديين تمسكوابها وعضوا عليها بالنواجذ، وإياكم و محدث الأمور، فإن كل محدثة بدعة و كل بدعة ضلالة
ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی پھر ہماری طرف رخ کرکے انتہائی فصیح اور بلیغ و عظ فرمایا جس سے (ہمارے) دل دھل گئے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ کسی نے کہا: یا رسول اللہ ! گویا یہ الوداع کہنے والے کا وعظ ہے، آپ ہمیں کیا (حکم) ارشاد فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں۔ اور اگر حبشی بھی تمہار ا امیر بن جائے تو (اس کا حکم) سننا اور اطاعت کرنا۔ کیونکہ میرے بعد جو شخص زندہ رہا وہ بہت اختلاف دیکھے گا ۔ پس میری سنت اور میرے خلفائے راشدین مھدیین کی سنت کو مضبوطی سے، دانتوں کے ساتھ پکڑ لینا۔ اور محدثات سے بچنا کیونکہ (دین میں) ہر محدث بدعت ہے۔ اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔
[سنن ابي داؤد: ۴۶۰۷ واسناده صحيح]
اسے ترمذی (۲۶۷۶) ابن حبان (موارد: ۱۰۲) حاکم (المستدرک ۱/۹۶، ۹۵) اور ذہبیؒ نے صحیح کہا ہے۔
اس صحیح حدیث جن میں خلفائے راشدین کی سنت کو مضبوطی کے ساتھ پکڑنے کا حکم دیا گیا ہے ان سے سیدنا ابوبکر الصدیق، سیدنا عمر الفاروق ، سیدنا عثمان ذوالنورین اور سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہم مراد ہیں۔
ان میں سے پہلے دو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سسر اور دوسرے دو داماد ہیں۔ پہلے دونوں خلفائے راشدین میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سابق الایمان اور افضل بعد رسول صلی اللہ علیہ وسلم علّی الاطلاق ہیں۔ پھر شہید محراب کا نمبر ہے۔ دوسرے دونوں خلفائے راشدین میں سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بیٹیوں کے شوہر ہیں اور سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے خاوند ہیں۔
ابوالحسن الاشعری (متوفی ۳۲۴؁ھ) فرماتے ہیں:
ولدين الله بأن الأئمة الأربعة خلفاء راشدون مهديون فضلاء لا يوازهم فى الفضل غيرهم
اور ہمارا یہ مذہب ہے کہ ائمہ اربعہ (ابوبکروعمروعثمان و علی) خلفائے راشدین مھدیین ہیں۔ یہ سب (دوسروں سے) افضل تھے، دوسرا کوئی (امتی) فضلیت میں ان کے برابر نہیں ۔
[الابانة عن اصول الديانه ص ۶۰فقره ۲۹]
ابو جعفر الطحاوی (متوفی ۳۲۱؁ھ) سے منسوب کتاب عقیدہ طحاویہ میں بھی انہی خلفاء کو خلفائے راشدین قرار دیا گیا ہے ۔
دیکھئے: [شرح عقيده طحاويه بتحقيق الشيخ الالباني ص ۵۳۳۔ ۵۴۸]
ہر مسلمان پر یہ فرض ہے کہ وہ ان خلفائے راشدین اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے محبت رکھے۔

قارئین کرام !
محبت کے نام سے ”الحدیث“ میں جو سلسلہ شروع کیا گیا ہے اسے انشاء اللہ آخر میں ”محبت ہی محبت“ کے نام سے شائع کیا جائے گا۔ الحدیث کے آئندہ شماروں میں بالترتیب سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے محبت کے مضامین لکھے جائیں گے تاکہ اہلِ ایمان کے ایمان میں اضافہ ہو۔ ان شاء اللہ العزیز

تنبیہ:
صحیح مسلم کے بعض نسخوں میں عن أبى ريحانة عن سفينة کی سندسے بیان کردہ ایک حدیث کے بعد لکھا ہوا ہے کہ: قال: وقد كان كبر و ما كنت أثق بحديثه اس نے کہا: اور وہ بوڑھا ہوگیا تھا اور میں اس کی حدیث پر اعتماد نہیں کرتا تھا۔ [درسي نسخه ج ۱ ص ۱۴۹ ح ۳۲۶و مع شرح النووي ج ۴ص ۹وفتح الملهم ج ۳ ص ۱۶۴]
اس قول میں بوڑھے سے مراد کون ہے؟ اس کی تشریح میں امام نووی ؒ وغیرہ فرماتے ہیں کہ: هو سفينة وہ سفینہ ہے ۔
[شرح صحيح مسلم للنووي ۹/۴]
جبکہ حافظ ابن حجر کے طرزِ عمل اور ابن خلفون کے قول سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ هو ابوريحانة وہ ابوریحانہ (عبداللہ بن مطر ) ہے۔
دیکھئے: [تهذيب التهذيب ج۶ ص ۳۵، ۳۴]
اور یہی بات راجح ہے ، یعنی اسماعیل بن ابراہیم (عرف ابن علیہ) کے نزدیک ابوریحانہ عبداللہ بن مطر بوڑھا ہوگیا تھا اور وہ (ابن علیہ) اس (ابوریحانہ) پر اعتماد نہیں کرتے تھے۔
یاد رہے کہ جمہور محدثین کے نزدیک ابوریحانہ موثق ہے لہذا وہ حسن الحدیث ہے ۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے