خلافت کا قیام دینی اور فطری تقاضوں کی وضاحت

مقدمہ

تحریر “خلافت ناگزیر ہے” کے رد میں دی گئی ایک دلیل یہ ہے:

"اجتماعی نظام کے قیام جیسے فطری تقاضے فطرت کے دائرے تک ہی محدود ہیں۔ فطری تقاضے بدیہات کی حیثیت رکھتے ہیں، جن پر انسان ویسے ہی عمل کرتا ہے، اس لیے انہیں شریعت کے احکامات بنانے کی ضرورت نہیں۔ دین ان فطری تقاضوں کے بعد انسان سے مخاطب ہوتا ہے۔”

یہ دعویٰ کم از کم چھے بنیادی غلط فہمیوں پر مبنی ہے۔ اگر دعویٰ کی بنیاد ہی کمزور ہو تو اس پر مبنی فہم دین بھی غلط ہوگا۔

1. فطرت حجت نہیں

فطرت کو شریعت کے احکام کا ماخذ ماننا درست نہیں۔ اس مفروضے کی بنیاد پر خیر و شر کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔ دین فطری حقائق کے بعد نہیں بلکہ انہیں اپنے احکامات کے تحت دیکھتا ہے۔ مثال کے طور پر:

  • خوراک کا حصول: اگر کوئی شخص بلاوجہ بھوکا رہ کر اپنی جان تلف کرے تو یہ حرام ہے، اور حرام سے بچنا دینی تقاضا ہے۔ دین یہ حکم دیتا ہے کہ خوراک مہیا کی جائے تاکہ شرعی احکامات (جیسے خودکشی کی ممانعت) پر عمل ممکن ہو۔
  • لباس کا معاملہ: لباس پہننا محض فطری تقاضا نہیں بلکہ شرعی حکم ہے۔ خدا لباس کے حدود مقرر کرتا ہے، اور اسے شریعت کے دائرے میں دیکھنا ضروری ہے۔

نتیجہ: خوراک اور لباس جیسے معاملات کو دین کے بجائے فطرت کا حصہ قرار دینا اصولاً غلط ہے۔ ان معاملات کو شریعت سے الگ کر کے دیکھنے کا نقطۂ نظر درست نہیں۔

2. حج اور استطاعت کا مغالطہ

مولانا وحید الدین خان کی کتاب سے اخذ کردہ دلیل پیش کی گئی ہے کہ:

"حج دینی فرض ہے، لیکن حج کی استطاعت پیدا کرنا دینی فرض نہیں۔”

یہ دلیل قیام خلافت کی ذمہ داری کو رد کرنے کے لیے دی گئی، لیکن اس میں کئی مسائل ہیں:

  • فرض عین اور فرض کفایہ کا خلط ملط ہونا: اگر حج کی ادائیگی ممکن نہ رہے (مثلاً کفار مکہ حج بند کر دیں)، تو کیا امت پر حج کے لیے راستہ کھولنے کی ذمہ داری نہیں ہوگی؟
  • اس صورتحال میں کیا یہ کہا جائے گا کہ "حج فرض ہے لیکن استطاعت پیدا کرنا فرض نہیں”؟
  • اجتماعی وسائل کی ضرورت: مسلمانوں کے لیے دنیاوی وسائل کا حصول "فرض کفایہ” ہے تاکہ زکوٰۃ فرض ہو اور امت فقروفاقہ کا شکار نہ ہو۔

خلاصہ: حج کی استطاعت اور دیگر اجتماعی ذمہ داریوں کے درمیان فرق کو سمجھنا ضروری ہے۔ دین نے صرف فرائض ہی نہیں بلکہ ان فرائض کو ممکن بنانے کے وسائل کی اہمیت بھی واضح کی ہے۔

3. دین کے فرائض اور عمومی احکامات

بعض افراد یہ سمجھتے ہیں کہ دین صرف فرائض کا مجموعہ ہے، حالانکہ یہ تصور محدود ہے۔ دین میں فرض کے علاوہ مستحب، مباح، اور دیگر احکامات بھی شامل ہیں۔

  • کسب معاش کی اہمیت: اگر ایک شخص اپنی ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود معاش کا بندوبست نہ کرے تو کیا وہ گناہگار ہوگا؟ دین کے مطابق، اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا فرض ہے۔
  • اصول: "ما لا یتم الواجب الا بہ فھو واجب” (یعنی جس شے کے بغیر واجب کی تکمیل ممکن نہ ہو، وہ بھی واجب ہوتی ہے۔)

4. جدید سکالرز کے نظریات پر نظر

جدید دینی سکالرز (مثلاً اصلاحی و غامدی مکتبۂ فکر) فطرت کو دین کا بنیادی ماخذ قرار دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بعض امور کے لیے شریعت کی ضرورت نہیں۔

  • یہ حضرات فطرت کو شریعت سے بالاتر اور مقدم سمجھتے ہیں، جو ایک غلط مفروضہ ہے۔
  • اس سوچ کی بنیاد پر وہ کئی شرعی احکامات کو غیر ضروری یا شریعت سے باہر مانتے ہیں، حالانکہ یہ دین کا حصہ ہوتے ہیں۔

مثال: “کسب معاش امت کے لیے فطری تقاضے سے بھی زیادہ واضح اور قطعی فرض ہے۔”

5. بدیہی کی مختلف اقسام

  • منطقی بدیہی: جو کسی دلیل کا لازمی نتیجہ ہو (مثلاً کھانے کے بغیر زندگی ممکن نہیں)۔
  • فطری بدیہی: جو کسی دلیل کے بغیر واضح ہو (مثلاً بھوک لگنا)۔

فقہاء کے نزدیک: بدیہی کا پہلا تصور زیادہ اہم ہے۔ فقہاء یہ اصول اپناتے ہیں کہ دین کے ثابت شدہ احکامات کے لیے جو چیز لازم ہو، وہ بھی واجب ہے۔

نتیجہ: فقہاء اور جدید سکالرز کے درمیان بدیہی کے اس فرق کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس سے جدید دینی فکر کی کئی خامیاں واضح ہو جاتی ہیں۔

6. خلافت کے قیام کی شرعی حیثیت

خلافت کی ناگزیریت ایک خالص دینی مطالبہ ہے اور دین کے ثابت شدہ احکامات کا لازمی نتیجہ ہے، نہ کہ محض فطری یا عقلی تقاضا۔

اجتماعی نظام کے قیام کی ضرورت: دین کے بنیادی احکامات کی تکمیل کے لیے لازم ہے۔ اس کا انکار دین کے اصولوں کو محدود کر کے دیکھنے کا نتیجہ ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے